اسٹیبلشمنٹ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئی؟ ۔۔۔محمد وقار اسلم

جیسا کہ اپنے پچھلے کالمز میں بتا چکا ہوں   الیکشن سے قبل بھی اور الیکشن کے بعد بھی کہ کپتان کس کی ایماء پر آگے آیا اور کون ہے انوکھا لاڈلا جو اپنی تشنہ خواہش کو سامنے رکھتے ہوئے کھیلنے کو چاند مانگتا رہا اور دینے والے ہر طرح سے جت گئے۔کپتان بہت سادہ آدمی ہیں جب دھرنا دے رہے تھے تب بھی امید رکھتے تھے کے ایمپائر کی انگلی اٹھے گی انہیں کُرسی ملے گی اور برملا اشارہ بھی دے چکے تھے۔ یہ بات شاید اب تھوڑی سی سمجھ رکھنے والے جانتے ہیں کہ اب مارشل لاء نہ لگ سکتا ہے نہ ہی حالات اس کی اجازت دیتے ہیں انٹرنیشنل پریشر اور بہت سے معاملات جن میں ملکی معیشت سرِ فہرست ہے اس کے علاوہ اقتصادی پابندی لگنے کو خوف سر پہ منڈلاتا رہتا ہے۔ گیم کچھ اور ہے اس کی ڈیزائننگ بڑے توقف سے کی گئی ہے بڑے سورماوٗں کو پارلیمان سے باہر کیا گیا پندرہویں اسمبلی کے حلف اٹھانے سے پہلے تک اس خیال کو لے کر بیٹھے کچھ لوگوں کو بھی مایوسی ہوئی جو سمجھ رہے تھے کہ وہ تھوڑا شور مچائیں گے اور انہیں جتوا دیا جائے گا ایسا کچھ نہ ہوا اور نئے ممبران اسمبلی حلف اٹھا چکے۔الیکشن میں کس کو کتنی سیٹیں سونپی جائیں اس پر باقاعدہ مشاورت ہوئی اور ہوا وہ ہی جو کرنے والوں نے کرنا تھا تین جولائی کو  ایک لسٹ موصول ہوئی اورمستعجب اور خیرہ کردینے والی بات یہ تھی کہ عام انتخابات 2018ء کے نتائج بخوبی اس لسٹ کے مطابق تھے۔جیپ،پی ایس پی اور ٹی ایل پی کو جب چند دانشوروں (فلم بنانے والوں) وہ تجزیہ کار جو اپنی باتوں سے منظر نامہ پر اثر انداز ہوجاتے ہیں نے کہا کہ ان کے پیچھے ہے ہی اسٹیبلشمنٹ اور ان کی سیٹس پر فتح یقینی ہے تو شاید یہ جماعتیں بھی بہت پُراعتماد ہوگئیں اور ان کی گفتگو فاتحانہ رہی اس پر پھر اگلے پلان کو سامنے رکھ کر اس پر عمل کرنا پڑا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا تھا کہ 2018 ء تبدیلی کا سال ہے واقعی بڑی گہری بات تھی لیکن وہ نت نئی تبدیلی وہ نہیں تھی جس کی بازگشت پی ٹی آئی کے سپورٹر بتاتے ہیں بلکہ وہ دقیق گومگو پیدا کئے رکھنے والی تبدیلی کی بات کر رہے تھے کہ ہو بھی سب ایمپائرز کی مرضی کا لیکن کسی کی سمجھ میں بھی نہ آنے پائے۔ جیپ،پی ایس پی اور ٹی ایل پی کو نئے پلان کے تحت فارغ کردیا گیا اور اس انگیخت کو بھی بجھا دیا گیا کہ ایمپائر نیوٹرل نہیں۔ متحدہ اپوزیشن کا  ڈھونگ رچا اور اس میں اتنی دراڑیں نظر آئیں کہ اس کے کچھ کر گزرنے کا سوال ہی نہیں پھر سارے پہنچے اور بڑی شان و شوکت کے ساتھ حلف اٹھا لیا۔ پی پی پی نے سندھ کی حالتِ زار کچھ چھوڑی نہ تھی اپنی خرمستی میں مگن رہے تو کس بنیاد پہ اسے 43 سیٹیں دلوائی گئیں؟۔

عمران خان نے ایمپائرز سے سیمی فائنل تو جیتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ فائنل میں ان کی کار کردگی کیا رہتی ہے کیونکہ ان کی حکومت ہر طر ف سے ہی vulnerable دکھائی دے رہی ہے اتنی مربوط اپوزیشن آج تک ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں رہی ہے اور درپیش چیلنجز اتنے ہیں کہ گتھی سلجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اتنی سیریس وکٹری اسپیچ کرتے ہوئے آپ کے لئے سب سے بڑا مسئلہ وزیر اعظم ہاوٗس کو یونیورسٹی بنانا ہے اور دیگر امور پہ آپ متانت کا مظاہرہ کریں اپنے ویژن کا پرچار کریں لیکن وہ قوتیں  جو داخلی امور پر سرخ لکیر کھینچتی ہیں کہ اس کی حدود کو کراس نہیں کرنا تقریر کے بعد ان سے آپ کو کچھ اور ہی ڈکٹیشن ملے تو خود سوچیے کیا فائدہ ایسے اقتدار کا ایسی حکومت کا۔

آپ کے 18 اگست کو حلف اٹھانے کے بعد بھی اگر In House تبدیلی کے خطرات سر پہ منڈلائیں تو واقعی  آپ کے لئے یہ کڑا امتحان ہوگا جن سے نبرد آزما ہونا ہے وہی تو آپ کے غم گسار ہیں اگر آپ نے ان کا کہنا ماننے سے انکار  کیا تو impeachment کے  ذریعے آزاد امیدوران اور ایم کیو ایم اپوزیشن کا ساتھ دے کر ان کا وزیرِ اعظم لے آئے تو آپ ان کا بگاڑ ہی کیا لیں گے؟۔عمران خان کو 116 سیٹیں اس لیے دلوانی پڑیں کہ باقی پارٹیوں کے عمائدین کو ایمپائرز کے آشیر آباد کی باتیں دم توڑ سکیں۔ابھی بھی بس گرین سگنل ملنے کی دیر ہے جیسے ہی کپتان پبھرے اور مرضی کرنا چاہی تو حکومتی منظر نامہ تبدیل کرنے میں ایمپائرز کو زیادہ محنت نہیں کرنی ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی  ضمن میں شہباز شریف کے خلاف کوئی کیس اوپن نہیں کیا جا رہا ہے وہ بھی اپنی دانش کو سامنے رکھتے ہوئے وہی کر رہے ہیں جو انہیں کہا جارہا ہے نہ ہی آئندہ آنے والے دِنوں میں ان کے لئے کوئی سزا کا  مرحلہ آئے گا ہو سکتا ہے جزاء کا ضرور آجائے چاہے تو اسے سیاسی پنڈت نوٹ کرلیں کہ شہباز کے گِرد گھیرا تنگ نہیں ہو رہا نواز شریف کا اب این آر او نہیں بلکہ کچھ مختلف ہونے جا رہا ہے dynamics بدل چکے ہیں پر جو ہوگا وہ مفاہمتی اور مصالحتی ہی ٹھہرے گا۔ پارٹی کے رہنما تک آپ کو مشکل میں ڈالے ہوئے ہیں کے پی میں پرویز خٹک نے ایک عشائیے پہ ارکان کا مدعو کر کے یہ واضح  کیا کہ وزیرِاعلیٰ ان کی مرضی کا ہوگا اور انہوں نے محمود خان کو بنوا کر دکھایا اور آپ کو منہ چڑھایا۔ اسی  طرح پارٹی کے دو بلاک اپنی مرضی کے فیصلوں کا تسلط چاہتے ہیں ان کے آگے بھی پُروقار کپتان بے بس دکھائی دیتا ہے۔پنجاب کی حکومت سازی میں بھی کوئی پیش قدمی دیکھنے میں نہیں  آئی ہے اور خان صاحب اپنے ہی مروجہ اصولوں کو توڑنے اور رہنماوٗں کی باتوں پہ کان دھرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔اب کپتان کے لئے کٹھن حالات ہیں انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ پہلے 100 دن میں اپنے وعدوں کی تکمیل کی تگ و دو کریں یا دوسرے ہیجان کو ہینڈل کریں ایسے صاحبِ منصب ہونے سے   اچھا اپنی تمنا کو سوچنا ہی نہ تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply