مسئلہ کشمیر یا کشمیری، اہم کون؟ ۔۔۔ معاذ بن محمود

ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تو مسلمانوں نے کچھ سہانے خواب دیکھے۔ سوچا الگ دیس بنائیں گے وہاں آزاد رہیں گے، اپنی مرضی سے گائے کاٹا کریں گے، سنڈاس بنایا کریں گے۔ ہر وہ مسلمان جو ایسی آس لگائے بیٹھا تھا، خواہش مند رہا کہ وہ پاکستان پہنچ جائے۔ کچھ پہنچ گئے کچھ رہ گئے۔ کشمیر کے مسلمان پاکستان جانے کی بجائے کشمیر بنانے پر تل گئے۔ دوسری جانب کشمیری پنڈت جواہر لال نہرو نے بھی کشمیر کو انا کا مسئلہ بنا لیا۔ یدھ ہوا اور نتیجتاً کشمیر کا قریب نصف حصہ آزاد کشمیر کے طور پر پاکستان سے منسلک ہوگیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے پاس ہے دوسرا بھارت کے پاس۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیری آج کس حال میں ہیں؟ پاکستان میں بسنے والے کشمیری نسبتاً بہتر حال میں یوں ہیں کہ کم از کم امن سکون سے ہیں۔ باقی مظفرآباد کو ہم نے اسلام آباد والی سہولیات نہیں دیں لیکن وہ سہولیات ہم نے رحیم یار خان کو بھی فراہم نہیں کیں سو شکایت نہیں بنتی۔ ہماری خواہش ہے کہ کشمیر آزاد ہوجائے لیکن کشمیریوں کی ایک بڑی تعداد کی خواہش کشمیر کی پاک بھارت سے الگ ایک آزاد ریاست کی بھی ہے۔ ایسے کشمیری اکثریت میں ہیں یا نہیں یہ پول کبھی آزادانہ طور پر ہوا ہی نہیں۔ اگر ہوجاتا ہے تو کیا پاکستان اسے قبول کرے گا؟ میرا خیال ہے نہیں۔

تو بھائیوں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ہو یا بھارت، اوّل تو ہم اپنے اپنے حصے کے کشمیر کو حقیقتاً آزاد کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔ پھر دونوں فریقین کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق سنجیدگی سے کیسے دے سکتے ہیں؟

اچھا کشمیریوں کی بھی سن لیجیے۔ مکالمہ کی سابقہ ایڈیٹر، معروف لکھاری اور ہماری بہن مریم مجید ڈار صاحبہ ہر دوسرے روز انٹرنیٹ اور فون سروس معطلی کی شکایت کرتی رہتی تھیں۔ فوج کے زیر انتظام ادارے ایس سی او کے علاوہ کسی اور ادارے کو مواصلات کی سروسز فراہم کرنے کی اجازت نہیں۔ یہ ایک مثال ہے۔ اپنے حصے کے کشمیریوں کو ہم نے آزاد تو کروا لیا لیکن ان کے علیحدہ ریاست کا جواز ختم کرنے کو شاید ہم نے وہ سنجیدگی کبھی اختیار ہی نہیں کی جو کرنی چاہئے تھی۔ کہنے کا مقصد یہ کہ کشمیری الگ ہونا بھی چاہیں تو ہم انہیں غدار نہیں کہہ سکتے۔ یہ ان کا حق ہے جو انہیں پاکستان اور بھارت دونوں ہی دینے سے گریزاں ہیں۔ بلوچستان کا معاملہ اس سے الگ ہے کہ بلوچستان پاکستان کا باقاعدہ حصہ ہے اور اسی آئین کے تحت ہے جس کے تحت باقی پاکستان ہے۔

گزشتہ روز بھارت نے اپنے آئین کے مطابق کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت ختم کی ہے۔ یعنی اب سے جموں کشمیر کی حیثیت وہی ہوگی جیسی دیگر علاقوں کی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قدم وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کے حالیہ دورہ امریکہ کے بعد اٹھایا گیا جس میں اہم پیش رفت ٹرمپ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کی ثالثی کی پیشکش تھی۔ بھارت کشمیر کو ایک عرصے سے اٹوٹ انگ کہتا آرہا ہے۔ گزشتہ روز کی آئینی ترمیم کے بعد بھارت نے مسئلہ کشمیر کو مسئلہ ماننے سے بھی انکار کا اعلان کیا ہے۔ اس اعلان کے بعد کوئی بھی غیر کشمیری بھارتی کشمیر میں جائداد سے لے کر ملازمت اور جائداد تک کا حصہ دار بن پائے گا تاہم بھارتی وزیر داخلہ کے مطابق کشمیر میں لداخ کے برعکس اپنا آئین قائم رہے گا۔ خدشہ ہے کہ اس ترمیم کے بعد فلسطین کی طرز پر کشمیر میں بھی غیر کشمیری آبادکاری کا آغاز کیا جائے گا۔

تمام تر خدشات سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارتی زیر تسلط کشمیر میں ایک عام کشمیری کو کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ شہہ رگ یا اٹوٹ انگ سے ہٹ کر کشمیر کے انگ انگ کو امن کی ضرورت ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد اب براہ راست جنگ کے امکانات کم ہیں۔ وہ احباب جو پاکستان کو باقاعدہ جنگ کا مشورہ دے رہے ہیں اوّل جنگ کی تباہ کاریوں سے نابلد ہیں یا پھر جذباتی طور پر ایسا کہہ رہے ہیں دوسرا وہ اس حقیقت سے بھی ناواقف ہیں کہ دونوں ریاستیں ایسی مہم جوئی سے حتی الامکان اجتناب کریں گی۔ دوسرے الفاظ میں بھارتی کشمیر پر اب بھارت ہی اپنا تسلط قائم رکھے گا جیسے آزاد کشمیر کو آزاد کرنے یا بھارت کی سپردگی پر پاکستان کبھی رضامند نہیں ہوگا۔ پھر کیوں نہ ہم کشمیریوں کو بنیادی حقوق دینے کا مطالبہ کریں پھر وہ چاہے کسی بھی شکل میں کیوں نہ ہوں؟

بھارت کے ساتھ خراب تعلقات کی بنیادی وجہ بھی کشمیر ہی رہی ہے۔ اگر موجودہ پاک بھارت حکومتیں اس قضیے کو قضیہ ماننے سے انکاری ہو جائیں تو کیا اس میں کشمیریوں کے لیے خیر کا پہلو نہیں؟ آپ کسی بھی بھارتی مسلمان سے پوچھ لیجیے وہ آپ کے سامنے اپنے آپ کو حقیقی بھارتی شہری کے طور پر ہی پیش کرے گا۔ کوئی بھارتی مسلمان پاک بھارت میچ میں پاکستان کی جیت کے لیے دعاگو نہیں ہوگا۔ “کشمیر کی آزادی تک ادھار بند ہے” جیسے فقرے ثابت کرتے ہیں کہ ہم اچھی طرح واقف ہیں کہ کشمیر نے آزاد نہیں ہونا۔ پھر ضد چھوڑ کر بھارت کے کشمیری کے لیے بنیادی انسانی حقوق اور اپنے دفاعی بجٹ میں بھارت کے ساتھ کشمیر کی بنیاد پر مبینہ اضافی بجٹ کی کٹوتی پاکستانی عوام پر خرچ کرنے کی طرفداری کیوں نہ ہو؟

Advertisements
julia rana solicitors london

مسئلہ کشمیر کا جو حل ہماری خواہشات میں شامل ہے ہم سب جانتے ہیں اس کا اطلاق ناممکن ہے۔ پھر دونوں ممالک اپنے کشمیر کو اپنے ملک کا باقاعدہ حصہ مان کر انہیں وہی حقوق کیوں نہیں دیتے جو باقی شہریوں کو حاصل ہیں؟ یہ سوال اہم ہیں تاہم ان پر بحث کرنے کے لیے ہمیں غزوہ ہند جیسے جہادی نظریات سے باہر آنا ہوگا۔ ہمیں اس ٹیبو پر کھل کر بات کرنی ہوگی۔ یاد رکھیے، بنیادی انسانی حقوق کسی بھی علاقے کو شہہ رگ یا اٹوٹ انگ ماننے کی ضد سے کہیں اہم ہیں۔ ایک بار ٹھنڈے دل سے کشمیری بن کر سوچئے گا ضرور۔

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply