جب انسا ن نے اپنے جسم پر سستی اور کاہلی کا لبادہ اوڑھا ہو تو وہ اپنے گرد و پیش اور حالات حاضرہ سے بے خبر ہی رہتا ہے.یہی حالت میری ہے. میں نے اکثر سستی کا لبادہ اوڑھا،سستی کے کمبل اور شال اوڑھے ہوتے ہیں.اور سردیوں میں تو اکثر اوڑھے ہوتے ہیں کہ اس سے جسم کو سردی نہیں لگتی.اور چونکہ آج کل ہمارے ہاں تقریباََ سردیاں شروع ہوچکی ہیں جس کے باعث میں نے سستی کے کمبل اور شال اوڑھے ہوئے ہیں،یعنی سستی کے کمبل اور شال اوڑھ کے ناچو،اوڑھنی۔۔
بہرحال۔۔بتانے کا مقصد یہی کہ میں اس قدر سست بندہ ہوں کہ مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ کوئی ٹیچرز ڈے بھی ہے..چنانچہ میں بے خبر تھا..اور اس کا پتہ مجھے گوگل سے چلا…آج کل ہم سب سے گوگل ہی اچھا ہے کہ اس نے یہ سارے کام خود لے لیے ہیں..گزشتہ دنوں ڈاکٹر رتھ فاؤ کی دوسری برسی تھی…اس کا پتہ بھی مجھے گوگل سے چلا…اور ابھی حالیہ ہی ٹیچرز ڈے تھا…تو اس کا علم بھی مجھے گوگل سے ہی ہوا… شکریہ گوگل!
اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اس کی زندگی میں استاد کا کوئی کردار نہیں.. چنانچہ اس بات کی وضاحت کرانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ کسی بھی انسان کی زندگی میں استاد کا کیا کرادر ہوسکتا ہے۔
اس دنیا میں اساتذہ میں سب سے بڑا مقام ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ کو ہی حاصل ہے..عرب جو جہالت کے باعث تاریکی کی طرف روانہ تھا، پیارے آقاﷺ نے اپنے علم کی شمع سے اسے واپس روشنی کی طر ف لایا۔ عر ب کے لوگ جو ایک دوسرے کے دشمن تھے انہیں دوست بنایا، زندگی گزارنے کا درس دیا، انسان کو صراط مستقیم سے واقف کرایا،تو دنیا کے اس عظیم استاد پر اور ان کی آل پر لاکھو کروڑوں درود و سلام۔اللہ پاک ہمیں انکی شفاعت نصیب فرمائے..آمین۔
علاوہ ازیں..دنیا میں جتنے بھی استاد آئے.. جس استاد نے جس کسی کی علم کے جس شعبے میں بھی اپنے ٹھاٹھیں مارتے سمندر سے پیاس بجھائی تو اس ہر استاد کیلئے جو ابھی اس دنیا سے جاچکے ہیں، اللہ پاک ان کی اگلی منازل میں آسانیاں فرمائے..اور جو استاد ابھی حیات ہیں.. اللہ پاک انکو صحت و سلامتی والی خوشیوں سے بھری زندگی دے..آمین..
میں نے چونکہ سرکاری اداروں میں ہی پڑھا ہے..اور یقین کریں کہ سرکاری اداروں کے اساتذہ سے آپکی بڑی یادیں وابستہ ہوسکتی ہیں.. اگرچہ سارے ہی استاد ہیں.. لیکن پرائیوٹ اداروں کے اساتذہ بیس دن پڑھاتے ہیں..پھر کوئی دوسرا استاد آجاتا ہے..اور یوں ایک خاص شناسائی وجود میں نہیں آپاتی..آپ کو وہی لوگ اپنے استاتذہ کی یادوں بھری کہانیاں سنا سکتے ہیں، جنہوں نے سرکاری اداروں میں پڑھا ہوتا ہے..اور میں چونکہ خود سرکاری اداروں میں پڑھا ہوں..اس لئے میری زندگی کی چادر میں بھی بیشتر دھاگے ایسے ہیں،جن سے اساتذہ کی یادیں بندھی ہوئی ہیں..
میں جب نرسری میں تھا..تو ہمارے استاد مراد خان صاحب تھے..اور چونکہ نرسری میں ہم بچے ہی تھے…تو مراد خان صاحب ہمارے ساتھ ایک بچہ بن کر ہمیں پڑھاتے تھے اور اکثر لاٹھی بھی استعمال کرتے تھے.. مراد خان صاحب نے ہمیں چہارم تک پڑھایا..جماعت اول سے جماعت چہارم تک میں روزانہ صبح مراد خان صاحب کے گھر سودہ سلف لے کر جایا کر تا تھا..اکثر میرا ہم جماعت جان محمد میرے ساتھ جاتا تھا..اور ہم جس راستے پر مراد خان صاحب کے گھر جاتے تھے تو وہاں راستے میں پرانا قبرستان بھی تھا.. جس میں بڑی شکستہ قبریں بھی تھیں..تو اکثر ہم ڈر کر واپس ہوجاتے تھے..اور اکثر بھاگ جایا کرتے تھے..
جب ہم نے جماعت چہارم کا امتحان پاس کیا… تومراد خان صاحب نے کہا کہ اب اگلی جماعت یعنی پنجم میں وہ ہمیں نہیں پڑھائیں گے..اور انکی جگہ امتیاز صاحب پڑھائیں گے..امتیاز صاحب کے بارے مشہور تھا کہ وہ بڑے تند خو استاد ہیں اور اکثر لاٹھی کا استعمال کرتے ہیں..اس خبر پر ہم سارے بچوں نے تقریباََ دھرنا دیا..لیکن کچھ خاص نتیجہ نہ نکلا..اور ہم نے جماعت پنجم امتیاز صاحب سے ہی پڑھا..
جماعت ششم کیلئے ہمیں دوسرے سکول جانا تھا کیو ں کہ ہمارے گاؤں میں بس پرائمری سکول ہی تھا..جماعت ششم میں ہمارے کلاس ٹیچر ماما صاحب ہوتے تھے..ان سے بس دو باتوں کا خوف رہتا تھا…ایک بغیر درخواست کے چھٹی نہیں کرنی..اور دوسری انکی اردو کی کاپی ہمیشہ مکمل رکھنی ہے..ماما صاحب جب بچوں کی کاپیاں چیک کرتے..اور چیک کرتے اچانک اس بچے کو پکڑتے اوراپنی رانوں کے درمیان اس کا سر پکڑ کر اسکی پشت کے خاص حصوں پر ایسی لاٹھی چارج کرتے کہ ہم بچے سہم سے جاتے..ان کی اس مار سے جلدی بچنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ جو بچہ جتنی زیادہ اور تیز چیخیں مار سکتا ہے…اسے جلدی چھوڑ دیا جاتا..ایک مرتبہ میں نے بہت دنوں سے کاپی چیک نہیں کرائی تھی..پھر خود ہی استاد کے دستخط کرلیے..ایک دن جب میری کاپی استاد چیک کررہا تھا توجب انہوں نے دو نمبر دستخط دیکھے تو کہنے لگے..”کس باپ سے دستخط کروائیں ہیں…نیچے ہوجاؤ..نیچے ہوجاؤ..“اور پھر ہماری پشت کے خاص حصے اور ماما صاحب کی لاٹھی..لاٹھی چارج میں میری چیخوں سے کچھ بچت ہوئی…
جماعت نہم اور دہم میں ہمارے کلاس ٹیچر محبوب صاحب ہوتے تھے..جنہیں اکثر بچے”ڈنگر صاحب“ کہتے تھے…کیوں کہ وہ شدید قد آور تھے..وہ ہمیں گرمیوں میں تو کچھ نہ کہتے تھے…البتہ سردیوں میں ہمیں مرغا بناتے اور شدید لاٹھی چارج کرتے تھے.. نہم اور دہم میں جو استاد ہمیں اردو پڑھاتے تھے…یعنی محمد نعیم صاحب..میرے اس استاد کی زندگی سے میں بہت متاثر ہوا..ایک سچے اور ایماندار استاد تھے..دو سالوں میں کبھی بھی کوئی کلاس چھوڑی نہیں…کوئی پیریڈ نہیں چھوڑا..جھوٹ سے شدید نفرت تھی..اور خاصا مطالعہ رکھنے والے انسان تھے.. میری بڑی خواہش تھی کہ میں ان سے کبھی اپنے لئے دعا کرواؤں…
جب میں سال اول اور دوم کا طالب علم تھا تو اس وقت میری طبعیت اسلامیات کے استاد یعنی فاروق صاحب سے زیادہ مانوس تھی..بظاہر تو وہ اسلامیات کے استاد تھے..لیکن فارسی،اردو، انگریزی، عربی، پشتو، ہندکو ساری زبانیں ایسی روانی سے بولتے تھے کہ ہم حیران ہوتے تھے..بہت مزاح موڈ کے مالک تھے..
اب چونکہ ہم بی ایس اردو کے طالب علم ہیں..اور یونیورسٹی میں چونکہ اتنی شناسائی نہیں..لیکن پھر بھی ہمارے سارے استاد بہت اچھے..اور خاصا مطالعہ رکھنے والے ہیں..
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں