مجھے سٹریس لگتی ہے ( سٹریس ویکسین سیریز )قسط2۔۔عارف انیس

پرانے زمانے میں بادشاہ کو مارنے کا ایک تیر بہدف طریقہ تھا. سازشی باورچی ہر روز کھانے والی پلیٹ میں زہر کی ایک ہلکی سی لکیر لگادیا کرتا تھا. روز زہر کھانے سے آہستہ آہستہ بادشاہ کسی لاعلاج مرض میں مبتلا ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتا اور کسی کو شک بھی نہ گزرتا کہ یہ غیر طبعی موت ہے.

آج کل کے دور میں یہی کام سٹریس کا ہے. ہر روز ایک ہلکی سی لکیر جو دھیمی آنچ ہر زندگی کا گلا دباتی رہتی ہے.

بہت سے لوگوں نے یہ مشق دیکھی ہوگی. نہیں دیکھی تو آزمائش شرط ہے. خاص طور پر جو لوگ اپنے آپ کو سورما سمجھتے ہیں. ہاتھ میں ہلکا سا قلم پکڑیں اور اسے سیدھا اکڑا کر کھڑے ہوجائیں. آپ کے خیال میں آپ کب تک قلم پکڑ سکیں گے؟ جی نہیں، ایک دو گھنٹے نہیں، پانچ منٹ میں آپ کا ہاتھ کپکپانے لگے گا اور دنیا بھر کے درد آپ کی بانہوں میں سمٹ آئیں گے. تصور کیجئے اس بوجھ کا جو آپ اپنے اعصاب پر لاد دیتے ہیں اور پھر برسوں لادے رکھتے ہیں، پھر اعصاب تڑخنے کا شکوہ کیسے کیا جاسکتا ہے؟

سب سے پہلے تو ہم نے یہ سیکھا کہ بھوک لگ سکتی ہے، گرمی لگ سکتی ہے، سردی لگ سکتی ہے، نزلہ زکام لگ سکتا ہے، مگر سٹریس، تناؤ یا غم خود بخود نہیں لگ سکتا. اگرچہ بہت سے لوگ غموں کی گٹھڑی ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ اٹھک بیٹھک کے بھی اثرات ہوتے ہیں.

ایک اور غلط فہمی کا تدارک بھی ضروری ہے کہ سٹریس ساری برائیوں کی جڑ ہے. یہ ذہن میں رکھیں کہ غاروں کے دور سے موجود دور کے سفر میں سٹریس کا اچھا بھلا ہاتھ ہے. یہ سٹریس ہی ہے جو صبح صبح ہماری نیند کے سر میں جوتا مار کر ہمیں بستر سے اٹھاتی ہے اور دن بھر کی ذمہ داریوں کے لیے تیار کرتی ہے. یہ خیال کہ اس مہینے بجلی کا بل دینا ہے، کار میں پٹرول ڈالنا ہے، گھر کا کرایہ ادا کرنا ہے، بچوں کی فیسیں دینی ہیں، ہمیں حوصلہ اور توانائی بخشتے ہیں. مستقبل کی تیاری، بہتر سے بہترین کی جستجو، خواب اور امنگیں ان سب چیزوں کی اپنی اہمیت ہے. بالکل ٹھنڈ رکھنے والے لوگ زیادہ تر اپنے مقاصد پورے کرنے میں ناکام رہ جاتے ہیں.

تو سٹریس کا ایک تو مثبت کردار ہے جو غاروں کے دور سے ہمیں بہترین کی تلاش میں دوڑاتا رہا ہے، اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے پر اکساتا ہے اور ہمیں بیدار رکھتا ہے. اگر آپ جنگل میں سفر کر رہے ہیں اور اپنے گردوپیش سے بے خبر ہیں تو یہ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے. یہ سٹریس ہے جس کی وجہ سے ہمیں زیادہ سنائی اور دکھائی دیتا ہے.

یوں سمجھ لیں کہ سٹریس ایک ایسی آگ ہے جس کی دھیمی آنچ پر زندگی کا برتن پکتا رہتا ہے اور برتن کی پائیداری اور خوبصورتی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے. تاہم اگر یہ آگ ضرورت سے تیز ہوجائے تو برتن تڑخ جائے گا. یعنی سٹریس وہ دوائی ہے، جس کی خاص مقدار بہت ضروری ہے.

سٹریس میں ایک تو بائیالوجیکل رسپانس ہوتا ہے جو کہ ہمارے ڈی این اے کی چپ میں شامل ہے. ہمارا دماغ اور نروس سسٹم ہمیں چست، ہوشیار اور چوکنا رکھنا چاہتا ہے تو ہمارے جسم میں ایڈرینالین اور کارٹی سول کے مادے انڈیل دیتا ہے جو ایک دم جسم کو اگلے گئیر میں لے جاتے ہیں. یہ بہت کارآمد ہے اگر آپ کے پیچھے کوئی بھیڑیا، یا چیتا یا چلیں خونخوار کتا لگا ہوا ہے، اس صورت میں یہ آپ کی زندگی بچا سکتا ہے. تاہم اگر کرسی ہر بیٹھ کر، یا بستر پر لیٹ کر آپ اس کیفیت میں مبتلا ہیں اور سٹریس کے نظام کو چھیڑ بیٹھے ہیں تو پھر آپ کو پسینے چھوٹ رہے ہیں، دل چھوٹا ہورہا ہے، جسم میں سوئیاں چبھ رہی ہیں اور نیند کوسوں دور بھاگ گئی ہے، اب سٹریس زہر کی لکیر کاکام کررہی ہے.

سٹریس کے معاملات کو نفسیاتی حوالے سے سمجھنا چاہیں تو اس میں تین سٹیپس یا معاملات شامل ہیں. سب سے پہلے تو کوئی واقعہ ہے. یہ کوئی بھی واقعی کہیں بھی ہوسکتا ہے. مثال کے طور جنرل عاصم باجوہ نے استعفیٰ دیا جو لیا نہیں گیا. مولانا خادم رضوی بے ایک اور سڑک یا چوک بلاک کردیا. وزیراعظم عمران خان نے پھر گھبرانا نہیں ہے کی تقریر جھاڑ دی. سابق وزیر اعظم نواز شریف کی لندن میں جاگنگ کرتے ہوئے تصویر سامنے آگئی. تین اور عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا. اسی طرح کچھ اور واقعات جیسے آپ کے کولیگ کی لاٹری نکل آئی، یا آپ کے کزن نے نیا گھر بنا لیا، یا پروموشن میٹنگ میں آپ کو نظر انداز کر دیا گیا، یا پھر بارش آئی اور آپ کے گھر میں تین فٹ پانی داخل ہوگیا. واقعہ کچھ بھی ہوسکتا ہے.

واقعہ کچھ بھی ہو، واقعے سے زیادہ اس کی انٹرپریٹیشن، یعنی”واقعی ہوا کیا ہے؟” آپ پر اثر اندازہ ہوتی ہے. دیکھنا گیا ہے کہ واقعے سے زیادہ اس کا مطلب اور اس کا ہمارے جذبات پر اثرات، ہماری سٹریس کا تعین کرتا ہے. مثال کے طور پر اربوں افراد ایسے ہوسکتے ہیں جن پر تینوں عرب ممالک کا اسرائیل کو تسلیم کرنا کوئی معنی نہ رکھتے ہوں، مگر آپ کے لیے یہ زندگی موت کا مسئلہ بن جائے. آپ اسی وقت احتجاج کرنے کے لیے گھر سے نکل جائیں. یا آپ کے کزن نے گھر بنایا اور آپ کی رشک یا حسد سے جان نکل جائے اور آپ کو اپنی زندگی کی ساری محرومیاں ایک ایک کرکے یاد آنے لگیں اور ایک جھڑی سی بندھ جائے.

اب واقعے کا مطلب ہماری ہارڈ ڈرائیو سے نکلتا ہے. اس سے مراد ہماری آج تک کی سمجھ بوجھ، ہماری زندگی کی فلاسفی، ہماری عادتیں، اپنے ماضی کے تجربات، پڑھی ہوئی کتابیں، سنی ہوئی کہانیاں، دیکھی ہوئی فلمیں، بچپن کی خوش گوار یا ناگوار یادیں، یہ سب فلٹرز ہیں. جب واقعہ ان فلٹرز سے گھوم پھر کر نکلتا ہے تو وہ لال، نیلا، گلابی، یا کالا، کوئی سا رنگ اختیار کر چکا ہوتا ہے. تبھی ہم ایک ہی واقعے کے بارے میں تاثرات پتا کرتے ہیں تو وہ رنگا رنگ ہوتے ہیں اور ہم یہی دیکھ کر ہکا بکا رہ جاتے ہیں کہ یہ سیاہ، سفید یا گلابی کیسے دکھ رہا ہے، حالانکہ یہ اپنی اپنی عینک اور اس کے فلٹرز کا کمال ہے. یاد رکھیں کہ ہارڈ ڈرائیو کے اندر سے وہی نکلے گا جو اس کے اندر جاچکا ہے.

اب آخری مرحلہ، جو بھی واقعہ پیش آچکا ہے اس پر اپنی ججمنٹ دینا ہے. یعنی جو ہوا ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟؟ مثال کے طور یہ سوچنا کہ ہم پاکستانی کبھی سیدھے نہیں ہوسکتے، اس ملک میں زوورآور اپنی مرضی کا انصاف لیتے رہیں گے، یا یہ کہ یہاں زور یا پیسے کو سلام یے تو بس زور یا پیسہ ہی جمع کیا جائے یا یہ کہ ایڑیاں رگڑی جائیں تو زمزم یہیں سے نکلے گا، اور ہمارا مستقبل تابناک ہے، وغیرہ وغیرہ. یہ ججمنٹ آئی تو ہارڈ ڈرائیو سے ہے مگر یہ زیادہ تر ہمارا سیکھا ہوا طرز عمل ہوتا ہے جو ہماری پرانی عادتوں یا ایمانی نظام یعنی بیلیف سسٹم سے نکلتا ہے. مثال کے طور پر سمجھنا کہ یہ واقعہ اللہ کا عذاب ہے، یا آزمائش ہے یا ہماری بہتری کے لئے ہوا ہے وغیرہ وغیرہ.

Advertisements
julia rana solicitors

اس ساری داستان میں اصل کہانی یہ جاننا اور جانچنا ہے کہ واقعہ جو بھی ہو، سوچ پر، فلٹرز پر یا حتمی ججمنٹ پر آپ کا اختیار ہے. چونکہ ہمارے زندگی میں یہ سب سرعت اعمال کا کھیل ہے، ادھر کچھ ہوا اور ادھر ہم نے “سٹریس کی کڑکی” یعنی ایک خاص روٹ پر چلتے ہوئے ایک رائے بنا لی اور یہ سب آناً فاناً ہوا. ایسے لگا جیسے خودکار طریقے سے ہوگیا ہے. لیکن مزے کی بات یہی ہے کہ خودکار کچھ نہیں ہوا، کسی بھی واقعے کے ہونے، اس کے ہارڈ ڈرائیو میں پہنچنے اور اس پر اپنی ججمنٹ دینے سے پہلے اس” کڑکی”کے اندر ایک ایسی جگہ ہے، جہاں پر بازی آپ کے ہاتھ میں آتی ہے اور وہ بازی آپ پلٹ بھی سکتے/سکتی ہیں.
جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply