ندامت۔۔مصباح

احساس جرم کا فقدان انفرادی اور قوموں کی تنزلی کا باعث بنتا ہے ۔جب انسان کے اندر احساس جرم پیدا ہو جائے تو یہ برائی کے جڑ سے خاتمہ اور  رحمان کے راستے پر لانے کیلئے مدد گار ثابت ہوتا ہے۔غلطی چاہیے چھوٹی ہو یا بڑی  اس کا احساس نہ ہونا  انسان کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیتا ہے جو رحمان کا راستہ نہیں ۔احساس جرم نہ ہونے کی وجہ سے انسان بے حس ہو جاتا ہے ۔لوگوں کیلئے درد دل  نہیں رکھتا ۔ایسا انسان پھر  اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی پیروی کرتاہے اور چھوٹے چھوٹے شرعی احکام کو رد کرتا چلا جاتا ہے ۔حتی کہ اپنی انا کی زدمیں آ کر اپنے قریبی لوگوں سے لاتعلقی اختیا ر کرتا ہے اور  اسے اپنے اصولوں کی پیروی کے علاوہ دنیا کے کسی فرد کی کوئی فکر نہیں ہوتی ۔دعوت دین کو وہ خاموشی سے  سنتا ہے لیکن دل ہی دل میں تمسخر اڑا رہا ہوتا ہے  اور دعوت دین سے لاپرواہی برتتا ہے ۔ انسان کو اپنی غلطی کا احساس نہیں ہوتا اور وہ خود  غلط ہوتا ہے لیکن اپنے آپ کو سمجھدار سمجھ رہا ہوتا ہے ۔انسان کی یہی سوچ اس کے ذہن پر سیا ہ پردوں کا جال بچھا دیتی ہے  اس کے اثرات بڑھتے چلے جاتے ہیں اور وہ ہدایت سے دور ہو جاتا ہے۔

ہم ہر وقت اپنی کوتاہیوں کو نظر انداز کر کے دوسروں پر تنقید اور الزامات کے مواقع اور حجتیں تلاش  کرتے ہیں ۔ہمارے اندر کی انا   اور ضد ہمیشہ ہمیں غلط نمبر کی عینک سے دکھارہے ہوتے ہیں جس میں ہمیں اپنے اندار کی دنیا صحیح نظر آنے لگتی ہے  جس کے نتیجے میں ہم روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں رحمان کے فرمان کی خلاف ورزی کرتے چلے جاتے ہیں  ۔یہ راستہ صراط مستقیم کا  نہیں

یہ بات واضح ہے کہ اللہ نے اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق بھی رکھے ہیں ۔اگر انسان اپنی انا کی خاطر اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کو روندتا چلا جائے  تو اس سے غلطی صادر ہو چکی ۔کیونکہ اللہ  نے ہمیں اپنے حقوق کے ساتھ بندوں کے حقوق بھی پورے کرنے کا حکم دیا ہے ۔اب انسان اپنی شرافت پر پردہ ڈالنے کیلئے جھوٹ اور حجتیں تلاش کرنے لگتا ہے جس سے  برائی کی ایک  لڑی پروان چڑھتی ہے جو  انسان کی دنیا اور آخرت کی تباہی کا باعث بنتی ہے ۔انسان اگر زمین سے آسمان تک خلاؤں کو گناہوں سے بھر دے اور پھر صدق دل سے اللہ کے حضور توبہ کرے تو اللہ کی رحمت وسیع ہے  وہ غفورالرحیم ہے۔لیکن  دو قسم کے  گناہ اللہ معاف نہیں کرے گا۔

پہلا گناہ تو وہ ہے جس کی قباحت اور سزاکا علم ہونے کے باوجود اس کا ارتکاب کیا جائے ۔گناہ کی ایک شکل تو یہ ہے کہ انسان کو اس کے گناہ کا علم ہی نہ ہو،عدم واقفیت کے سبب گناہ سرزد ہوجائے یا گناہ ہونے کا علم ہو مگر اس کی سزا اور اس کی قباحت نہ جانتا ہو، اس کو قرآن نے ’’جہالت ‘‘سے تعبیر کیا ہے۔ایسے گناہ کے سچی توبہ سے معاف ہونے میں کوئی شبہ نہیں لیکن گناہ ہونے کا علم ہو اور اس کی شدت کا بھی اور پھر بھی جان بوجھ کر اس کو کیا جائے ،یہ جسارت ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک جرم ِعظیم ہے اسی لئے قرآن میں توبہ کی قبولیت کو جہالت سے مشروط کیا گیا ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے یہ جان لو کہ اللہ پر توبہ کی قبولیت کا حق ا نہی لوگوں کے لئے ہے جو نادانی کی وجہ سے کوئی برا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں ،ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظرِ عنایت سے پھر متوجہ ہوجاتا ہے اور اللہ ساری باتوں کی خبر رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے ‘‘( النساء 17) ۔

اور دوسرا گناہ وہ ہے جو انسان مرتکب ہو کے دوسروں کو بتاتا پھرے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے جرم پر نادم نہیں ایسا گناہ بھی اللہ معاف نہیں کرتا۔آج کل بہت سے نوجوان اس تصور کو لے کر زندگی گزار رہے ہیں کہ علم کے باوجود  گناہ ہو گیا مستقبل میں توبہ کر لیں گے یہ تصور بالکل درست نہیں ۔

ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ ہم ہمیشہ دل میں بات رکھ لیتے ہیں اور موقع ملتے ہی ٹھیک سے انتقام کا بندوبست کر  رہے ہوتے ہیں۔فرض کیجئے ہمارا کسی سے کوئی اختلاف ہو ا تو وقتی ہم صلح کر لیتے ہیں  اور بات دل کے اندر ہی دبا لیتے ہیں ۔حالانہ اس کو معاف نہیں کیا ہوتا بلکہ وقتی انتقام کے جذبات دب جاتے ہیں اور جیسے ہی  موقع ملے پھر اسی انتقام کی آگ میں کود جاتے ہیں۔ایسا کرنا اللہ اور رسول کی نارازگی کا باعث ہے ۔یہ ہمارے لیے قابل ندامت ہے کہ ہم ڈگریوں کی گٹھڑی لیے  بھی ایسے کام  کر رہے ہوتے ہیں جنکا تعلق اسلام سے  دور دور تک نہیں ہوتا لیکن ہم اپنی آسانی کیلئے  حجت تلاش کر لیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دوسروں کا تزکیہ کرنے کے بجائے اپنا  تزکیہ کریں۔صبر و تحمل  ،عفو و درگزر کا مظاہرہ کریں ۔اور انجانے میں اگر اللہ یا اس کے بندوں کے حقوق میں کوئی کوتاہی ہو گئی ہو تو صدق دل سے  اعتراف کرے اور توبہ کے دروازے کی طرف آئیں۔اسے میں دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔اپنی اندر کی دنیا میں دوسروں کیلئے احساس پیدا کیجئے دوسروں کے درد و غم کا سہارا بن جائیے اللہ تعالی  ایسی راہیں مہیا کر دیگا کہ دنیا و آخرت میں کامیابی   ملے گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply