یہ سال 1941 ء کی بات ہے جب آسٹریا ریڈپاتھ گلگت میں بطور برٹش اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ تعینات تھے، کو وادی ہاتون میں چٹان کا نوشتہ ملا اور اس نے سر اریل اسٹین کو اس کے بارے میں بتایا جو پہلے ہی دو بار ہاتون جا چکے تھے لیکن اسے نہیں دیکھا تھا۔ اس وقت تک گلگت بلتستان میں پایا جانے والا یہ سب سے بڑا نوشتہ تھا جس میں ریاست بلور کے متعلق ایک اہم دستاویز لکھی گئی ہے جو آج بھی ہاتون کے Rock پر موجود ہے۔ ( اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ )
برٹش انڈیا کے شعبہ ارکیالوجی کے سربراہ چکراورتی نے یہ نوشت مندرجہ ذیل عنوان ”
CHAKRAVARTI، N۔ P۔ 1953 ۔ 54۔ Hatun Rock Inscription of Patoladeva۔ Epigraphia Indica XXX، No۔ 38 : 226 2 ”سے شائع کیا۔
بقول چکراورتی ہاتون شلالیھ میں 19 دسمبر 671 ء صدی عیسوی کو سات سطریں لکھی گئی ہیں جس پر بلور ریاست کے تیسرے حکمران نواسریندردیتیانندی کے نام سے لکھی ہوئی دستاویز موجود ہے۔
اس نوشتہ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اشکومن ندی پر ڈیم بنا کر مکاپورہ نام سے ایک شہر کی بنیاد رکھی تھی۔ مگر چکراورتی کا کہنا ہے کہ وہ مکاپورہ کی شناخت نہیں کر سکتا چونکہ قدیم نام کی جگہ اب کسی اور ایک نام نے لے لی ہے البتہ ہاتون کے شلالیھ میں جس ندی کا حوالہ دیا گیا ہے وہ اشکومن کی ہے۔
یہ شاہی اعلامیہ proto۔ Śāradā زبان میں وادی ہاتون میں واقع ایک چٹان پر کھدی ہوئی ہے اور بنیادی طور پر یہ اعلامیہ ایک آبپاشی نہر کی تعمیر اور ایک چھوٹا شہر مکاپورا کی بنیاد رکھنے کو یادگار بنانے کے لیے تھا۔ اس شلالیھ کا متعلقہ حصہ میں لکھا گیا ہے کہ ”کامیابی! خوشی! سال 47 ء میں، پوسا کے مہینے تک، روشن نصف میں تیرہویں روز، خوشحال حکومت کے تحت، بادشاہوں کا عظیم بادشاہ، سپریم بھگتہ خاندان کے بادشاہ سریندر دیتیہ نندی، لارڑ اف بلور۔
بلور شاہی حکمران کا وائسرائے Makarasimha تھا۔ انہوں نے اپنے بادشاہ کا نام اس چٹان پر کنندہ کروایا اور چٹان پر لکھا لفظ ”سرمغھا“ کا مطلب ہے فوج کا چیف کمانڈر۔
کارل جیٹمار اپنی تصنیف بلور اینڈ درردستان میں لکھتے ہیں کہ وادی ہاتون تجارتی راستوں کے چوراہے پر واقع ہے جہاں سے پامیر، چترال، گلگت اور بلتستان کو راستے جاتے ہیں لہذا ہر ایک کے لیے بلور بادشاہ کے اس اعلامیہ کو دیکھنے کے لیے یہ ایک بہترین جگہ تھی۔
(ڈسڑکٹ غذر تحصیل پونیال وادی ہاتون میں گورنمنٹ سکول کے قریب یہ چٹان آج بھی موجود ہے )
شاید اس خاندان کی معمولی شاخ سے تعلق رکھنے والا شہزادہ ان اسٹریٹجک پہاڑی دروں ( گزر گاہوں ) کے نگہبان کے عہدے پر تعینات تھا اور شاید اس کے پیروکاروں نے کئی صدیوں بعد بھی ان دردوں کو اپنی گرفت میں رکھا ہو۔ لیکن یہ بھی کافی ممکن ہے کہ ریاست بلور کے بانی شمال سے آئے ہوں کیونکہ وہاں بھی ایرانی طاقتور اثر و رسوخ فعال تھا۔
قائم مقام افسر مکارسمھا کو مہاگجا پتی یعنی ہاتھیوں کا مالک بھی کہا۔ وہ گلگتہ، گلگت میں بلور فوجی چھاؤنی کے چیف تھے۔
چھٹی اور ساتویں صدی میں بلور کے حاکم اب بھی عظیم بلور یعنی سکردو نامی مرکز میں ہی مقیم تھے۔
بلور ریاست ساتویں صدی میں ایک بہت بڑی طاقت بن گئی۔ اس شلالیھ سے اس کا پتہ چل جاتا ہے۔ اس کا اشارہ پیرامبٹھارکا مہاراجہ پرمیسوارا کے دور سے ہے جو پٹولادیو شاہی سری نواسریندردیتانندیدیوا سے تعلق رکھتے ہیں۔
بھگد دتہ کا خاندان، اور ان کے وزیر اعلی، ایل ”تکارسمہا، جنہوں نے ’عظیم لارڈ آف لارڈ کے عظیم القابات کا لقب اختیار کیا اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک عظیم خود مختار ریاست کے حکمران تھے
بقول کارل جیٹمار، ہاتون کے نوشتہ سے پتہ چلتا ہے کہ گریٹ بلور ریاست کے تیسرے حکمران بادشاہ نواسریندر دتیا ننددیوا نے سب سے زیادہ اہمیت کا درجہ حاصل کر لیا تھا اور مکمل شاہی لقب اختیار کیا۔ اس نے پورے بلتستان اور گلگت پر حکمرانی کی۔ اس کا لقب پیٹولاڈیو ہے جس کا مطلب ہے پٹوولا کا مالک۔ جو نام ہے وہ چینی عہد نامہ Pou۔ Iu بلور کی بنیاد تشکیل دیتا ہے اور اس دور میں زندہ رہتا ہے جسے بلور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں وادی گلگت میں ان کے وزیر اعلی کی نشست تھی اور وہ اس کے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ تھے۔ اس کے ماتحت مقامی سرداروں اور جاگیرداروں کا ایک نظام موجود تھا جس کا وہ بانی تھا۔
گلگت کے اس حکمران خاندان کا نام ایرانی ناموں سے مماثلت رکھتا ہے کیوں کہ شاہی کا لقب ہندوستانی نہیں ہے فارسی زبان میں شاہ بادشاہ کو کہتے ہیں لہذا پٹوولا شاہی نام بھی غیر ہندوستانی ہے۔ ایرانیوں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کی وجہ سے لہذا ایرانی نژاد سرداریگھا کے عنوان سے آپ حیران نہ ہوں۔
سال 1931 ء میں ایک چرواہے نے گلگت نپورہ میں واقع بدھ کے ایک اسٹوپا کے اندر سرکلر چیمبر میں لکڑی کے خانے میں قدیم کتابیں دریافت کی تھیں۔ گلگت مخطوطے زندہ بچ جانے والی قدم ترین بدھ مت دور کی کتب ہیں۔ ان کتابوں کو عمارت کی منجمد ذیلی حصے میں رکھا گیا تھا جو بھوج (برچ) کے درخت کی چھال پر لکھے گئے تھے۔ اس لیے صدیوں تک زندہ رہے۔ ان نایاب کتب میں بدھ مت کی اہم کتاب ”لوٹس سوترا“ بھی شامل ہے جو قدیم دور کی گلگت لائبریری سے ملنے والی کتب میں شامل ہے۔
ان قدیم ترین مخطوطات کا نام گلگت کے نام پر رکھا گیا ہے جہاں انہیں دریافت کیا گیا تھا۔ ان مخطوطات سے بلور شاہی دور کے بادشاہوں کے متعلق اور ان کے مذہبی رسومات کے متعلق معلومات ملتی ہیں۔ بقول ڈاکٹر آسکر وان ہنبر عرب اور مسلم تاریخ میں اس ریاست کا نام پلولا شاہی سلطنت کے طور پر درج کیا گیا ہے۔
سال 1938 ء میں ریاست کشمیر کی سرکار نے گلگت میں اس جگہ جہاں یہ کتابیں ملی تھیں وہاں کھدائی کروائی جہاں سے باقی بچ جانے والی کتب کے جلدیں ملیں۔ ان کتب کے اندر خوبصورت پینٹگ کی گئی تصاویر بھی شامل ہیں۔
ہیرالڈ ہاپ مین کے مطابق گلگت بلتستان میں پچاس ہزار سے زیادہ چٹانوں کی نقاشی اور چھ ہزار شلالیھ درج کیے گئے ہیں اور مزید تلاش کے ساتھ تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف فریبرگ کے پروفیسر آسکر وان ہنبر
The Saddharmapuˆ∂ar¥kasËtra at Gilgit
Manuscripts, Worshippers, and Artists
میں لکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں پائے جانے والی چھٹی صدی عیسوی کی یہ تصاویر اور نقوش جو Rock Art پر مشتمل ہیں مقامی افراد کے لیے اس لیے دلچسپی کا باعث نہیں بنیں چونکہ ان کو ان کی افادیت کا اندازہ نہیں تھا اور وہ ان نقوش کو صرف پریاں اور جن بھوت سمجھتے رہے اور ایک طویل عرصے تک کسی نے ان پر ہاتھ تک نہیں لگایا۔ اس طرح یہ تصویریں خراب اور تباہ ہونے سے بچ گئیں البتہ گزشتہ چند سالوں میں گلگت بلتستان کے کچھ علاقوں میں واقع ان نایاب نقوش پر کلر پینٹنگ کر کے ان کو سخت نقصان پہنچایا گیا ہے۔
معروف اسکالر کارل جیٹمار کے مطابق، کانسیوں /پیتل پر بدھا کے مجسموں کی نقش کاری سے پتہ چلتا ہے کہ ”بلور شاہی کی فیاضی اور مذہبی جوش کی وجہ سے اس خطے میں موجود انسکرپشنز (inscriptions) اور دیگر سٹوپاز کو تیار گیا اور ان کی تیاری کے لیے چندہ دیا گیا۔
پروفیسر ڈاکٹر آسکر وان ہنبر چینی ماخذوں جیسے
T, ang۔ Annals AD 720
کے حوالے سے بلور ریاست کے 9 حکمرانوں کا ذکر کرتے ہیں جن میں سریندرا دیتیا نان دی ان کا آخری حکمران تھا۔
بلور ریاست کے ان حکمرانوں کے دور میں گلگت بلتستان میں بدھ مت کو بہت فروغ ملا اور شاہی خاندان کے بادشاہوں شہزادیوں اور امرا نے چندہ دے کر پتھروں پر بدھا کی نقش کاری کروائی اور بدھا کے کانسی والے مجسمے تیار کروائے کیونکہ یہ حکمران بدھ مت کے پیروکار تھے۔مرزا حیدر دغلت Dughlat اپنی کتاب Tarikh۔ i۔ Rashidi میں لکھتے ہیں کہ بلور کافروں کا ایک ملک ہے جو بدخشان اور کشمیر کے درمیان واقع ہے۔
ریاست بلور کم از کم فاہن سیئن ( 340 AD) اور ہوئی چوؤ کے ) 770 (AD کے درمیانی دور میں موجود تھی اس ملک کی جیو سٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے چین اور تبت کے درمیان گلگت کی وادیوں میں خونی جنگیں لڑی گئیں، گلگت بلتستان ماضی میں سپر پاورز کے درمیان گریٹ گیم کا مرکز رہا ہے۔ ماضی کے گریٹ بلور کو آج کے زمانے میں بلتستان جبکہ لیٹل بلور کو گلگت کہا جاتا ہے۔
جاری ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں