ابن آدم اور بنت حوا۔۔فرزانہ افضل

ڈاکٹر عامر لیاقت کی ناگہانی موت کے بعد سوشل میڈیا پر ایک کہرام مچا ہوا ہے۔ اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے آمین۔ بلاشبہ اس سانحے نے ہر دردمند کو دکھی کردیا ہے۔ ہر شخص اپنے اپنے طریقے سے اس غم کا اور اپنی سمجھ کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی تیسری شادی کی وجہ سے ہے بہت ایکسپوز ہو گئے تھے۔ اور ان کے ڈپریشن کا موجب ان کی تیسری بیوی بن گئی۔ اب جبکہ ڈاکٹر عامر لیاقت مرحوم کے بہت سے حالیہ انٹرویوز یوٹیوب پر آرہے ہیں جس میں انھوں نے یہ ظاہر کیا کہ ان کے خلاف کردار کشی کی باقاعدہ مہم چلائی گئی تھی۔ وجہ کچھ بھی ہو مگر مجھے افسوس بہت سے لوگوں کی محدود سوچ اور آراء پر ہے کہ بیشتر مشہور شخصیات اور اداکاروں کی طرح ڈاکٹر عامر لیاقت کے زوال میں بھی خواتین کا کردار ہے۔
مشہور زمانہ شاعر جون ایلیا نے ایسی ہی آراء کی تصدیق کرتے ہوئے کیا خوب کہا:
” بنت حوا کے نرم لہجے نے
ابن آدم بگاڑ رکھے ہیں”
اس کے جواب میں عکس آصف نے کہا:
” ابن آدم نے اپنے سارے جرم
بنت حوا پر ڈال رکھے ہیں”

کسی بھی شخص کے زوال کی وجہ خواتین نہیں بلکہ اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ یہ لوگ شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک خاتون ہوتی ہے۔ غرور دولت اور شہرت کا تو اکثر ہوتا ہی ہے ، مگر بہت سے لوگوں کو علم کا غرور بھی ہو جاتا ہے اور اگر یہ تینوں غرور مل کر سر چڑھ جائیں تو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے خود کو کل کا مالک سمجھنے لگتا ہے اور اپنے فیصلوں میں کسی کو جواب دہ نہیں گردانتا۔ دوسروں کی دل آزاری کی ہو تو بے شمار توجیہات ڈھونڈ لاتا ہے۔ کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتا۔ الٹا اپنے کیئے کا الزام دوسروں پر دھرتا ہے۔ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کرنا چاہے تو فوراً مذہب کا حوالہ بیچ میں لے آتا ہے اور پہلی بیوی سے نا خوش ہونے کی وجہ بیان کی جاتی ہے ، پھر دوسری شادی، اور اس کے بعد تیسری کے لیے بھی یہی رونا رویا جاتا ہے۔ یعنی شروع سے لے کر آخر تک مرد ہی مظلوم ہے۔

مگر سوال ہر بار یہی اٹھتا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والے حضرات مذہب کے رو سے بیک وقت تمام بیویوں کے حقوق سے انصاف کر پاتے ہیں۔ پہلی بیوی یا بیویوں سے علیحدگی کے بعد بچوں اور ان کی والدہ کے نان نفقہ کی ذمہ داری اور بچوں کی پرورش کے فرائض پورے کرتے ہیں۔

میری اس تحریر سے یہ مت سمجھئے کہ میں جانبدارانہ طور پر خواتین کو مظلوم ٹھہرا رہی ہوں۔ بہت سے کیسز ایسے بھی دیکھے ہیں جس میں عورتیں قصور وار ہیں اور اپنے شوہروں کو نیچے لگا کر رکھنے کی خواہش میں بے جا کنٹرول کرتے ہوئے جذباتی طور پر ان کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اور ایسے مرد اپنی شرافت ، خاندانی اور سماجی دباؤ کی وجہ سے شادی کو نبھاتے چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح بہت سی خواتین بلکہ بہت سے شادی شدہ جوڑے انتہائی ناخوش اور گھٹن زدہ رشتوں میں بندھے ہوئے پوری زندگی گزار دیتے ہیں۔ شادی کو نبھانا ، خاندان کو ساتھ لے کر چلنا ، اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں ، مگر تب جب گھر کا ماحول پوری فیملی کے لئے خوش گوار ہو اور روزانہ یا ہر آئے دن لڑائی جھگڑا اور چیخ و پکار نہ ہو رہی ہو جس سے بچوں کی ذہنی نشونما اور ان کی شخصیت پر انتہائی برا اثر پڑتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسلام میں اسی لیے طلاق کا قانون نافذ ہے ، گو کہ خدا کے نزدیک یہ نا پسندیدہ ترین عمل ہے۔ شادی کو نبھانا مذہب سے زیادہ ایک سماجی فعل ہے، اس میں ایسے جوڑے یا متاثرہ شوہر یا بیوی کو سماج کی طرف سے خوب ستائش ملتی ہے۔ کبھی بیٹھ کر سوچئے  کہ سماج کی واہ واہ کے چکر میں آپ اپنی خوشیاں تو نہیں گنوا بیٹھے، کیا آپ کے گھر کے ٹینشن زدہ ماحول کی وجہ سے آپ کے بچوں کی شخصیت سے تو متاثر نہیں ہوگئی۔ کیا آپ کو اپنی زندگی میں وہ محبت مل پائی ہے جس کی ہر شخص تمنا کرتا ہے کیا آپ نے پوری زندگی ایک سسٹم کے تحت گزار دی ہے جس میں آپ کی اپنی خواہشات دب کر رہ گئی ہیں۔ ان سوالوں کے جواب ضرور تلاش کیجئے اور ان جوابوں سے اپنی شخصیت کی تعمیر و ترقی کیجئے۔ یاد رکھیے نیک کام میں دیر کیسی ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply