ایک تقریب۔۔دیارِ غیر میں/ڈاکٹر شاہین مفتی

واشنگٹن میں اتحاد ،ایمان،تنظیم کا شاندار منظر ، فوج اور حکومت کے ایک پیج پر ہونے کا بھرپور مظاہرہ تھا۔اس تہذیبی جلوہ گری کا چمتکار عموماً سویلین تقریبات میں دکھائی نہیں دیتا۔۔اسٹیج پر چنیدہ کرسیوں کی ترتیب ،پُرہجوم ہال میں پاکستانی جھنڈوں اور قومی نغموں کی گونج حاضرین کے دل کی دھڑکن کے ساتھ مدہم اور تیز ہوتی رہی۔یقیناً پاکستانی قومی ترانے کی دور تک سنائی دینے والی آواز امریکی فضا کے دوش پر دیر تک لہراتی رہے گی۔کیا ہی اچھا ہوتا جلسے کے منتظمین امریکی ترانے کو بھی اس تقریب میں عزت بخشتے۔وہ امریکہ جہاں پاکستانی تارکین ِ وطن امن و امان کی زندگی اور روزگار کی نعمتیں حاصل کیے ہوئے ہیں۔یہ عمل ملکی خیر سگالی کی ایک علامت بن سکتا تھا۔۔

اس تقریب پرلیکن پی ٹی آئی  کا رنگ اتنا گہرا تھا کہ اس کی قومی اور بین الا قوامی حیثیت کو دھچکا سا لگا۔
کاش ہمارے وزیر ِ خارجہ اور وزیراعظم اپنے خطاب میں زیادہ تدبر۔سلیقے اور دیانت کا مظاہرہ کرتے اور اسی عظیم تقریب سے وہ اثمار حاصل کرتے جس کے لیے امریکہ کی ریاستوں اور کینیڈاوغیرہ کے غیر ملکی شہریت  والے پاکستان اس مقام پر جمع ہوئے۔یہ تو کہا گیا کہ ان کے زر ِ مبادلہ سے پاکستان کی معیشت چلتی ہے لیکن اسکے عوض پاکستانی حکومت انہیں کیا سہولیات فراہم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔۔۔اس کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔
افسوس بنیادی ویژن کی کوتاہ نظری کے باعث ایک سرمایہ دارانہ فضا میں کھڑے ہوکر چین کے کمیونزم اور ریاست ِ مدینہ کے مبہم تصور نے بھی منظر نامے کو خاصا دھندلا دیا۔ہم ایسے ترقی پذیر اور کمزور معیشت والے ممالک بڑے ممالک سے مالی تعاون اور تعلقات کی مضبوطی کے علاوہ کس بات کے طلبگار ہوتے ہیں۔یہ بات ہمارے وزیرِ خارجہ اور وزیرِاعظم بہت اچھی طرح جانتے ہیں لیکن ہجوم میں اسی ایک طلب گاری سے آنکھیں چرائی گئیں۔نہ تجارت کی بات ہوئی،نہ آنے والے چار سالوں میں اقتصادی منصوبہ بندی کی، نہ صنعت کا فروغ، نہ اعلی تعلیم کا تذکرہ۔۔البتہ اس سبز پرچم تلے جمع ہونے والے ہجوم کے سامنے پاکستانی سیاست دانوں کی خوب تضحیک کی گئی،جن میں کئی  وزرائے اعظم ،صدر اور دیگر عمائدین شامل ہیں۔۔یہ بتا دیا گیا کہ پاکستانی قوم کے مختلف الخیال لوگوں کے درمیان صلح، رواداری، تواضع اور امن وآشتی کے کلچر کی کوئی  گنجائش نہیں، البتہ ایک سادہ جمہوریت کے عہد میں سزائیں ،ٹکٹکیاں،جیلیں،میڈیا سنسر شپ مخالفین کی منتظر ہے۔۔
پاکستان میں میرٹ نام کی کوئی شئے  موجود نہیں ۔وراثتی اور جاگیرداری نظام اپنی جڑیں پھیلائے بیٹھا ہے۔عام آدمی کے پاس روزگار نہیں۔بہت زیادہ کرپشن ہےاور خزانہ خالی ہے۔ایک برس کی دلآزاری اور نفرت نے معاملات کہاں پہنچائے ہیں اس کے تذکرےسے بھی گریز کیا گیا۔الغرض ان خطابات میں سب کچھ تھا جمہوریت نام کی کوئی صفت موجود نہ تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسری جانب کل کی تاریخ میں مریم نواز شریف کا پاکستان کے مانچسٹر میں ایک کامیاب ریلی لے کر چلنا اورصوبائی حکومت کاایک پُرامن احتجاج کی راہ میں کنٹینرز کھڑے کرنا۔پولیس اور حفاظتی اداروں کی بے نیازی بذاتِ خود جمہوریت کے لیے ایک سوال ہے یہ وہی خودپسندی وخود آرائی ہے جس کا مظاہرہ وزیر ِاعظم دیارِ غیر کے ہجوم کے سامنے کرتے رہے۔
دونوں جمہوری مظاہروں کے مابین اس زنانہ خودکش حملے کا تذکرہ بھی ضروری ہے ۔جو مولانا فضل الرحمان کے آبائی  علاقے میں ہوا اور حسب ِ روایت بےگناہ فوجیوں کی شہادت کا باعث بنا۔دراصل یہی وہ ٹیپ کا مصرع  ہےجوخودکش دھماکوں اورپینٹا گون کی تاریخ میں قدر ِ مشترک ہے اور ہماری ساختہ اور سُست الوجود جمہوریت سے زیادہ مستحکم ۔
ہمیں بہرحال بڑی طاقتوں کے مالی تعاون، عسکری امداد اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں مزید مد د کی ضرورت ہے اس لیے ہمارے سیاسی نمائندگان کو اپنی احتیاج اور ضروریات کا مقدمہ پیش کرنے سے پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کرنے اور اپنے بیانیے کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہییے ۔کیونکہ خودشعوری اور خود آگہی ہی کامیابی کی پہلی کڑی ہیں۔ورنہ لاف زنی اورنعرہ بازی کے ڈھول پیٹنے سے صرف شور ہی برپا ہوا کرتا ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہین مفتی
پروفیسر ڈاکٹر اردو ادب۔۔شاعر تنقید نگار کالم نگار ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply