میں آج بھی ایک غلام ہوں۔۔سعید چیمہ

میں غلام ابنِ غلام ہوں،یہ غلامی پرانے وقتوں ایسی نہیں کہ میرے جسم پر میرے آقاؤں کا حق ہے جو چاہیں تو مجھ سے آٹھوں پہر مشقت بھرا کام لیں یا پھر اپنی ملکیت جتانے کے لیے میری پیٹھ پر کوڑے برسائیں جیسے کوڑے برسانے پر اجرِ عظیم کا وعدہ ہو، اب دورِ جدید میں غلامی کا انداز بدل چکا ہے،جسمانی غلامی ختم ہوئی تو سیاسی غلامی شروع ہو گئی،میں بھی سیاسی غلام ہوں،یہ غلامی مجھے اپنے پُرکھوں سے ورثے میں ملی ہے،اس غلامی کی زنجیروں کو توڑنا میرے ایسے کمزور شخص کے لیے بہت مشکل ہے، ہماری غلامی کی ابتداء اس وقت ہوئی جب میرے دادا نے نون لیگ سے خود کو وابستہ کر لیا، نواز شریف تو میرے دادا کے لیے اس بت کا درجہ رکھتے تھے جس کی پرستش بڑی عقیدت و محبت سے کی جاتی ہو،  ابا اکثر واقعہ سناتے کہ تمہارے دادا نواز شریف کو پاکستانی قوم کا مسیحا سمجھتے تھے، ان کے نزدیک اگر پاکستان کو مسائل کی دلدل سے کوئی نکال سکتا تھا تو وہ نواز شریف تھے، میرے دادا کو نواز شریف کی آمر کی چھتری تلے پرورش  پر بھی کوئی اعتراض نہیں تھا، بلکہ وہ کہتے تھے کہ نواز شریف کو قائدِ اعظم ثانی کا لقب دیا جائے، دادا ہر معاملے میں نواز کو حق بجانب سمجھتے تھے کیوں کہ ان سے غلطی سرزد ہونا بعید از قیاس تھا، دادا کے گزر جانے کے بعد غلامی کی وراثت میرے ابا کو ملی اور اس وراثت کی بڑھوتری کے لیے ابا نے دن رات تگ و دو کی، بیسویں صدی کے اواخر میں جب پرویز مشرف نے دودھ سے مکھی کی طرح نواز شریف کو اقتدار سے نکال باہر کیا تو ابا کی راتوں کی نیند اڑ گئی، وہ سارا دن بے چین رہتے اور رات کو ستاروں سے مزین آسمان  تکتے رہتے، معلوم نہیں کس نا ہنجار نے ابا کو مشورہ دیا کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے جدو جہد میں حصہ لیا جائے یا پھر یہ خود ابا کے اپنے ذرخیز دماغ کی اختراع تھی، ابا نے کپڑوں کے چند جوڑے  اور کچھ نقدی ساتھ لے کر لاہور کی طرف رختِ سفر باندھا، رات کسی سڑک کنارے سستانے کے بعد جب  صبح ابا کو خبر ملتی کہ فلاں جگہ پر آج ریلی یا جلسہ ہے تو  ابا گھٹری میں سامان باندھ کر جلسہ گاہ پہنچ جاتے، ایک ریلی کے دوران ڈنڈوں سے ابا کی خوب تواضع کی گئی، ایک زوردار ڈنڈا بازو پر بھی پڑا جس سے ہڈی ٹوٹ گئی، اس خاطر مدارت کے بعد ابا کو جوش ماند پڑنے لگا اور وہ کسی لٹے ہوئے مسافر کی طرح چند دن بعد وآپس آ گئے، جس لیڈر کے لیے ابا نے اپنا بازو تڑوایا وہ لیڈر تو کمال ہوشیاری دکھاتے ہوئے بیرونِ ملک کے لیے اڑان بھر گیا، جس جمہوریت کے لیے ابا نے ڈنڈے کھائے وہ جمہوریت گڑھا کھود کر دفن کر دی گئی، سات آٹھ سال بعد جب تاریخِ انسانی کے ہر ڈکٹیٹر کی طرح پرویز مشرف پر بھ زوال آیا تو ہمارے خاندانی لیڈر کی قائدانہ حس بیدار ہونا شروع ہوئی اور انہوں نے وطن وآپسی کے لیے کسی نومولود بچے کی طرح ہاتھ پاؤں ہلانا شروع کر دئیے اور پھر ایک بھرپور تگ و دو کے بعد محترم لیڈر نے پاک دھرتی پر قدم رکھا، اب کی بار ابا کے بالوں میں چاندی اتر آئی تھی اور جوش و خروش بھی پہلے ایسا نہ تھا اس لیے وہ استقبالی جلوس میں شرکت نہ کر سکے، سیاسی غلامی کا یہ سلسلہ اب میرے تک منتقل ہو چکا ہے، 2008ء اور 2010ء کے الیکشنز میں میں نے نون لیگ کی تحریک میں بھرپور حصہ لیا، لوگوں کی منتیں کیں کہ وہ میرے محبوب قائد کو ووٹ دیں، حتکہ ہم ایسے کارنوں کی محنت کی بدولت 2013ء میں وہ وزیر اعظم بن گئے، میں سیاسی غلام ضرور ہوں مگر اپنے باپ دادا سے تھوڑا مختلف ہوں، میرے اندر سوالات کے بھنور ہر وقت گردش کرتے رہتے ہیں،  پانامہ پیپرز کے بعد میرے لیڈر سے جب بھی کوئی سوال پوچھا جاتا تو وہ کسی پرائمری سکول کے بچے کی طرح رٹا رٹایا سبق سنا دیتے، ہمیشہ وہ شافی جواب دینے سے قاصر رہے، ان کی نا اہلی اور زندان میں قید کا واقعہ دہرانے کی ضرورت نہیں، اور پھر قائدِ محترم زوالِ صحت کے باعث لندن کو پیارے ہو گئے، چند دن پہلے انہوں نے اے پی سی میں تقریر کی تو سمندر کی خاموش سطح پر لہروں سے ارتعاش پیدا ہونے لگا، سیاسی غلام ہونے کے باوجود بھی مجھے ان کی باتیں پسند نہ آئیں، دریچہ دل پر سوالات بار بار دستک دینے لگے کہ قائدِ محترم کی بیماری کا کیا بنا، حکومت سے آؤٹ ہونے پر ہی وہ کیوں مزاحمتی کردار اپناتے ہیں، کیا قائد محترم سچ مچ کر گزریں گے جو وہ کہہ رہے ہیں، میں سیاسی غلام ہوں اور نہ جانے پھر بھی کیوں مجھے ان کی باتون پہ یقین نہیں آ رہا، شاید ان کے قول و فعل میں مطابقت نہیں” اور تم وہ کہتے کیوں ہو جو تم کرتے نہیں”، میں اب اپنی سیاسی غلامی کی زنجیروں کو توڑنا چاہتا ہوں مگر توڑنے سے قاصر ہوں شاید اس لیے کہ پُرکھوں کی وراثت کو چھوڑنا بہت مشکل ہوتا ہے، مگر نا ممکن نہیں ہوتا،میں اب آزاد ہونا چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اپنی مرضی سے ووٹ ڈالوں، میں آزاد فضا میں سانس لینا چاہتا ہوں، میں ایسا معاشرہ دیکھنا چاہتا ہوں جہاں ہر کوئی اپنی مرضی کا مالک ہو اور جس کے متعلق فیض نے کہا تھا کہ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے، مگر کب؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply