• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بچوں کا جنسی استحصال، ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ۔۔۔صاحبزادہ محمد امانت رسول

بچوں کا جنسی استحصال، ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ۔۔۔صاحبزادہ محمد امانت رسول

گزشتہ سال پاکستان میں کم عمر بچوں/بچیوں کے ساتھ زیادتی کے 4000 واقعات رونما ہوئے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے، جو واقعات رپورٹ نہ ہو سکے ان کی تعداد کتنی ہے؟ اس کا کسی کوعلم نہیں ہے۔ واقعات رپورٹ نہ کرنے کی والدین نے دو وجوہات بتائی ہیں (یہ وہ والدین ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پہ خاموشی اختیار کی اور بعد میں زبان کھولی) پہلی وجہ: انہوں نے بتایا کہ بد نامی کے ڈر سے ہم خاموش رہے۔ دوسری وجہ: پولیس کا غیر انسانی اور سنگدلانہ رویہ ہے جس کی وجہ سے وہ خاموش رہے۔ انہوں نے بتایا کہ جو والدین اپنے بچوں کا کیس تھانہ میں لے کر گئے ان کے ساتھ جو سلوک ہوا اسے دیکھ کر ہم خاموش ہو گئے۔ ان دو کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں۔ فی الحال ان دو پہ ہم بات کرتے ہیں۔

پہلی وجہ ہمارے سماجی رویوں پہ سوالیہ نشان ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کسی شخص کو کسی ناکردہ گناہ کی سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ اس واقعہ کے بعد متاثرہ بچے یا بچی نے معاشرے میں رہنا ہے، اس نے تعلیم حاصل کرنی ہے، اس نے کاروبار کرنا ہے اس کا رشتہ کہیں طے پانا ہے، اس کے سماجی تعلقات قائم ہونے ہیں۔ وہ تمام زندگی اسی بدنامی کے ساتھ جیتا ہے کہ اس کے ساتھ فلاں وقت اورعمر میں یہ فعلِ بد ہوا تھا۔ اگر لڑکی ہے تو اس کے ساتھ یہ معاملہ زیادہ سنگین ہوتا ہے کہ اس نے کسی کی بیوی اور بہو بننا ہے۔ والدین اس خیال سے رپورٹ نہیں کرتے کہ اس الزام کی وجہ سے ہماری بیٹی کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ حالانکہ وہ بے گناہ ہے اور اس کے ساتھ جو کچھ ہوا،جبراً ہوا۔

اس طرح والدین کی خاموشی اور تھانے نہ جانا ہمارے نظام عدل کی کارکردگی پہ عدم اطمینان کا اظہار ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ملزم سیشن عدالتوں میں گرفتار ہوتا اور ہائی یا سپریم کورٹ سے رہا ہو جاتا ہے۔ عدل و انصاف کے حصول کے لئے لوگوں کی زندگیاں ختم ہو جاتی ہیں لیکن وہ اپنے حق سے محروم رہتے ہیں۔ دادا کا کیس لے کر پوتا عدالتوں میں ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ دیوانی مقدموں میں لوگوں کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں لیکن داد رسی نہیں ہوتی۔

پاکستان میں جنسی زیادتی کے بڑھتے کیسز کے باعث کچھ ذمہ داریاں بحیثیت فرد ہم پہ عائد ہوتی ہیں اور کچھ ذمہ داریاں بحیثیت معاشرہ لازم ہوتی ہیں۔

ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی حفاظت کریں، ان کی حرکات و سکنات پہ نظر رکھیں، ان کے آنے جانے کے اوقات کا خیال رکھیں، ان کے سکول اور کالج میں ان کی مصروفیات سے باخبر رہیں، اپنے بچوں کی عادات اور طرز زندگی کا صرف جائزہ نہ لیں بلکہ ان کی بہتر تربیت کے لئے وقت نکالیں اور ان کے نفسیاتی رویوں کو بھی گہری نظروں سے دیکھیں۔ یہ ذمہ داری ہر باپ اور ہر ماں کی ہے۔

بحیثیت معاشرہ ہمیں دوسرے کے بچے اور بچی کو اپنی اولاد خیال کرنا چاہیے۔ کبھی کسی معاملے کو اس وجہ سے Ignore نہیں کرنا چاہیے کہ وہ کسی اور کی اولاد ہے۔

کسی دور میں، محلے اور علاقے میں سب ایک دوسرے کے بچوں کا خیال رکھتے تھے۔ صرف اپنے بڑوں کا نہیں بلکہ سب کے بڑوں کا احترام اور ان کا ڈر ہوتا تھا۔ اس کلچر کو بھی زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ گلی کوچوں میں آوارہ پھرنے والے بچوں یا نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تعلیمی اداروں سے باہر ہے۔ ان کی اکثریت جنسی زیادتی کا نشانہ بنتی یا بناتی ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان بچوں کو سکول بھیجیں۔ اگر ان کے سکول جانے میں کوئی رکاوٹ ہے تو اس رکاوٹ کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ جنسی جرائم کی ایک بڑی وجہ چائلڈ لیبر ہے۔ اگر کسی گھر میں کم عمر بچی یا بچہ ملازم ہے تو یہ فعل غیر قانونی ہے۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس حوالے سے پولیس کو اطلاع کریں یا اس خاندان کو اس غیر قانونی فعل سے مطلع کریں تاکہ وہ اس سے باز آئے۔

ہم نے گھر بڑے بنا لیے، ہر طرح کی سہولت جمع کرلی لیکن ایک دوسرے سے بے پرواہ ہو گئے، ہمدردی کی جگہ بے حسی، دوستی کی جگہ لا تعلقی اور نگرانی کی جگہ بے پرواہی نے لے لی ہے۔ ہم نے سکھ کے ساتھ اپنے دکھ بھی علیحدہ کر لیے ہیں۔ جب سکھ علیحدہ ہوئے تو دکھ بھی علیحدہ ہو گئے۔ اس خیال سے بے پروا ہو گئے کہ یہ آگ دوسرے کے گھر میں لگی ہے میرا گھر تو محفوظ ہے حالانکہ وہ آگ ایک روز میرے گھر بھی پہنچ سکتی ہے۔ دولت اور سٹیٹس کی دوڑ میں، ہم سادہ اور آسان نکاح کی روایت کو بھول گئے اور ہمارے سماج میں نکاح مشکل اور مہنگے ہو گئے۔ اپنے بچے اور بچی کے لئے جہیز اور ولیمہ کے انتظام میں وقت اتنا بیت جاتا ہے کہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہماری نوجوان نسل کس راہ پہ چل چکی ہے۔ یہ معاشرے کے ہر فرد امیر و غریب اور متوسط طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں اور بچیوں کے نکاح کو سادہ اور آسان بنائیں تاکہ خوشی اور مسرّت کا محور انسانی رویے اور حُسن سلوک بنیں، دولت اور سرمایہ نہ بنیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

انسان کے لیے قدرت نے فطرت کو پیدا کیا ہے۔ اگر اس پہ عمل آسان نہ ہو تو انسان پھر غیر فطری اور بے رحمی کے راستے اختیار کرنے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔ اس کا ذمہ دار فقط فرد نہیں بلکہ پورا سماج ہوتا ہے۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بچوں کا جنسی استحصال، ہم کیا کرسکتے ہیں؟ ۔۔۔صاحبزادہ محمد امانت رسول

  1. سب سے پہلے تو ہمیں اس بات کو سمجھنا ہے کہ ایسا کوئی دور نہیں گذرا جب سب ایک دوسرے کے بچوں کا خیال رکھتے تھے۔ اس بات کا کوئی دستاویزی یا فزیکل ثبوت نہیں ہے۔ لہذاایسی سنی سنائی باتوں پر ساری عمارت تعمیر کرنے کا فائدہ نہیں ہے۔
    دوسری بات ہمیں مسئلے کی جڑ کو سمجھنا ہے اور وہ ہے بالغ افراد میں جنسی معلومات کی کمی، چنانچہ درج ذیل لنک میں اس مسئلے پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے:-
    https://www.mukaalma.com/79086/

Leave a Reply