بڑھتے ہوئے ٹرین حادثات اور حکومتی ذمہ داریاں

بڑھتے ہوئے ٹرین حادثات اور حکومتی ذمہ داریاں
طاہر یاسین طاہر
ہمارے ملک میں حادثات کی وجوہات جاننے یا وجوہات ختم کرنے کے بجائے قدرت کا لکھا کہہ کر معاملے کو ختم کر دیا جاتا ہے یا پھر زیادہ عوامی ہمدردی اور زیادہ چستی و ذمہ داری دکھانا ہو تو ایک دو کمیٹیاں بنا کر معاملے کو کمیٹیوں کی رپورٹ آنے تک لٹکا دیا جاتا ہے۔ عموماً بڑے واقعات کی کمیٹی یا جوڈیشل کمیٹی یا انکوائری رپورٹ بہت تاخیر سے آتی ہے جسے قومی مفاد میں عام بھی نہیں کیا جاتا نہ ہی کسی جوڈیشل یا انکوائری کمیٹی کی سفارشات پر عمل کیا جاتا ہے۔اس حوالے سے فضائی حادثات سے لے کر زمینی حادثات تک ایک ہی کلیہ پر عمل کیا جاتا ہے۔ایئر بلیو اور ایک دوسری نجی کمپنی کے مسافر طیاروں کے حادثات سے لے کر حال ہی میں پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے کے حادثے تک،حکومت اور محکمانہ حکام کی اولین ترجیح کسی نہ کسی طرح ایسی کمیٹی کی تشکیل ہوتی ہے جو مہینوں معاملے پر تحقیق کرتی رہے اور اس عرصے میں نہ صرف متاثرین کے غم کم ہو جاتے ہیں بلکہ نئے حادثات نئی کمیٹیوں کی راہ ہموار کر دیتے ہیں اور لوگ پچھلے حادثے کو کسی حد تک بھول کر نئے زخموں کی پرورش میں لگ جاتے ہیں۔
یہ امر واقعی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی فضائی و زمینی حادثات ہوتے ہیں۔زمینی و آسمانی آفات بھی آتی ہیں،سیلاب و زلزلے بھی آتے ہیں مگر ترقی یافتہ ممالک ان حادثات سے نمٹنے کے لیے ریاستی سطح پہ تیار ہوتے ہیں۔ہمارا المیہ البتہ مختلف ہے۔ ہمارے ہاں اگر فضائی حادثہ ہو جائے تو اس کی تحقیقات کے لیے ٹیم بھی مغرب سے آتی ہے۔ریلوے کے حادثات ہمارے ہاں تو یوں ہوتے ہیں جیسے بڑے شہروں میں موٹر سائیکل کے۔قومی اداروں کی زبو ں حالی کا نوحہ ایک طرف،جو ادارے جس طرح چل رہے ہیں ان میں بہتری کے لیے بھی توجہ نہیں دی جاتی۔جیٹی روڈ کی ٹریفک کے بر عکس ریل گاڑیوں کے آنے جانے کے اوقات ہوتے ہیں اور ہر پھاٹک والے تو اس حوالے سے معلوم بھی ہوتا ہے۔نیز ریل گاڑی جب کسی شہر یا پھاٹک کے قریب پہنچتی ہے تو چنگھاڑتی بھی ہے۔اس کے باوجود ہمارے ہاں ریل گاڑیاں مسافر گاڑیوں سے یا موٹر سائیل رکشوں سے ٹکرا جاتی ہیں۔
گذشتہ روز بھی جنوبی پنجاب کے شہر لودھراں میں ایک ٹرین اور موٹر سائیکل رکشے میں ٹکر ہو گئی جس کے نتیجے میں ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق8 طلبہ ہلاک اور چار زخمی ہو گئے۔یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ہزارہ ایکسپریس نے ریلوے پھاٹک سے گزرنے والے رکشے کو ٹکر مار دی۔زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہسپتال لودھراں منتقل کر دیا گیا ہے۔ حسب معمول گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ اور وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف نے حادثے پر گہرے غم و افسوس کا اظہار کیا ہے۔ایک بیان میں انھوں نے دکھی خاندانوں سے اظہارِافسوس کیا ہے۔وزیرِ اعلیٰ نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ زخمیوں کی بہترین دیکھ بھال کی جائے۔یاد رہے کہ پاکستان میں ٹرینوں کے حادثے عام ہیں جن کی وجہ عام طور پر ناقص حفاظتی انتظامات اور شکستہ بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے۔
یہ امر بھی یاد رہے کہ گذشتہ برس نومبر میں کراچی کے لانڈھی ریلوے سٹیشن کے قریب زکریا ایکسپریس اور فرید ایکسپریس کے ٹکرانے سے 21 افراد ہلاک اور جبکہ 60 زخمی ہوگئے تھے۔ اس حادثے کے کے بعدوفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ حادثے کی تحقیقات آٹھ دن میں مکمل ہو جائیں گی ہے۔خیال رہے کہ گذشتہبرس ہی ایک مسافر ٹرین کو ملتان میں حادثہ پیش آیا تھا جب ملتان کے قریب پشاور سے کراچی جانے والی عوام ایکسپریس ایک مال گاڑی سے ٹکرا گئی تھی جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور 120 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔ماضی قریب کے دو حادثات کا ذکر کرنے کا مقصدیہی ہے کہ حکام اعلیٰ کو یہ باور کرایا کہ آپ جس پھرتی سے کمیٹی بناتے ہیں ،اس پہ آپ کی مہارت کو دادا نہ دینا زیادتی ہو گی۔مگر کیا آپ نے کبھی کسی کمیٹی کی سفارشات پر من و عن عمل بھی کیا ہے؟بے شک حادثات و واقعات کی تحقیقات کے لیے انکوائری اور تحقیقاتی کمیٹیوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے اور ان کمیٹیوں کی فائنڈنگ کی روشنی میں ادارے اور حکومتیں اقدامات اٹھاتی ہٰن، مگر ہمارے ہاں حکومتی رویہ یہ ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی عوامی دباو کم کرنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔کراچی والے ٹرین حادثے میں مرنے والوں کے لواحقین کے لیے 15، 15 لاکھ روپے جبکہ زخمیوں کے لیے تین، تین لاکھ روپے امداد کا اعلانکیا گیا تھا،یہی کچھ یہاں بھی ہوگا۔مگر حکومت کو چاہیے کہ وہ اس بات کا سراغ لگائے کہ پھاٹک کھلا کیوں رہ گیا؟کیا وہاںموجود شخص نے اپنی ڈیوٹی سے غفلت کیوں برتی؟ کیا ٹرین ڈرائیور کی بھی غلطی ہے؟ بہرحال ایسے حادثات کم کرنے کے لیے حکومت کو ریلوے کے نظام میں بہتریئ لانا ہو گی۔ ترقی صرف اعلانات میں نہیں ہوتی بلکہ وہ عوامی خوشحالی کی صورت نظر آتی ہے۔یہان تو مگر کبھی کالے بکرے کا صدقہ دے کر پی آئی اے کا طیارہ اڑان بھرتا ہے تو کبھی مسافر ٹرین مسافر گاڑیوں اور رکشے سے ٹکرا جاتی ہے۔ ہسپتالوں کے ٹھنڈے فرش پر مرنے والوں کا نوحہ اس کے سوا ہے۔ اس سب کی ذمہ داری حکومت کے سوا کس پہ عائد ہوتی ہے؟

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply