ڈرامہ بازوں کو پہچانیں ۔۔عبدالحنان ارشد

یار دوست ن لیگ کے ممبر قومی اسمبلی ریاض حسین پیرزادہ کی قومی اسمبلی کی تقریر کو جوک در جوک شیئر کر رہے ہیں۔ کیونکہ اسمبلی میں انہوں نے فوج کے خلاف بہت سخت باتیں کی ہیں۔ پھر یاد آیا خواجہ آصف صاحب نے بھی ایسے ہی اسمبلی میں آواز کے زیر و بم کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے فوج کو خوب لتاڑا تھا۔ جرنیلوں کو آڑے ہاتھوں لیا تھا۔ ہم نے بھی داد و تحسین کے ڈونگڑے برسائے تھے۔ پھر عقدہ کھلا کہ یہ سارا کچھ تو ایک پلاٹ کا تنازعہ تھا جس نے خواجہ صاحب کو اسمبلی میں اتنی سخت لائن لینے پر مجبور کیا۔ آخر پلاٹ کینٹ روڈ پر واقع تھا جس کو کمرشل نہیں کیا جا رہا تھا۔ کمرشل ہونے پر آپ جانتے ہیں قیمت سو گنا بڑھ جاتی ہے۔ بس یہی غصہ بعد میں خواجہ صاحب نے اسمبلی میں اتار دیا آخر کروڑوں کا معاملہ تھا۔ انسان کروڑوں کی خاطر کچھ دیر کے لیے جمہوری بننے کا مکروہ عمل بھی کرسکتا ہے۔ مکروہ عمل اس لیے اگر خواجہ صاحب جمہوریت پسند ہوتے تو جب ان کی پارٹی اور ان کا لیڈر گلی گلی “ ووٹ کو عزت دو” کا راگ الاپ رہا تھا۔ اس وقت موصوف شہباز شریف صاحب کے ساتھ بیٹھے “ بڑے گھر “ والوں کے ساتھ کابینہ طے کر رہے ہوتےتھے ۔ اور نہ ہی یہ “اُن” کے پیغامات میاں صاحب تک لندن اور لندن سے پیغامات “پنڈی” پہنچا رہے ہوتے تھے۔

جہاں تک بات ہے ان کے والد صاحب کے قتل کی تو بڑے پیر صاحب سپاہِ محمد جیسی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم کو اسلحہ اور امداد فراہم کرنے کے حوالہ سے جانے جاتے تھے۔ مخالفین پر ظلم کے پہاڑ ڈھانا اپنا جاگیرانہ حق سمجھتے تھے۔ ایسے ہی ایک ظلم کے نتیجے میں  بڑے پیر صاحب مخالفین کی طرف سےمارے گئے تھے۔

بات کہاں سے کہاں نکل گئی، واپس ریاض پیرزادہ کی تقریر پر آتے ہیں۔ تقریر بھی کیا تھی محترمہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب “Milletry InC ” سے اٹھائے گئے اقتباسات تھے۔ جو موصوف کو اب چھ بار اسمبلی میں منتخب ہونے کے بعد اور فوجی آمر کے ساتھ کام کرنے کے بعد خیال آیا کہ ملک میں تو سب غلط ہوتا آیا ہے۔ فوج کے اپنے ناجائز کاروبار ہیں۔ جرنیل ملک کو ٹھیک ڈگر پر چلنے نہیں دے رہے۔ ہے ناں مزاح سے بھرپور بات۔ اب ایک اور لطیفہ سنتے جائیں۔ باخبر حلقوں میں خبریں عام ہیں۔ کسی سے بھی کنفرم کیا جا سکتا ہے۔ موصوف ایجنسیوں کے آدمی تصور کیے جاتے ہیں۔ ہر الیکشن سے قبل ایجنسیوں کی ایما پر اپنی سیاسی جماعت بدلنے میں اپنی شہرت رکھتے ہیں۔ ہر الیکشن سے قبل یہ آپ کو ایک نئی جماعت میں نظر آئیں گے۔

موصوف پیپلزپارٹی سے نیشنل الائنس تک پہنچے جو کہ بعد میں 2004ء میں فوجی آمر کی جماعت پاکستان مسلم  لیگ ق میں ضم ہو گئی تھی۔ فوجی آمر کے تحت قائم ہونے والی پارلیمنٹ کے رکن رہے۔ پھر 2008ء میں جس جماعت نے پاکستان کا ستیا ناس پھیر دیا تھا۔ اسی جماعت کے ٹکٹ پر دوبارہ منتخب ہونے کے بعد اپنی جماعت کو قاتل لیگ کہنے والوں کے ساتھ وزیر بھی بنے رہے۔ پھر ادھر سے یہ مرد حق میاں نواز شریف کی جماعت میں ہجرت کر گیا۔ کیونکہ ہمارے نظریاتی تو پھر ایسے ہی ہوتے ہیں۔

دوستوں سے گزارش ہے کسی کو بھی مرد آہنگ اور دھرتی کا بہادر سپوت ثابت کرنے سے پہلے کچھ ریسرچ کرلیا کریں۔ کیونکہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ فوج اور جرنیلوں کو برا بھلا کہنے والا ضروری نہیں واقعی نظریاتی ہی ہو۔ ہو سکتا ہے وہ اپنا حصہ کھا چکا ہو۔ اس کو مزید مال کھانے کی اجازت نہ مل رہی ہو تو وہ طیش میں ایسا کرگیا ہو۔ کیونکہ جس شخص کو آمر کے ساتھ رہتے ہوئے فوج اور جرنیلوں کی ناجائز طاقت اور ناجائز بزنس پر بات کرنے کا خیال کبھی نہ آیا۔ وہ اب بھی نظریاتی نہیں۔
اگر آپ کہیں ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی 2007ء میں آنے والی کتاب کے اقتباسات ہی ان تک اب پہنچے ہیں۔ تو ماتم کرنا ہی بنتا ہے۔ میں تو ایسے شخص کو صرف ڈرامہ باز ہی کہوں گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

کیونکہ نہ ہی ان ڈرامہ بازوں سے خنجر اٹھے گا اور نہ ہی تلوار کیونکہ ہمیں معلوم ہے ان تلوں میں کتنا تیل ہے۔ تو گزارش یہ ہے ہر بہروپیے کو انقلاب پسند نہ بنا دیا کریں۔

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply