نشے کی تلخ حقیقت۔۔عدیل ایزد

جذبہ(Passion) ، خبط (Obsession)  اور نشہ (Addiction)تینوں ایک تسلسل میں ہیں۔ بہت ہی باریک سی لائن ہے جو ان  تینوں کو ایک دوسرے سے الگ کرتی ہے اور عموماً ہم کب یہ لائن کراس کرتے ہیں ہمیں معلوم ہی نہیں ہوتا۔

جذبہ بنیادی طور پر انسان کے اندر ایک زبردست لہر اٹھنے کا نام ہے جس میں  یہ احساس ہوتا ہے  کہ یہ کام  کرنا ہے۔ خبط (Obsession)  میں مبتلا شخص اس کام  کو جنون کی حد تک فوقیت دیتا ہے اور نشہ (Addiction) اس کام کو  زندگی اور موت کا  مسئلہ بنا لینے کا نام ہے۔

جب تک آپ کسی چیز یا کام کےبارے میں پُرجوش (Passionate)ہیں آپ اپنے جذبےکا استعمال کرکے کچھ کرسکتے ہیں خود کو کچھ بنا سکتے ہیں۔ لیکن یہی جذبہ جب  خبط اور پھر  نشہ بن جائے تو الٹا یہ آپ کو استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔اور یہ تو بس ان تینوں کی جذباتی شدت کا ایک بنیادی خاکہ ہے لیکن اگر ہمیں خاص طور پر نشے کے بارے میں بات کرنی ہے ، اس کی جڑ تک جانا ہے،  اگر ہم واقعی ایک نشے میں مبتلا شخص کے کردار کو سمجھنا چاہتے ہیں  تو پہلے ہمیں انسانی تکالیف اور دکھ کی بات کرنا ہوگی۔ کیونکہ نشے کا تعلق ہمیشہ درداوردکھ سے رہاہے۔نشے کی شروعات دکھ کے ساتھ اور اسکا خاتمہ بھی تکلیف کے ساتھ  ہی ہوتا ہے۔

چرس، افیون  یا کوئی بھی نشہ آور دوا دراصل ایک دردکش(Pain Killer) ہی ہوتی ہے۔یہ سب درد کو سکون بخشنے کے لیے ہیں۔ آدھے گھنٹے کے لیے ہی سہی ، یہ آپکے درد بھرے لمحات کو بھلا دیتی ہے۔بدتر حالات کا  سامنا کرنے سے  بچالیتی ہے۔یہ ایک عارضی فرار کی تلاش ہوتی ہے۔ آپ جتنے بھی شدید نشے کے عادی افراد کی زندگی اٹھا کر دیکھ لیں ان سب کی زندگی میں آپکو ایک جذباتی خلا ملے گا۔ ایسے لوگ جذباتی طور پر کھوکھلے ہوتے ہیں ۔ ان کی بچپن کی یادیں بہت تلخ ہوتی ہیں۔وہ مارپیٹ، رسوائی، کردار نگاری، گالم گلوچ اور ذلت سے گزر کر اس حال تک پہنچتے ہیں۔ اور نشے کے متعلق جو نظریہ مجھے درست معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ نشہ ایک انسانی مسئلہ ہے جو انسان کے اندر موجود ہوتا ہے کہیں باہر نہیں۔ اس لیے ہمارا سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آخر نشہ کیوں؟ بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ درد کیوں؟ ذلت کیوں؟ رسوائی کیوں؟

اور یہ درد ، رسوائی،ذلت صرف نشے کے عادی افراد کا ہی مقدر نہیں  بلکہ ہم سب کی زندگی  کا حصہ ہے  ہاں یہ ضرور ہے کہ اس درد کی شدت کم یا زیادہ ہو سکتی ہے کسی کی زندگی میں کم ہوتا ہے تو کسی زندگی میں زیادہ  لیکن ہم سب کم وبیش اسے شیئر کرتے ہیں۔

پیدا ہوتے ہی ناف (نانہالی) سے کاٹ کر الگ کر دینا ، جو ہمیں ہماری ماں سے جوڑے ہوتی ہے ، جب ہمیں اس سے کاٹ کر الگ کیا جاتا ہے ۔۔ ماں کے رحم سے جدا کیا جاتا ہے اتنی محفوظ اور پرسکون جگہ سے ہمیں نکال کر کے اس دنیا میں لایا جاتا ہے جو اتنی ظالم اور سنگ دل ہے یہ بھی ایک درد ہے ایک ٹرامیٹک  / تکلیف دہ تجربہ ہے  جس سے ہم سب ہی گزرتے ہیں اور اس کا برا نفسیاتی اثر ہماری زندگی پر پڑتا ہے۔ ناف اس زخم کے داغ کے سوا کچھ نہیں۔ اور جیسا میں اکثر سوچتا ہوں کہ تکلیف تو نا گزیر ہے آپکی زندگی میں جذباتی نقصان ہوتا ہے، آپ کو مسترد  کر دیا جاتا ہے، کسی قریبی عزیز واقارب کی وفات ہو جاتی ہے یا تو آپکو جسمانی  اور نفسیاتی طور پر تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن زندگی کے کسی نہ کسی موڑ آپکو تکلیف کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ اس لیے ہم سب  کو یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ ہم سب کی ہی زندگی میں دکھ درد موجود ہے اور ہمارے پاس اس تکلیف اور درد کو دبانے کے لیے کوئی نہ کوئی بیرونی علاج بھی ہے  چاہے وہ زیادہ ٹیلی وژن دیکھنا ہو ، بےپناہ شاپنگ کرنا ہو یا  جنسی لت ۔ یہ سارے تکلیف سے دور ہونے کے طریقے ہیں ۔ کچھ لوگ تو کام کرنے کے عادی بن جاتے ہیں تاکہ انھیں اس دکھ درد کا احساس نہ ہو۔ زیادہ کھانا، زیادہ کام کرنا، تعلقات قائم کرنا  یہ سب نشے / لت کی مختلف صورتیں ہیں جس کے ذریعے ہم اپنی زندگی کی نمی کو ڈکھنے کی کو شش کرتے ہیں یہ سب  دکھ، درد اور تکلیف سے دور رہنے کی کوششیں ہیں اور صرف یہی نہیں آج کی تاریخ میں پوری  کی پوری مارکیٹ ہی ہماری اس  لت کے رجحان کو اکسانے میں لگی رہتی ہے ہماری فوڈ انڈسٹری کا مقصد ہمیں صحتمند بنانا نہیں  بلکہ کھانے کو ایسے تیار کرنا ہے  جس سے ہماری بنیادی لت کے رجحانات کو ابھارا جا سکے  تاکہ اس کی سیل زیادہ ہو۔

موبائل فون کو ایسے ڈیزائن کیا جاتا ہے تاکہ ہم اسے ہمیشہ استعمال ہی کرتے رہیں۔ ایپ ڈیزائنگ میں ایسے رنگوں کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ آپ اسے گھنٹوں  بیٹھ کر استعمال کرتے رہیں۔ اور اگر آپ نشے  یا لت کو وسیع نقطہ نظر سے دیکھیں تو طاقت کی لت، صارفیت کی لت  حتٰی کہ مذہب بھی لت کی ایک قسم  ہے جو نجات اور آزادی کا وعدہ کرتا ہے۔ اور اگر آپ تاریخ کے اوراق کو پلٹیں تو  طاقت، صارفیت اور مذہب کی لت نے جتنا دنیا کو تباہ کیا ہے اتنا کسی اور چیز نے شاید ہی کیا ہو۔تو سب سے پہلے ہمیں دماغ سے یہ نکال دینا چاہیے کہ نشہ صرف منشیات کا ہوتا ہے یا شراب پی پی کر ہی لوگ نشے کے عادی بنتے ہیں ۔ ہاں یہ ساری ہمارے معاشرے میں نشے کی رسوا کردینے والی مختلف صورتیں ضرور ہیں۔ مطلب کے جو منشیات پر مبنی لت ہوتی ہے معاشرہ صرف اسی پر انگلی اٹھاتا ہے۔ باقی ایسے ہزاروں نشے ہیں جس کے ہم اور آپ دونوں ہی عادی ہیں جس کی معاشرے کو کوئی پرواہ ہی نہیں  ہوتی۔

نشہ چاہے کسی بھی طرح کا ہو اس کا تعلق کہیں نہ کہیں تکلیف سے ہے۔ اس کا مقصد درد سے دور بھاگنا ہوتا ہے۔ہم درد سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ آپ جتنا درد سے بھاگیں گے  آپ کو اتنا ہی زیادہ درد سہنا پڑے گا۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ جہنم جانے کا یقینی راستہ یہ ہے کہ جہنم سے بھاگا جائے۔ اس لیے اپنی تکلیف کے ساتھ رہیں، بھاگنے کی کوشش مت کریں  اسے محسوس کریں ، کچھ بھی کریں مگر بھاگیں نہیں۔ آپ جتنا بھاگیں گے آپ کمزور ہوتے جائیں گے۔ لیکن ہم اپنے  اس درد کے ساتھ جینے کی ہمت اس وقت کر پائیں گے ، سچ کا سامنا کرنے کی جرات اس وقت کرسکیں گے جب ہمارے اردگرد کے لوگ تھوڑی شفقت  کا مظاہرہ کریں تھوڑے رحمدل ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب لوگ ہمیں جج نہیں کرتے ، جب معاشرہ ہم پر انگلیاں نہیں اٹھا تا یا ہم پر تنز کے نشتر نہیں برساتا صرف اس وقت ہم حقیقت کا سامنا  کرنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم سب نشے کے عادی ہیں ہم سب کو کسی نہ کسی چیز کی لت  ہے۔ لیکن اس کا سامنا کرنے کی لیے ہمیں ہمدردی کی ضرورت ہے ۔ ایسا صرف اسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کو غیر مشروط طور پر گلے لگانے کو تیار ہوں ، محبت بانٹنے کو تیار ہوں، کسی کو سننے کے لیے تیار ہوں۔ اور  جس دن ایسا ہو گیا تو ہم اس حقیقت سے آشنا ہو جائیں گے  نشہ محض محبت کا ایک متبادل ہے۔
سچا پیار صرف انسانوں میں ہی پایا جاتا ہے، سچی محبت صرف انسانوں میں مضمر ہے  ضرورت بس اس امر کی ہے کہ ہم اس محبت کو غیرمشروط طور پر  بانٹ سکیں۔

Facebook Comments

عدیل ایزد
قاری اور عام سا لکھاری...شاگردِ نفسیات

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply