مسئلہ قادیانیت، ریاست اور عوامی جذبات۔معاذ بن محمود

قادیانیت کا مسئلہ تھوڑا ٹیڑھا ہے۔ عموماً اقلیتیں جہاں بھی ہوں، اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے ممتاز ہونا ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ احمدی حضرات کے لیے ممتاز رہنا زہر ہے کیونکہ وہ خود کو مسلمان مانتے ہیں، اور غیر مسلم کہلانا ان کے لیے ایسا ہی تکلیف دہ ہے جیسے ایک فرضی مملکت قادیان میں مجھے اور آپ کو کوئی غیر مسلم کہہ ڈالے۔ یہ ہمارے احمدی بھائیوں کا دکھ ہے۔ ان کی نظر سے دیکھا جائے تو دکھ جائز بھی ہے۔ ہم اپنے ارد گرد عقائد کی بنیاد پہ ایک “دائرہ اسلام” تو کھینچ سکتے ہیں البتہ دوسروں کے دائرے خراب کرنے کا حق ہمیں حاصل نہیں۔ یہاں تک احمدی کمیونٹی کا درد بجا ہے۔ لیکن کیا ہے کہ ملک میں اکثریت کے بھی جائز حقوق واضح ہیں۔

پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔ یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ اردو میں لفظ ریپبلک کے لیے علیحدہ لفظ مہیا نہیں لیکن بہرحال جمہوریت (democracy) اور ریپبلک میں ایک واضح فرق بنیادی اصولوں کا ہے جن کی بنیاد پر کوئی ریپبلک ان اصولوں کے برعکس آئین میں تبدیلی نہیں کر سکتی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہم جنس پرستی چونکہ اسلام کے بنیادوں اصولوں کے خلاف ہے لہذا پاکستان جب تک اسلامی ریپبلک ہے تب تک اس کے حق میں کوئی قانون پاس نہیں ہوسکتا بیشک (خدانخواستہ) ننانوے فیصد عوام لواطت کے رسیا ہی کیوں نہ ہوجائیں۔ یہ حقیقت ہمارے سیاسی اسلاف کی جانب سے مملکت پاکستان کی تجربہ گاہ کو اسلامی رکھنے کی گارنٹی تھی، یہ الگ بات ہے کہ بعد ازیں قومی سطح پہ ہمارے معیار اس قدر دوہرے ہوگئے کہ ہمیں سود جیسا غیر شرعی فعل عام کرنا پڑا۔

پس اسی اسلامی جمہوریہ کے مقرر کردہ قوانین کے تحت ہم نے ایک قانون بنایا جس کے تحت ایک خاص عقیدہ رکھنے والے گروہ کو ہم نے قانونی طور پر غیر مسلم قرار دے دیا۔ یہاں ہمارے خالص لبرل دوست ریاست کے مذہبی معاملات میں کردار پر بھلے جتنا رو پیٹ لیں، حقیقت یہی ہے کہ یہ قانون ملک کے اسلامی جمہوریہ ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر جائز ہے۔

جو ناجائز ہے وہ ہے ہمارے مسلمان بھائیوں کی جانب سے کئی قدم کا وہ تجاوز جس کے تحت احمدیوں کو دیگر غیر مسلموں سے کہیں زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ریاست کے سرکاری کاغذات، فارم، حلف نامے وغیرہ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہمیں احمدیوں سے ایک ضد سی ہو۔ اس ضد کا ایک جواز یہ ہے کہ احمدی خود کو مسلمان کے لبادے میں چھپائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ایسا بیشک ہوتا ہوگا لیکن یہ دھوکہ تو کوئی عیسائی، ہندو، پارسی یا کسی اور اقلیت سے تعلق رکھنے والا شخص بھی دے سکتا ہے، پھر قادیانیوں سے اللہ واسطے کا بیر کیوں؟

دراصل یہی ہمارے جذبات کا وہ حصہ ہے جسے ہائی جیک کرنے کا گُر ہمارے مولویوں، سیاستدانوں، سپہ سالاروں اور دیگر کئی اداروں نے سیکھ رکھا ہے۔ پچھلے دنوں پارلیمان میں مشرف دور کا ایک قانون پاس کیا گیا جس کے پاس ہونے سے پہلے تمام سیاسی مجاہدین کو اس سے مطلع رکھا گیا۔ مجال ہے کہ کسی ایک نے آنکھیں کھول کر پڑھا ہو۔ بعد میں یہی مجاہدین احمدیت و ختم نبوت کے معاملے کو بنیاد بنا کر اپنے مذہبی ہتھوڑے لیے ہیرو بنے سامنے آگئے۔ بحیثیت قوم یہ واقعہ ہمارے مسخرے پن کی ایک اور مثال تھا۔ حکومت کی جانب سے غیر ذمہ داری کہ بلا ضرورت مشکل وقت میں حساس الفاظ میں تبدیلی، اپوزیشن کی جانب سے منافقت کی اعلی ترین مثال کہ ہر موقع پہ آگاہی کے باوجود ڈرامہ، عوام کی جانب سے اندھے مقلد ہونے کا ایک بار پھر ثبوت کہ شیخ رشید جو بھینس پالنے کی نسبت دودھ خریدنے کی بات کرتا تھا آج اسے مذہبی ہیرو بنائے بیٹھے ہیں، اور ہمیشہ کی طرح مولویوں کی جانب سے اپنی دوکان چمکانے کا ایک بار پھر مظاہرہ کہ موقع پرستی کوئی ان سے سیکھے۔

اب کی بار فوج نے بھی اپنی سیکولر پالیسی سے نظر چراتے ہوئے عوامی جذبات کا استعمال کرنے کی پوری کوشش کی۔ اندازہ لگائیں، کہ فوج جو ریاست میں ڈنڈا بردار کی سی حیثیت رکھتی ہے، میں قادیانیوں کے خلاف کوئی ضد پر مبنی پالیسی نہیں۔ فوج نے کبھی اس پالیسی کو بدلنے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی عوام چاہتے ہیں کہ اس موضوع کو زیربحث لایا جائے۔ البتہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ کو وردی میں رہتے ہوئے آئینی پیچ و خم میں کیوں مداخلت کرنی پڑی؟ آپ آئین کے تحفظ کا حلف ضرور اٹھاتے ہیں، اس میں ترمیم یا اس کی تشریح کا ہرگز نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ختم نبوت حساس معاملہ ہے، اس قدر حساس کہ  اس پر سوچے سمجھے بغیر بولنے سے گریز کرنا چاہیے کجا مولوی حنیف قریشی کی طرح فتوے بازی۔ شیخ رشید، میجر جنرل غفور اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے ہمیشہ کئ طرح ختم نبوت کا سہارا لیتے ہوئے اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ہمیں ان تینوں کی یکساں مذمت کرنی چاہیے اور ساتھ ہی احمدیوں کو تیسرے درجے کا شہری ماننے کی بجائے محب وطن پاکستانی اقلیت کی طرح دیکھنا چاہیے۔ جہاں تک بات ہے احمدیوں کی جانب سے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو نقصان پہنچانے کی  تو بھیا ہمارے اپنے لوگ بھی یہی لبادہ اوڑھ کر جائیداد کے تنازعات، جامعات میں طلباء کی چپقلش یا مسلکی اختلافات کا حل کسی کو زندہ جلا کر تو کسی کو سرعام مارتے پیٹتے قتل کرتے ہوئے نکالتے ہیں۔ کیوں نہ ایسے لوگوں کے خلاف بھی امتیازی قوانین و حلف نامے بنائے جائیں؟

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply