کرونا ، اب بس بھی کرو نا۔۔۔ڈاکٹر عمران آفتاب

پاکستان اور چین کی لازوال دوستی کی کہانیاں پڑھ پڑھ کر جوان ہوئے ۔ ہمالہ سے اونچی ، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی اس دوستی کی معراج یہ ہے کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ سی پیک دونوں ممالک کے باہمی تعاون سے پایہ تکمیل تک پہنچ رہا ہے۔ خارجہ محاذ کے علاوہ دفاعی ضروریات کے حوالے سے بھی چین نے ہمیشہ ایک مخلص دوست ہونے کا کردار بخوبی نبھایا ہے۔ آج ہمارا یہ دوست طبی حوالے سے مشکلات کا شکار ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس اہم موقع پر پچھلے تمام احسانات کا بدلہ اتار دیا جائے۔ پوری دنیا کرونا وائرس کی وجہ سے خوف میں مبتلا ہے۔  لازمی ہے کہ  حکومت پاکستان کی جانب سے قابل ترین افرادی قوت کو فوری طور پر متاثرہ علاقے ووہان میں بھیجا جائے۔

سب سے پہلے ڈاکٹر حضرات میں سے ڈاکٹر عامر لیاقت اور ڈاکٹر شاہد مسعود کو قافلے کا مشترکہ لیڈر بنایا جائے۔ دونوں کی علمی قابلیت مسلمہ ہے۔ دنیائے طب میں ان دونوں حضرات جیسا کوئی اور ڈاکٹر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکا۔ لہذا قوی امید ہے کہ اللہ نے چاہا تو کرونا وائرس کا خاتمہ انہی دو نابغوں کے ہاتھوں ہو گا۔

ڈاکٹر ہونے کے علاوہ یہ دونوں حضرات شاندار مقرر بھی ہیں۔ اپنی بلند پایہ تقریری صلاحیتوں کو کام میں لا کر کرونا وائرس پر ایسے ایسے الزامات لگائیں گے کہ وہ شرمندگی سے ہی مر جائے گا۔

بالفرض ایسا ممکن نا ہوا تو ڈاکٹر شاہد مسعود کے ہاں پلان بی ہمیشہ موجود ہوتا ہے۔ اس کے مطابق کرونا وائرس کو انعام گھر میں موٹر سائیکل والے ڈبے کا لالچ دے کر سٹوڈیو میں بلایا جائے گا۔ شو کے دوران جب کرونا وائرس مکمل طور پر مرض پھیلانے کی ڈیوٹی سے غافل ہو چکا ہو گا ،تو ڈاکٹر عامر لیاقت کرونا وائرس کو “آم کھلانے” کے بہانے “غالب” فلم دیکھنے میں مشغول کر دیں گے۔ اتنے میں ڈاکٹر شاہد مسعود اپنے مخصوص ذرائع کی مدد سے کرونا وائرس کی پشت پناہی کرنے والے ڈارک ویب کا پتا چلا لیں گے۔ یوں دونوں ذہین بھائی مل کر وائرس کا “اینڈ آف ٹائمز” کر دیں گے۔

زنانہ کیمپس کی نگرانی کے لیے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو بھیجا جائے۔ مقامی حکومت کی ترجمان سے مل کر ڈاکٹر صاحبہ اس وائرس کی ذمہ داری بخوبی پچھلی حکومت پر ڈال کر سرخ رو ہو سکیں گی۔ اس سے موجودہ حکومت کی شفافیت پر بھی کوئی حرف نہیں آئے گا ۔ اور حکومتِ وقت کی گڈ وِل میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو سکے گا۔

کرونا وائرس کے لواحقین کی جانب سے کسی قانونی چارہ جوئی کا اندیشہ ہو تو کسی وزیر کو ایک آدھ دن کے لیے مستعفی کرا لیا جائے ۔ کرونا وائرس کے فروغ کو قانونی طور پر روکنا چینی بھائیوں کے لیے باد نسیم کا جھونکا ثابت ہو گا۔ کرونا وائرس کی مہلک انگیزی کے پیش نظر خطہ پوٹھوہار کے کسی مایہ ناز وکیل کی خدمات اضافی طور پر حاصل کر لینا بہتر ہو گا۔ اپنے کالموں کے ذریعے وہ کرونا وائرس کا علمی و سیاسی محاسبہ کریں گے۔ اور ساتھ ساتھ عملی طور پر قانونی مشیر کا کام بھی کریں گے۔

کرونا وائرس کے اگر کوئی مالی مطالبات زر ہوں تو اس کے لیے کسی امیر ترین دوست کو اس کے جہاز پر بھیجا جا سکتا ہے۔ چینی عوام اس لیے بھی خوش ہوں گے کہ امیر ترین دوست کا “چینی” سے تعلق پہلے ہی کافی گہرا ہے۔

چین کے دوستوں کو پنجاب سپیڈ کے بارے میں ہمیشہ (مبینہ طور پہ) رطب اللسان پایا ۔ خادم اعلی کے سابق بننے کے بعد پنجاب میں شہباز شریف لگنے والے کم گو اور شرمیلے وسیم اکرم پلس کی کارکردگی سے دوستوں کو مرعوب کیا جا سکتا ہے۔

کرونا وائرس کی دہشت سے خائف چینیوں کو واوڈا صاحب کی خدمات سے محروم رکھنا زیادتی ہو گی۔ لانگ بوٹ پہن کر، بیک پاکٹ میں پستول اڑس کر، جب وہ کرونا وائرس کی لاش کی تصویر پر فوٹو شوٹ کروائیں گے تو کیا منظر ہو گا۔ سب کے دلوں سے کرونا کا خوف جاتا رہے گا۔ شہد سے میٹھے گنڈا پور صاحب کی مجوزہ اور وزیر اعظم کی پسند فرمودہ چرس فیکٹری کی ادویات سے بھی کرونا وائرس کی تلفی میں خاطر خواہ فائدہ ہو سکتا ہے۔

کچھ گلوکاروں سے چینی زبان میں کرونا وائرس کے خلاف ترانے بھی بنوائے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ وائرس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا مگر مرشدین پاک نے اس کے توڑ کے لیے جھاڑ پھونک دریافت کر لی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پھونک مارنے کے لیے ان عاملین کو چین کی حدود میں داخل کیا جائے ۔ تاکہ وائرس پر روحانی اثرات براہ راست مرتب ہو سکیں۔

آخر میں اگر ٹیم فیل ہوتی نظر آئے تو کپتان کو خود پہنچ کر کمان اپنے ہاتھ میں لے لینی چاہیے ۔ کیوں کہ اگر اوپر لیڈر ٹھیک ہو تو نیچے سب خود بخود ہی ٹھیک ہو جائے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس معاملے میں جتنی عجلت سے کام کیا جائے ، کم ہے۔ ان نگینوں کو فوری طور پر چین روانہ کیا جائے۔
اور اس سلسلے میں حکومت چین کی جانب سے کسی قسم کے انکار کو تکلف پر محمول کیا جائے۔ بھائیوں میں کیا شرم ۔ کہہ دو کہ بس یہ اب تمہارے ہوئے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply