• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بُک ریویو:اقبال اور مارکس سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔آسیہ میر /ندیم رحمٰن ملک

بُک ریویو:اقبال اور مارکس سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے۔آسیہ میر /ندیم رحمٰن ملک

اعلیٰ ادبی ذوق کے حامل لوگ سنجیدہ ادب بہت ذوق  وشوق سے پڑھتے چلے آئے ہیں۔
کرونا کے بعد اب علمی ادبی آبیاری کو فروغ ملنا شروع ہو گیا ہے۔ ادبی محفلیں سجائی جا رہی ہیں، کتابوں پر رونمائی  کے پروگرام فائنل ہو رہے ہیں۔ ناول ڈرامہ افسانہ شاعری اور سنجیدہ ادب کی کتابیں قارئین کے ہاتھوں میں  پہنچنا شروع ہو چکی ہیں۔ نئی نئی کتابیں اپنی بہار دکھلا رہی ہیں۔

ایسے وقت سے فائدہ اُٹھاتے اسلام آباد میں مقیم ممتاز مصنفہ آسیہ میر نے ایک کتاب ” اقبال اور کارل مارکس کا فکری قرب و بُعد ” لکھ کے عہد کرونا کے مصنفین میں اپنا نام لکھوا لیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کتاب کا موضوع بہت بڑا او ر دلچسپ ہے۔ دو بڑے بلند پائے کے فلسفیوں کے اعلیٰ فکری فلسفہ اور ان کی مماثلت پر مبنی ہے۔

مصنف ندیم رحمٰن ملک

مشہور جرمن فلسفی اور اشتراکیت کے بانی کارل مارکس جو دنیا میں رائج سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرنے والے اولین دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس عظیم معیشت دان نے جہاں تاریخ انسانی کو طبقاتی جدوجہد کی جنگ قرار دیا وہیں تاریخی مادیت کا نظریہ بھی پیش کیا۔ انھیں ان کے نظریات کے پرچار کی پاداش میں متعدد ممالک سے جلا وطن بھی کیا گیا تھا۔
ان دنوں کمیونزم کا فلسفہ اور نظام اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام سے ٹکراؤ  کے بعد پیدا ہونے والی متوقع صورت حال کے بارے میں دنیا بھر کے اہل فکر و نظر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ انہی دنوں حضرت علامہ اقبال ؒ بھی اپنے علم اور شہرہ آفاق فلسفہ و شاعری کے زور پر دنیا کے اہم علمی اداروں اور دنیا کی اہم شخصیات میں اپنا تعارف اور مقام بنا چکے تھے۔ جس طرح مولانا رومیؒ کے کلام کو زندہ جاوید کرنے میں اقبالؔؔ کا نمایاں کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔ انہی دنوں اقبال اور مارکس کے علمی فلسفے کے چرچے ہونے لگے۔ اس علمی اور فکر انگیز موضوع پر امجد اسلام امجد خامہ فرسائی فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ
” ہر بڑے اور غیر معمولی شاعر کی طرح اقبالؔ کے  کلام میں بھی ہمیں جگہ جگہ اس مستقبل گیر بصیرت کے نمونے ملتے ہیں۔ جس میں آنے والے زمانوں سے متعلق گمان، یقین کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ اقبال جس زمانے میں یورپ میں قیام پذیر تھے (1905-1908)
اس زمانے میں مارکس کا تصور جدلیات ردِ سرمایہ داری اور محنت کش کی خود مختاری نے دھوم اور دھاک بیٹھا دی تھی، چونکہ اس نظام کے بہت سے پہلوؤں میں اسلامی مساوات اور معاشی استحصال کے خلاف اسلامی تعلیمات کے حوالے سے ایک طرح کی مماثلت پائی جاتی تھی ، اس لیے اقبالؔ بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور کارل مارکس کی مشہور کتاب داس کیپٹل کی اس قدر تعریف کی کہ مارکس کو
وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن د ر بغل دارد کتاب ”
جیسے شاندار الفاظ سے خراج تحسین پیش کر ڈالا۔

مصنفہ آسیہ میر کہتی ہیں کہ حضرت اقبال ؒ نے اپنی شاعری میں جگہ جگہ سرمایہ دارانہ نظام سے بیزاری اور نفرت کا اظہار کیا اور اسے ظلم کی ایک سنگین قسم قرار دیا۔ اپنی ایک طویل نظم ” خضر راہ “ کے ایک ضمنی عنوان سرمایہ و محنت میں اقبال ؒ کہتے ہیں کہ
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دست دولت آفریں کو مُزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خواجگی نے خوب چُن چُن کر بنائے مسکرات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور، مات

خضر یعنی رُوحِ عصر کے ذریعے مزدور کو ایک شعور انگیز پیغام دیتا ہے اور ٹھوس حقائق بیان کرتا ہے کہ کس طرح چالاک سرمایہ دار مزدور کا استحصال کر تا ہے۔ وہ خود عیش و عشرت کی زندگی بسر کرتا ہے جب کہ مزدور کو جہل، بیماری، اور ناداری کے حوالے کر دیتا ہے۔ ستم ظریقی دیکھیے کہ دولت پیدا کرنے والے مزدور کو تھوڑی سی مزدوری زکوٰۃ کے طور پر ملتی ہے۔
یہ باتیں انھوں نے اس وقت کہیں جب ابھی سرمایہ دارانہ نظام کے تخریبی حیلے نہ تو تعداد میں اتنے زیادہ تھے اور نہ ہی ان میں اتنی بو قلمونی تھی جو آج ہمیں دکھائی دیتی ہے۔

کارل مارکس مذہب کے خلاف تھا، جبکہ علامہ اقبالؒ اسلام کی نشاۃ ثانیہ چاہتے تھے۔ مصنفہ آسیہ میر نے بہت خوبصورت تاریخی حوالے اور ادبی ریفرنس سے بات کرتے قاری کو بتاتی ہیں کہ علامہ اقبال بھی ذاتی ملکیت کے قائل نہیں تھے وہ زمانہ طالب علمی میں سیالکوٹ سے لاہور آئے تھے اور اپنی وفات تک چار عشروں سے زائد عرصہ شہر بے مثال میں مقیم رہے آخری تین چار برسوں کے علاوہ باقی سارا عرصہ وہ کرائے کی رہائش گاہوں میں قیام پذیر ر ہے۔ بلکہ میو روڈ والی کوٹھی (جاوید منزل) بھی ان کی اہلیہ نے گھریلو اخراجات سے رقم بچا کر اور زیور بیچ کر بنوائی تھی۔ بدقسمتی سے وہ جاوید منزل کی تعمیر مکمل ہونے پر اس میں منتقل ہونے کے چند روز بعد طویل علالت کے باعث انتقال کر گئی تھیں اور وفات سے پہلے کوٹھی کی ملکیت اپنے صاحبزادے جاوید اقبال کے نام منتقل کر گئی تھیں۔ علامہ اقبالؒ سرکاری کاغذات میں اپنے بیٹے کے کرایہ دار کی حیثیت سے جاوید منزل میں مقیم رہے تھے۔

کتاب میں لکھا ہے کہ جینی مارکس کی امیر گھرانے کی بیوی نے تمام تر آسائش و امارات کو ٹھکرا کر مارکس کا ہاتھ تھاما، جینی غیر معمولی حسین، ذہین اور اچھے کردار کی مالک تھی، اس نے نہایت غربت افلاس، تنگدستی اور جلا وطنی میں ثابت قدمی سے مارکس کا ساتھ نبھایا، مارکس بھی غریب خاندان سے تعلق نہ رکھتا تھا۔ مگر اپنی انسانیت پرستی اور نظریاتی جدوجہد کے لیے ہر حد سے گزر گیا، اس کا خمیازہ اس کے خاندان نے تا عمر غربت اور افلاس کی شکل میں کاٹا۔ حتیٰ کہ اس کا بیٹا خوراک اور دوا کے بغیر بلک بلک کر مر گیا۔ مارکس کی سماجی حیثیت آج بھی بے ملک State less لکھی جاتی ہے۔
کتاب ” اقبال اور کارل مارکس کا فکری قرب و بعد ” سے پتہ چلتا ہے کہ۔۔
کارل مارکس کو متحدہ ہندوستان کے بارے میں کوئی خاص علم نہ تھا، انہوں نے متحدہ ہندوستان بارے اخبارات میں چھپنے والے کارل مارکس کے مضامین ” ہندوستان کا تاریخی خاکہ “ کے عنوان سے کتابی صورت میں پڑھے تھے، جو سطحی قسم کے تھے۔

علامہ اقبال ؒ نے سرمایہ داری اور جاگیر داری نظام کیخلاف اپنی فکر انگیز شاعری کو بطور ہتھیار نہایت احسن انداز سے استعمال کیا، کارل مارکس سے پہلے بھی لوگوں نے انسان دوستی اور مساوات کی بات کی تھی تاہم جب تک دنیا میں استحصال جاری رہے گا کارل مارکس کی آفاقی سوچ زندہ رہے گی۔
مارکس کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص صرف اپنے لیے کام کرتا ہے تو وہ علم و دانش کا مشہور ترین شخص تو بن سکتا ہے، ایک عظیم دانا، ایک خوبصورت شاعر بھی بن سکتا ہے مگر وہ کبھی بھی مکمل اور حقیقی طور پر ایک عظیم شخص نہیں بن سکے گا۔ اسی بات کو جوش ملیح آبادی نے یوں کہا کہ
زندگی کے ابتدائی دور میں بھی کم سے کم
آدمی کو عرش تک پرواز کرنا چاہیے
اور اگر میسر ہوں پر و بال و حیات
تو عرش سے پرواز کا آغاز کرنا چاہیے
اسی طرح اقبال کے کلیات کی پہلی نظم ہمالہ اقبال کی بلندی افکار کی دلیل ہے۔ اقبال کے لیے ہر وہ شخص قابل احترام ہے، جو عظمت انسانی اور اسکی بقا کا قائل ہے، چاہے وہ مارکس ہی کیوں نہ ہو، یوں مارکس کی تمام تعلیم ہی انسانی مساوات کی تعلیم ہے۔

دوسری طرف جب علم الاقتصاد لکھی گئی، اس وقت اقبال نے مارکس کا مطالعہ کر رکھا تھا، یوں اقبال نے اقتصادیات کو صرف مارکس سے ہی نہیں بلکہ اپنی ہم عصر زندگی سے سیکھا جس کو بعد ازاں اپنی شاعری اور نثر میں سمو کر پیش کیا ۔ خضر راہ، ساقی نامہ، لینن، فرمانِ خدا، سرمایہ محنت اور پیام مشرق کی چند نظمیں اس کی مثال ہیں۔ پھر آپ کی شاعری سائنسی طرز فکر کا نچوڑ ہے، کیونکہ آپ کا عالمانہ انداز خالص جدید تحقیق اور سائنس پر مبنی ہے جیسا کہ مسجد قرطبہ کی تعمیر اور تا حال موجودگی سائنسی اصولوں کے تحت لکھی گئی جب کہ ساقی نامہ، ابلیس کی مجلسِ شوریٰ اور دیگر خالص تحقیق کے تحت لکھی گئیں۔ پھر آپ طبیعات، ریاضیات، حیاتیات اور نفسیات کو یکساں اہم اور باہم مربوط مانتے ہیں، جدید تحقیق بھی ثابت کرتی ہیں کہ اپنی سر بلندی پر جا کر سبھی علوم آپس میں ضم ہو جاتے ہیں۔

مصنفہ آسیہ میر نے بہت دلجمعی اور قاری کے رجحان سازی کو سمجھتے ہوئے اپنے موضوع میں تنوع کا خاص خیال رکھا اور اپنے مخصوص اسلوب سے کام لیتے ہوئے قاری کو گنجلک اصطلاحات اور مشکل تراکیب سے الجھانے کی کوشش نہیں کی۔ بہت سادگی اور خوبصورتی سے کتاب میں اقبال اور مارکس کے فلسفے کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ چھوٹے چھوٹے خوبصورت واقعات اور برمحل اشعار سے موضوع میں تازگی اور نیا پن برقرار رکھا جس سے ان کا مستند لکھاری ہونا ثابت ہوتا ہے۔ ہر دوسرے صفحہ پر چونکا دینے والے انکشافات قاری کے بند ذہن کے در وا کیے ہوئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بورژوا سیاست نے اپنے طلسم سے مزدور کو مختلف فرقوں نظریات اور سبز باغ اور سیرابوں کے نعروں میں الجھا رکھا ہے۔ آج کل جن میں نسل و رنگ، قومیت، مذہب کے غلط تعبیر اور سلطنت وغیرہ شامل ہیں۔

یوں بورژوا سیاست نے مزدور کی توجہ اس کے طبقاتی مفاد سے ہٹا کر مزدور دشمن نظریات کی طرف پھیر دی ہے۔ اقبالؒ نے مزدور کو خوابِ غفلت سے جگاتے ہوئے اسے اس کے آئندہ ہمہ گیر اقتدار کا مژدہ سُناتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں کہ
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

محترمہ آسیہ میر کی اس تخلیق کو نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ اور سوشل میڈیا اور سنجیدہ ادبی و علمی حلقوں میں بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ ابھی حالیہ آزاد کشمیر کی حکومت نے ان کی اس کتاب کو پورے آزاد کشمیر کے کالج اور یونیورسٹیوں کے لیے بھی منظور کر لیاہے، جو یقینا ً مصنفہ کے لیے باعث اعزاز ہے اور نئے لکھنے والوں کے لیے حوصلہ افزا اور خوش آئند بات ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply