خارجہ پالیسی ۔ فالٹ لائن۔۔۔۔۔۔۔۔سید عبدالناصر

خارجہ پالسی – فالٹ لائین عمران خان نے خارجہ پالیسی کے لئے ایک مشاورتی کونسل بنائی ہے جو سابقہ تجربہ کار ریٹائرڈ سفیروں اور ملک کے نامور فارن ڈپلومیٹس پر مشتمل ہے جس میں ڈاکٹرعادل نجم کو بھی شامل کیا گیا ہے جن کو ماضی میں “ستارہِ امتیاز” سے بھی نوازا گیا اور جو LUMS کے سابق وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔ اسکے علاوہ   اشرف جہانگیر قاضی، حسن عسكرى رضوى اور کچھ معروف Experts بھی شامل ہیں۔اس کونسل کے جو اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں اس میں یہ بات خاص طور پر بتائی گئی ہے کہ

“اس کونسل کا مقصد اس تاثر کو زائل کرنا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالسی صرف سیکیورٹی کے گرد گھومتی ہے اور اسکا فوکس کبھی معاشی سفارتکاری کی طرف نہیں رہا”

یہ ایک بظاہر معمولی سی خبر ہے لیکن میری نظر میں یہ ایک بڑی خبر ہے کہ اگر واقعی یہ سچ مان لیا جائے کہ ایسے ہی ہونے جارہا ہے تو قوم کو اس پر خوشی کے شادیانے بجانے چاہئیں۔ لیکن ایک عام پاکستانی   جو سول ملٹری تعلقات کو سمجھ سکتا ہے اس خبر کے سچا مان جانے پر زبردست شکوک و شبہات رکھتا ہے۔

ہماری خارجہ پالسی جو پاکستان بننے سے لیکر اب تک کبھی بلا واسطہ اور کبھی بالواسطہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہی رہی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ پاکستان ایک “سکیورٹی اسٹیٹ”  ہے جس میں ملٹری کا رول بنیادی اھمیت رکھتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اسرائیل ایک سکیورٹی ریاست ہے۔ اس بنیاد پر وجود میں آنے والا آرمی کا یہی وہ بیانیہ ہے جو پاکستان کی پوری سیاست پر حاوی رہاہے۔ ہمارے ملک کے بڑے بڑے واقعات اور ایک نہ ختم ہونیوالی سیاسی بے چینی  اسی چبقلش کا نتیجہ ہے۔ اب چاہے واجپائی کے لاھور آنے کے بعد کارگل میں جنرل مشرف کا ایڈوینچر ہو یا مودی کے لاھور آنے کے بعد فوجی حلقوں میں اشتعال، سب اسی کھینچا تانی کا نتیجہ ہے۔ پاک فوج کا یہ کردار سیاست دانوں کے ذہنوں میں اتنا واضح ہوچکا ہے کہ پچھلے دورِ حکومت
میں وزیرِ اعظم نے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے کسی کو وزیرِ خارجہ نامزد کرنے کی زحمت تک گوارہ نہیں کی۔ چونکہ انکو یہ بات معلوم تھی کہ مقتدر حلقوں کی طرف سے ابھی انکو اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے کہ وہ انڈیا، افغانستان اور امریکہ سے کسی طے کردہ پالیسی پر  اپنی مرضی سے معاملات طے کرسکیں۔

اس سب کے باوجود وزیرِ اعظم عمران خان نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب پاکستان کی خارجہ پالسی “جی ایچ کیو” میں نہیں بنے گی لیکن ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے خارجہ امور میں مشورہ ضرورلیا جائے گا”۔  لیکن ظاہر ہے کہ ان کے اس بیان سے کوئی اتنی آسانی سے یہ یقین نہیں کرلے گا کہ واقعی اندر خانہ ایسا ہی ہورہا ہوگا۔

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اس بات کا ادراک کرلیا ہے کہ پاکستان کی اب تک کی سفارتی ناکامیوں میں وہ بھی برابر کے شریک ہیں۔ اور یہ کہ اب اسکی باگ ڈور پاکستان کے  سولین حکمرانوں کے ہاتھوں میں دے دی جانی چاہئے؟ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کے ہر بڑے فیصلہ کے پیچھے فوج ہی کھڑی ہے تو اس سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس سوال کا جواب “ہاں” میں ہے۔ دوسری طرف جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ Initiative عمران خان نے بحیثیت  سربراہِ مملکت خود لیا ہے اور وہ پوری طرح اس کو عملی جامہ پہنانے میں فوج کو ساتھ لیکر چلنے میں کامیاب رہیں گے تو بھی یہ ایک اچھی خبر ہے۔ وہ اس وجہ سے کہ پی ٹی آئی کے علاوہ ملک کی ساری سیاسی جماعتیں اس وقت  اینٹی اسٹیبلشمنٹ نظریہ پر کھڑی ہیں۔ اور عمران خان جن پر لاڈلہ ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے وہ اس وقت ان معاملات میں فوج کو اپنے نقطہِ نظر پر مجبور بھی کرسکتے ہیں کیونکہ اس وقت فوج کم از کم موجودہ حکومت کے خلاف کوئی منصوبہ نہیں رکھتی۔ بصورتِ  دیگر فوج عمران خان کی شکل میں اپنی آخری حمایت سے بھی محروم ہوسکتی ہے۔ جو کسی بھی طرح اسکو قابلِ قبول نہیں ہوگا۔ اب وقت کے ساتھ ساتھ فوج کے لئے
حکومت کے کسی جائز مؤقف کے سامنے اپنے کسی مخصوص ایجنڈے کو “سکیورٹی رسک” کہ کر اس پر اصرار کرنا مشکل ہوتا جائے گا۔ خاص طور پر ایک ایسی کونسل کی تجاویز کو جس میں ملک کے نامور سفیروں اور  IR Academics شامل ہوں ویٹو(Veto) کردینا  آسان نہیں رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بہرصورت اس اقدام کے پیچھے  جو بھی محرک ہو بحیثیتِ مجموعی وہ ملک کے لئے اچھا ثابت ہوگا۔ اس اعتبار سے سول ملٹری سرد جنگ میں پچھلے تمام وزرائے اعظموں کے مقابلہ میں عمران خان میری نظر میں زیادہ مضبوط پوزیشن پر کھڑے ہیں۔ اب یہ وقت بتائے گا کہ وہ ان معاملات میں کیسے توازن پیدا کرتے ہیں۔ اور  یہی وہ معرکہ ہوگا جس میں کامیاب ہوجانا سیاسی طور پر ان کے قد کو مزید اونچا کرسکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply