حسیں پل جو چل بسے یادیں چھوڑ کر

حسیں پل جو چل بسے یادیں چھوڑ کر
اسامہ چودھری
پڑھتے ہوئے جب بھی رات کو لائیٹ جاتی سائنس کالج میں زمانہ طالب علمی میں دل میں پیدا ہونیوالی مسرت کا احساس ابھی بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ رہتا ہے۔ لیکن شنید ہے اب وہاں ہیوی جنریٹر دستیاب ہے ،جو کہ کم کم خراب ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے ہاسٹل کے قوانین بھی غالباً نر م ہیں ساتھ ہی آنرز پروگرام شروع ہیں ۔الہڑ دوشیزاوں نےایک طرف کالج کے حسن میں اضافہ کیاہے تو دوسری طرف ان کی وجہ سے وہاں کچی عمروں والے طلبا کی پکی ” سپلیاں “آتی ہیں۔ہمارے دور میں تو صرف ایم ایس سی بلاک تھا اس میں بھی 15،20 عورتیں عبایا پہنے سردیوں میں چھت کے عقب میں دھوپ تاپ رہی ہوتیں تھیں اور بس۔
ہارون بھائی جو کہ “پاٹا” کے نام سے مشہور تھے اتنے محنتی واقع ہوئے تھے جب لائٹ جاتی تو ان کے پاس ایک ٹوپی ہوتی تھی جس کے اوپر ماتھے پر سامنے ایک ٹارچ ہوتی تھی آسانی کےلیے آپ اسے ہیڈ لائٹ کہہ سکتے ‘ کسی گاڑی کی ہیڈ لائٹ اور ہارون کی ہیڈ لائٹ میں یہ فرق تھا گاڑی کی ہیڈ لائٹ کے پیچھے گاڑی ہوتی ہے جبکہ ہارون بھا ئی کی ہیڈ لائٹ کے پیچھے اس کا بڑا سا ماتھا ہوتا تھا۔ اتنا بڑا کہ آرام سے دھان کاشت ہو سکتی تھی جیسے ہی ہاسٹل کی لائٹ جاتی ہارون بھائی کا ماتھا ٹارچ کے نور سے جگمگ ہو جاتا۔ جو ں ہی یہ کتاب پر جھکتے تو کتاب بھی روشن ہو جاتی۔آپ سٹڈی کم کرتےجبکہ ماتھے پر ٹارچ فٹ کر کے رات کو پورے ہاسٹل کے ایک ایک کمرے میں چکر لگاکر طلبہ پر دھاک بٹھاتے کہ وہ کتنے محنتی واقع ہوئے ہیں۔ ہم بھی سہم سہم کر ان کی طرف دیکھتے اور چہ مگوئیاں کرتے اور نہیں توہارون صاحب فیصل آباد بورڈ آرام سے ٹاپ کر لیں گے۔
برسبیل ہم نے بھی اکیڈمی جانے میں کسر نا چھوڑی تھی۔ اکیڈمی کی بات ہو اور زبیر بھائی کا ذکر نہ ہو ایسا کیوں کر ہو گا۔زبیر صاحب ناشتے سے پہلے سائنس کالج کے بالمقابل الہٰی اکیڈمی سے علم کا گٹھا اپنے ناتواں کندھوں پر لاد کر ناشتے کی میز پر جا دھمکتے ،پھر کالج سے واپسی پرجوہر اکیڈمی کے لیے تیار ہوتے اور شام تک وہیں ڈیرے ڈال کر علم کی دولت سے مالا مال ہوتے۔ دو سال میں یہی اندازہ لگایا جو جتنا زیادہ اکیڈمی گیا انٹر میں اس کے اتنے نمبر کم آئے اور جو کم گئے ان کے زیادہ۔ خاکی چونکہ نہ کم جاتا تھا نہ زیادہ لہٰذا ہمارے نمبر بھی نہ کم تھے نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔کالج ہاسٹل ادبی، غیر نصابی سرگرمیوں،کھیلوں اور ہر قسم کے مقابلوں میں پیش پیش تھا۔نوید شفقت گل صاحب ہاسٹل سپریٹنڈنٹ رات کو کبھی کبھا ر سارے طلبا کے ہمراہ لان میں بیٹھتے اور خوب محفل جمتی،وہ ہم طلبا کو پمپ کرتے تھے کہ آپ پنجاب بلکہ پاکستان کے ذہین لوگ ہیں ،میں طلبہ کی طرف سے جوابی تابڑ توڑ حملہ کچھ اس انداز میں کرتا،
’’سر بھلا وہ والی غزل سنائیں‘‘۔
اس کے بعد سر کے اندر ایم ایس سی جغرافیہ پنجاب یونیورسٹی کا ایک کھلنڈرا سا نوجوان جاگ جاتا ایک کی بجائے تین چار غزلیں پڑھ ڈالتے وہ سرور کے عالم میں۔یونیورسٹی آنے کے بعد پتہ چلا وہ اس دور کو مزے لے لے کر کیوں بیان کرتے تھے۔ برسبیل گل صاحب ایک وژنری اور رولز اینڈ ریگولیشن میں ید طولیٰ رکھتے تھے ایک دفعہ سٹڈ ی پریڈ میں رات کو خاکی بھی موبائل استعمال کرتے ہوئے ان کے ہتھے چڑھ گیا پھر ایک ماہ تک سٹل سے باہر کی ہوا کھائی۔ بچپن سے ہی سکول سی چھٹیا ں کرنے کی عادت تھی جو کالج میں بھی جاری رہی اور اب بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ہاسٹل کا قانون تھاآن ڈیز میں صبح گیارہ بجے سے پہلے اپنے روم میں جانا گویا آ بیل مجھے مار کے مترادف ہوتا۔دن کے کوئی دس بجے کے قریب میرے سے کوئی دو چار کمرے پہلے تڑاخ تڑاخ تھپڑوں مکوں کی آواز آئی ، خواب خرگوش تھا ہڑبڑا کے اٹھا اور چار پائی کے نیچے کچھ اس انداز سے چھپا کہ ان کا روم چیک کرنے کے باوجود بچ گیا۔
کالج کی پڑھائی میں عامی کا بالکل بھی دل نہ لگتا تھا سلیبس کے علاوہ باقی تما م کتابیں پڑھتا تھا انہیں دنوں ہماری شناسائی جاوید چوہدری سے ہوئی پھر کچھ عرصہ تک ان کے فین ہو کے رہ گئے۔ بھلا ہو حساب کے استا د کا کہتے تھے جس نے جانا ہو حاضری لگا کے چلا جائے اور میں اس آفر کا بھرپور فائدہ اٹھاتا،ایک دن تو تقریباً پچاس کے پچاس طلبا جب حاضری لگا کے باہر جانے لگے تو بابا جی (میتھ کے استاد عمر رسیدہ تھے انہیں ہم بابا جی کہتے تھے)جھلا کر کہنے لگے کم بختو! کوئی دو چار بیٹھ جاؤ سارے جا رہے ہو یہاں میں اب دیواروں کو پڑھاوں گا؟ رانا فاروق صاحب سکینڈ ائیر میں ہمارے سیکشن کے اردو کے استاد تھے ان سے یاری سی لگ گئی ،کیوں کہ وہ مجھے’’ یادوں کی بارات‘‘ کے علاوہ منٹو کے ہمارے اٹھتی جوانی کی موافقت کے مزیدار قصے سناتےِساتھ ساتھ اپنے سے ہوتے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی پھر ان سے ہوتے ہوتے سر سید تک پہنچ کر ہمارا اردو ادب کا روحانی شجرہ نصب یاد کرواتے۔ اب کبھی جاؤں تو انھیں ضرور ملتا ہوں ۔انٹر میں ایک دن ایک غزل دکھائی تو کہنے لگے ناتواں کندھوں پر بڑا بوجھ اٹھانے کی زحمت مت کرو وہ دن اور آج کا دن ہم نے شاعری سے منہ موڑ لیا ۔ اگر حقیقی معنوں میں میر ی زندگی میں کوئی اردو ادب کا استا د آیا تو وہ رانا صاحب تھے۔
وقت پر لگا کے کچھ اس ادا سے اڑا کہ حسیں یادیں حسیں بن کے رہ گئیں، آخری دن ہمارا حساب کا پیپر تھا اس کے بعد سارے نان میڈیکل کے ہاسٹل فیلوز رات کو امیتاب بچن کی مووی’’ڈیپارٹمنٹ ‘‘ دیکھنے چلے گئے درمیان میں چھوڑ کر واپس آئے سب یہی کہہ رہے تھے عمران ہاشمی کی جنت ٹو دیکھ لیتے کم از کم بو س و کنار کے عوض پیسے ضائع ہونے کا خدشہ تو غلطاں ہوتا۔رزلٹ سے پہلے نان میڈیکل والے UETسے کم داخلہ پر بات نہ کرتے جبکہ میڈیکل والے ایم بی بی ایس میں ایڈمیشن کےلیے سرگرداں تھے ، ہمارے سر پر بھی سول انجینرنگ کا بھوت تھاجو کہ رزلٹ آنے کے بعد قدرے اور انٹری ٹیسٹ کے رزلٹ کے بعد مکمل طور پر اتر چکا تھا۔ہمیں جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے سخت نفرت تھی جبکہ پنجاب یونیورسٹی سےبے انتہا محبت !
خدا کا کرنا ایسا ہوا، اسی جی سی میں کئیریر کے اہم چار سال گزارے، اب ایم فل شعبہ طبیعیات جامعہ پنجاب میں ہوں،ضدی ساٹھہرا، تھا گرتے پڑتے آہی گیا یہاں!بھلےچار سال لیٹ ہی سہی، لیکن ہمارے خیال میں محبت وہی اچھی جو ملے نہ، جو مل گئی وہ محبت نہیں!

Facebook Comments

اسامہ چودھری
المختصر واصف علی واصف پسند ہیں۔ ایم فل فزکس شعبہ طبیعیات،جامعہ پنجاب لاہور

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply