عورت۔۔ہما

ایرانی شاعرہ شارخ حیدری کی نظم “میں ایک شادی شدہ عورت ہوں” سے متاثر ہوکر لکھی گئی میری ایک نظم

میں ایک عورت ہوں
یہ میری مَہَد ہے
اس سے مجھے میرے والد اٹھارہے ہیں
انہوں نے غم، خوشی، فکر اور
ملے جلے جذبات کے ساتھ
مجھے دیکھا پھر
اپنی نرم گرم بانہوں کے حصار
میں لے کر میری حفاظت کا ذمہ لیا
اور یوں والد کی صورت پہلا محافظ مرد
میری زندگی کا حصہ تھا
میرا بچین شروع ہوچکا تھا
اس کے فیصلے کئے جارہے تھے
میں مسکراہٹیں سمیٹے چل رہی تھی
تو کچھ سفر زندگی بھی آگے بڑھا
میرا چھوٹا بھائی بڑا ہوگیا تھا
بھائی کی صورت اک اور مرد
اب میرا محافظ تھا
جب بھی میں گھر کی دہلیز سے قدم باہر رکھتی
کسی مسلح چوکیدار کی طرح
وہ میرے آگے آگے چلتا
کوئی مجھے گھور کر نہ دیکھ لے
وہ چہار سمت گھورتا رہتا
اس دم مجھے لگتا کہ یہ میرا مان ہے
پھر زندگی کا پہیہ گھوما
اور مجھے اک اور مرد کا ساتھ
جیون ساتھی کی صورت ملا
اب میری زندگی مزید گھیروں میں تھی،
میں حصار در حصار تھی
اور مجھے صرف یہی فکر لاحق تھی
کہ میں اس حصار میں قید رہوں
یوں نہ ہو کہ میں بھول چوک سے بھی
اس حصار سے باہر آؤں
اور راندهء درگاہ ہوجاؤں
دن بدلنے لگے
اک رات میں شدید کرب و اذیت کا شکار تھی
کہ آنکھ کھلنے پر شادیانے میرے کانوں میں پڑے
ہاں اک اور مرد

Advertisements
julia rana solicitors london

اب کہ میرا اپنا بیٹا
میرا سر فخر سے بلند کرنے دنیا میں آچکا تھا
میں اس کو انگلی پکڑ کر
چلنا، بولنا سکھاتی رہی
اور پتہ ہی نہ چلا کب وہ بڑا ہوگیا،
اب وہ تن کر مجھے بتاتا ہے
کہ وہ میرا آخری محافظ ہے
یہ میری لَحَد ہے
اس میں مجھے میرے بیٹے لٹارہے ہیں
میں ایک عورت ہوں ۔۔۔۔

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply