دنیا زندوں کے لیے ہے۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

کھڑکی میں رکھے گملے پر نظر پڑی تو خوبصورت پھول ٹوٹ کر گملے کی زمین پر بے بس پڑا دکھائی دیا۔ اتنا دکھ ہوا کہ منہ سے “اوہو” نکلا۔ پھول کی لاش اٹھائی اور ٹھکانے لگا دی۔ آپ کے ذہن میں شاید یہ سوال اٹھا ہو کہ پھول تو ہوتا ہی بے بس ہے مگر ایسا نہیں ہے، اپنی جانب توجہ مبذول کروا لینا ٹہنی پر کھلے اور گلدان میں سجے پھول کے بس میں ہوتا ہے۔ دوسری بات آپ کے ذہن میں شاید یہ بھی آئی ہو کہ ایک پھول کے ٹوٹ کر گرنے پر اتنا دکھ کیوں؟ یقین کیجیے کھڑکی سے باہر ماہ مارچ کی تازہ برف بکھری ہوئی ہے۔ مارچ کو ماسکو اور تمام روس میں “مارتوک” کہہ کر پکارا جاتا ہے، جس کے دوران “ستو فارتوک” یعنی ایک سو ملبوسات اکٹھے پہننے کی تلقین کی جاتی ہے چناچہ یہ ان چند پھولوں کی ہمت ہے کہ وہ کھڑکی سے باہر ستمگار مارچ کا منہ چڑا رہے ہیں۔
ہمارے ملک پر تو ہمیشہ ہی روس کے سے ماہ مارچ کا ماحول رہا ہے کہ جب چاہا کوئی مارچ کرتا ہوا ملک پر قابض ہو گیا۔ شکر ہے کہ کہنے کو فی الحال جمہوریت کے تسلسل کا صرف دوسرا دور چل رہا ہے لیکن دہشت گردوں کے خلاف لڑائی، ایم کیو ایم سے نمٹے جانے اور حال میں یمن فوج بھیجے جانے کے قضیے سے تو یہی لگ رہا ہے کہ ملک میں خفیہ طور پر اب بھی روس کے ماہ مارچ کا ماحول ہے یا پھر جو بھی ہو رہا ہے ایک خاص نقطہ نظر کے حامیوں کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔
بحران تو دنیا بھر میں ہے، سیاسی بھی معاشی بھی۔ جنگ بھی دنیا بھر میں ہو رہی ہے ماسوائے امریکہ اور مغربی یورپ کے۔ یوکرین ہو یا برما، تھائی لینڈ ہو یا شام، عراق ہو یا یمن، پاکستان ہو یا کشمیر ہر جگہ ہر روز لوگ گملے میں پھولوں کی طرح گر رہے ہیں۔ اگر پھولوں کی طرح اپنی موت مرتے تب بھی اتنا قلق نہ ہوتا لیکن انہیں تو مارا جا رہا ہے، مروایا جا رہا ہے۔ ایسا کیے جانے سے ہر ملک کی مقتدر اشرافیہ اپنے اور اپنے بہی خواہوں کے سیاسی جغرافیائی مقاصد براری کر رہی ہے۔
کسی ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے نفاق کے بیج بونا، انہیں سینچ کر پروان چڑھانا اور پھر ان کی جڑوں کو مضبوط کرنے کے لیے پانی کی بجائے خون دینا کیا افراد یا تنظیموں کا ہی کیا دھرا ہوتا ہے؟ نہیں ایسا نہیں ہے۔ لال مسجد والا مولوی عزیز ہو یا داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی۔ کم علم بنیاد پرست ہوں یا باعلم یک طرفہ دانشور و صحافی۔ یہ سب تو مہرے ہوتے ہیں۔ چالیں چلنے والے، شطرنج کے مہروں کو ایک دوسرے سے بھڑانے والے تو کوئی اور ہوتے ہیں۔
ہاں وہی زندہ لوگ ہوتے ہیں جن کے لیے یہ دنیا ہے۔ مردوں یا زندہ لاشوں کے لیے کوئی اور دنیا ہوگی جس کے بارے میں ہر ایک کی اپنی رائے ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ بس یہی دنیا ہے اور زندگی ایک بار ہی ملتی ہے۔ بالعموم ایسے ہی لوگ زندگی کا لطف اٹھانے کی خاطر بہت کچھ کرتے ہیں جس سے دوسرے چاہے متاثر ہوں۔ کچھ کا کہنا یہ ہے کہ یہ زندگی عارضی ہے۔ اصل زندگی کے لیے ایک اور جہان ہے، اس سوچ کے حامل اکثر لوگ خود اس جہان کے لیے جانے سے پہلے بہت سے دوسروں کو اس جہان میں پہنچانے کے حق میں ہیں اور خود زندہ رہ کر اس دنیا پر قبضہ کرنے کا خواب نہیں دیکھتے بلکہ اس کے لیے لڑتے اور لڑواتے ہیں۔
اس دنیا کے تمام تر مصائب و معیوبات کے باوجود اس کے مناظر، مقامات، معمولات و لوازمات زندہ انسانوں کو بے حد بھاتے ہیں۔ تبھی تو وہ سیریں کرتے ہیں۔ مشروبات و فواکہات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ محبت یا محبتیں کرتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ تبادلہ ہائے خیالات کرتے ہیں۔ سوتے ہیں، جاگتے ہیں۔ بہتر لباس پہنتے ہیں۔ غرض ایسا سب کچھ کرتے ہیں جو انہیں زندہ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
پر آج ایک اور رواج ہو گیا ہے کہ زندہ رہو تو مارنے کے لیے اور مارے جاؤ تو ہمیشہ زندہ رہنے کے لیے جسے عرف عام میں شہید کہا جاتا ہے۔ شہید کبھی نہیں مرتا کا مطلب یہ ہے کہ اس کا نام زندہ ہوتا ہے کیونکہ اس نے حق کی خاطر جان دی ۔ مجھے تین پھولوں میں سے ایک کے مر کر گرے ہونے پر تو دکھ ہوا ہے لیکن اگر میں لاکھوں پھولوں کے باغیچے میں ہزاروں پھولوں کو گرا ہوا دیکھتا تو یقینا” انہیں اپنے جوتوں تلے مسلتا ہوا آگے نکل جاتا اور میری نگاہ کھلے ہوئے پھولوں کو دیکھ کر تراوت محسوس کرتی اور روح کو شاد کر دیتی۔
چنانچہ زندہ رہنے اور لوگوں کو جیتے رکھنے کی سعی کی جانی چاہیے۔ ارد گرد کا ماحول بہتر کرکے، تفریح کے مواقع فراہم کر کے، صاف پانی اور مناسب و اچھی غذا کی فراہمی یقینی بنا کر، علاج کی سہولتیں فراہم کرکے تاکہ لوگ اگر گریں بھی تو سنبھل جائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ لوگوں کو محبت کرنے کے لیے مواقع اور ماحول فراہم کرکے۔ یہ دنیا زندوں کی ہے۔ اس کے بعد کی دنیا پر آپ کا کوئی بس نہیں۔ البتہ اگر اس دنیا میں انسانوں کے لیے زندہ رہنے اور خوش خوش زندہ رہنے کے اسباب و عوامل پیدا کرنے میں آپ کا حصہ ہوگا تو شاید اگلے جہان میں بھی آپ پر کرم کیا جائے۔ یہاں مردوں کی مانند زندگی نہ گذارو تو وہاں بھی آلام سے نجات پاؤ گے، انشاءاللہ!

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply