خون کا انصاف یہ ہوا۔۔مظہر اقبال کھوکھر

ٹریفک سارجنٹ عطاء اللہ‎ کو گاڑی کے نیچے کچل کر شہید کرنے والے پشتونخوا میپ سے تعلق رکھنے والے سابق ایم پی اے مجید خان اچکزئی کی ثبوت نہ ملنے پر عدالت سے باعزت بریت کی خبر سن کر میں حیران تو نہیں ہوا مگر پریشان ضرور ہوا ہوں۔ حیران اس لیے نہیں ہوا کہ بدقسمتی سے وطن عزیز میں قانون ہمیشہ طاقتور لوگوں کی لونڈی بن کر رہا ہے طاقتور لوگوں نے جب چاہا آئین اور قانون کو پامال کیا جب چاہا اس کی دھجیاں اڑا دیں اور جب ان کا دل چاہا چوکوں چوراہوں پر آئین اور قانون کو برہنہ ناچ نچوایا۔۔
آئین ، قانون ، عدل اور انصاف جیسے معتبر اور بارعب لفظوں کی حقیقت اس وقت کھل کر سامنے آتی ہے جب کوئی طاقتور ان کے سامنے ہو کسی بااثر کے ساتھ ان کا پالا پڑے تو اس وقت معلوم پڑتا ہے کہ کیا واقعی ان لفظوں کی کوئی اہمیت اور حقیقت ہے یا پھر یہ لفظ ، لفظ ہونے کی حیثیت بھی کھو بیٹھے ہیں ورنہ جب تک یہ لفظ کمزور ، نحیف اور بے بس لوگوں کے سامنے ہوتے ہیں تو کسی جلاد کی صورت دکھائی دیتے ہیں ان کی آنکھوں سے خون اور چہرے سے وحشت ٹپک رہی ہوتی ہے۔ کسی کمزور کی گاۓ کسی طاقتور کے باغ میں گھس جاۓ تو قانون فورًا حرکت میں آجاتا ہے اور پورے خاندان کو عورتوں سمیت حوالات میں بند کر دیتا ہے۔ کوئی غریب فٹ پاتھ پر ٹھیلا لگا لے تو قانون اسی وقت حرکت میں آجاتا ہے پانچ کلو آٹا چوری کرنے ، کسی کی جیب کاٹنے والے کے خلاف بھی قانون حرکت میں آجاتا ہے الغرض غریب اور کمزور کی معمولی سی حرکت پر قانون کچھ اس طرح حرکت میں آتا ہے کہ اس کی حرکت قلب تک بند ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی طاقتور ، بااثر ، بااختیار ، دولت مند ، جاگیردار ، وڈیرہ ، سیاست دان ، جرنیل ، اشرافیہ اور بااثر مافیا سے تعلق رکھنے والا قانون کے سامنے آجاۓ تو پورا نظام مفلوج ہو جاتا ہے قانون سہم جاتا ہے آئین کتابوں میں دبک جاتا ہے اور انصاف کا پلڑا طاقت کی طرف جھک جاتا ہے۔۔
سنتے تھے کہ قانون اندھا ہوتا ہے وہ کسی میں تمیز اور تفریق نہیں کرتا سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانكتا ہے مگر 21ویں صدی میں یہاں تک تو سچ ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے مگر اس سے آگے اس کے پیمانے تبدیل ہوجاتے ہیں اب وہ طاقتور اور کمزور کو اچھی طرح دیکھ لیتا ہے غریب اور امیر کی اچھی طرح پرکھ کر لیتا ہے اب وہ بے اثر اور بااثر کے اثر کو اچھی طرح محسوس کر لیتا ہے اب وه امتیاز بھی کرتا ہے فرق بھی دیکھتا ہے دونوں کی حیثیت کو بھی بخوبی سمجھتا ہے جس کے بعد ہمارا قانون طاقتور کو چھوتا ہی نہیں اور کمزور کو چھوڑتا ہی نہیں۔
ماڈل ٹاؤن میں دیکھ لیں دن دیہاڑے درجنوں میڈیا کیمروں کے سامنے 14 معصوم لوگوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا گیا مگر قانون آج بھی خاموش ہے عدل بے بس ہے اور انصاف ایک خواب ہے لواحقین آج بھی دھکے کھا رہے ہیں۔ سانحہ ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو قتل کر دیا گیا ویڈیو سامنے ہے ٹی وی سکرینوں پر سب نے دیکھا مگر قانون کو کچھ دکھائی نہیں دیا کیونکہ وہ سب جانتا ہے کہ کس کو دیکھنا ہے کس کو نہیں دیکھنا۔ ٹھیک ہی تو کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتا ہے جون 2017 میں کوئٹہ کے زرغون روڈ پر واقع جی پی او چوک پر سارجنٹ عطاء اللہ‎ جب اپنی ڈیوٹی دیتے ہوۓ ٹریفک کنٹرول کر رہا تھا تو پیچھے سے آنے والی ایک سفید رنگ کی لینڈ کروزر نے اسے ٹکر مار کر کچل دیا جس کی سی سی ٹی وی ویڈیو آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے جس میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ کون اس وقت گاڑی چلا رہا تھا مگر کوئٹہ کی ماڈل عدالت نے ایک ماڈل فیصلہ دیتے ہوئے ناکافی ثبوتوں کی بنیاد پر مجید اچکزئی کو بری کر دیا جس ویڈیو کو پوری دنیا دیکھ رہی ہے وہ ویڈیو ہمارے قانون کو نظر نہیں آتی کیونکہ قانون اندھا ہوتا ہے یہ ٹھیک ہے عدالتیں ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلے دیتی ہیں مگر اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہوسکتا ہے مگر ثبوت فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری تھی کیونکہ سارجنٹ عطاءاللہ ریاست کا شہری تو تھا ہی مگر اس سے بڑھ کر وہ ریاست کا ملازم بھی تھی اور ریاست نے ہی اس کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچنا تھا اور مقتول کے لواحقین اور معصوم بچوں کو انصاف دلوانا تھا مگر جو ریاست اپنے ملازم کا تحفظ نہ کر سکے اپنے ملازم کو انصاف دلانے کے معاملے میں بے حس ہوجاۓ وہ عام شہریوں کی جان و مال کا کیا تحفظ کرے گی وہ انہیں کیا انصاف دلائے گی یقیناً وزیر اعلی پنجاب کے شہر تونسہ سے تعلق رکھنے والے سارجنٹ کو انصاف کا نہ ملنا ہمارے آئین قانون عدل اور نظام انصاف کے منہ پر بہت بڑا طمانچہ ہے اور وزیر اعظم ، وزیر اعلی بلوچستان وزیر اعلی پنجاب کی خاموشی اور ریاستی اداروں کی بے حسی پر بہت بڑا سوالیہ نشان بھی ہے۔۔
اس بات نے تو مجھے پریشان کیا ہے سابقہ ادوار تو برے تھے حکمران بھی اچھے نہیں تھے قانون اور انصاف بھی نہیں تھا مگر آج تو انصاف کی علمبردار تحریک انصاف کی حکومت ہے سنا ہے نیا پاکستان بن چکا ہے جو اب ریاست مدینہ کی طرف گامزن ہے مگر اس کے باوجود ریاست اپنے غریب ملازم کو انصاف نہیں دلا سکی یقیناً یہ بات شرم سے ڈوب مرنے کے لیے کافی ہے کہ خون کا انصاف یہ ہوا ۔۔۔۔ کہ انصاف کا خون ہوگیا۔۔

Facebook Comments

مظہر اقبال کھوکھر
لکھنے کے لیے جیتا ہوں اور جینے کے لیے لکھتا ہوں ۔۔۔! مظاہر قلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply