کراچی اور انتخابات /محمد فیصل

ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پیدا ہونے والے شکوک و شبہات ختم ہوتے جارہے ہیں اور غالب امکان یہی ہے کہ 8 فروری کو کروڑوں افراد اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ یہ انتخابات مختلف وجوہات کی بنا پر ماضی سے بہت مختلف نظر آتے ہیں۔ ہم یہاں صرف کراچی کی بات کریں گے کیونکہ آئندہ جو بھی سیاسی جماعت حکومت بنائے گی اس کے لیے اسے کراچی سے کامیاب ہونے والوں کی مدد ضرور درکار ہوگی۔

کراچی کے سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو آپ پر یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ اس شہر کے ووٹرز کا ایک مخصوص مزاج ہے اور یہاں اکثریت رکھنے والی مہاجر کمیونٹی ووٹ ڈالتے ہوئے اہل زبان کو اہمیت دیتی ہے۔۔ کہا جاتا ہے کہ کراچی کبھی جماعت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان کا شہر تھا اور کراچی کے شہری ان دونوں مذہبی جماعتوں کو ووٹ دیتے تھے۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ ان دونوں جماعتوں کو ووٹ مذہبی جماعتیں ہونے کی حیثیت سے نہیں ملتا تھا بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان جماعتوں کی قیادت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور مولانا شاہ احمد نورانی جیسی شخصیات کررہی تھیں جن کا تعلق اردو بولنے والی مہاجر کمیونٹی سے تھا اور کراچی کے شہری اسی وجہ سے پیپلزپارٹی پر ان دونوں جماعتوں کو فوقیت دیتے تھے۔

ایم کیو ایم کے قیام کے بعد عدم تخفظ کا شکار مہاجر کمیونٹی نے اس جماعت پر اعتبار کرنا شروع کیا کیونکہ یہ صرف ان کی بات کرتی تھی اور یہ کراچی کے گلی محلوں کی جماعت بن کر سامنے آئی تھی۔ کراچی سے ایم کیو ایم کی بھرپور کامیابیاں میری اس بات کی دلیل ہیں کہ کراچی کا ووٹر جماعت اسلامی اور جمعیت علما پاکستان کو ووٹ نہیں دیتا تھا بلکہ یہ ووٹ مولانا مودودی اور مولانا شاہ احمد نورانی کو مہاجر ہونے کی حیثیت سے ملتا تھا اور بعد جب مہاجروں کی اپنی ایک جماعت سامنے آگئی تو یہ ووٹر اس کی طرف منتقل ہوگیا۔

2002 کے عام انتخابات میں 9/11 اور افغانستان پر امریکی حملے کی وجہ کراچی سے مذہبی جماعتوں نے ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے کچھ کامیابیاں ضرور حاصل کی تھیں لیکن شہر کی بڑی جماعت ایم کیو ایم ہی رہی تھی۔ صرف 2018 کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ کراچی میں زبان کی بنیاد پر ووٹ نہیں ڈالےگئے تھے اور یہاں سے تحریک انصاف نے حیرت انگیز کامیابی حاصل کی تھی۔ پی ٹی آئی کی اس کامیابی کے مختلف عوامل تھے۔ سب سے بڑی وجہ ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ تھی۔ پارٹی اپنے قائد سے اعلان لاتعلقی کرنے کے بعد مختلف گروپس تقسیم ہوگئی تھی جس کی وجہ سے کراچی کے ووٹرز کے پاس پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا تھا اور روایتی طور پر مہاجر ووٹر کبھی بھی پیپلزپارٹی کا حامی نہیں رہا ہے اس لیے پی پی پی 2018 میں ایم کیو ایم کے کمزور ہونے کے باوجود شہر سے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکی تھی بلکہ اس کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لیاری سے اپنی نشست بھی نہیں بچاسکے تھے۔

ہم اگر 2024 کے انتخابات کی بات کریں تو اب صورتحال 2018 سے بہت مختلف ہے۔ اس وقت کی سب سے بڑی جماعت پی ٹی آئی اپنی بقا کی جنگ لڑرہی ہے۔ وہ بلے کے انتخابی نشان سے بھی محروم ہوچکی ہے اس لیے انتخابات میں کراچی سے اس کے حمایت یافتہ امیدواروں کی کامیابی مشکل نظر آرہی ہے۔ ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کی وجہ سے کراچی میں اپنا میئر منتخب کرانے والی پیپلزپارٹی اس مرتبہ پر امید ہے کہ وہ شہر سے قومی اسمبلی کی 10 سے 12 نشستوں پر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی لیکن زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو من پسند حلقہ بندیوں کے باوجود پیپلز پارٹی 5 سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرتے ہوئے نظر نہیں آرہی ہے۔

پی ٹی آئی کی عدم موجودی کا فائدہ ایم کیو ایم کو پہنچے گا۔ خالد مقبول صدیقی، مصطفیٰ کمال اور فاروق ستار اب ایک ہوچکے ہیں لیکن یہ بات مدنظر رکھنی ہوگی کہ ایم کیو ایم 90 کی دہائی کی طرح طاقتور نہیں رہی ہے۔ ایم کیو ایم کو اصل چیلنج پیپلزپارٹی یا پی ٹی آئی سے نہیں بلکہ جماعت اسلامی سے درپیش ہے جس نے اس کی عدم موجودی میں بلدیاتی انتخابات میں بھاری تعداد میں نشستیں حاصل کی تھیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جماعت اسلامی بھی کراچی کے ووٹرز کا مزاج سمجھتے ہوئے اب اپنی مرکزی قیادت کی بجائے حافظ نعیم الرحمن کی تصاویر کے ساتھ الیکشن لڑرہی ہے اور حافظ صاحب کو ایک ایسے لیڈر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے جو یہاں کا مقامی ہے اور مہاجر قومی کمیونٹی سے تعلق رکھتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کراچی میں اس مرتبہ ووٹ زبان کی بنیاد پر پڑیں گے اور اس حوالے سے ایم کیو ایم کو فیورٹ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جماعت اسلامی بھی سرپرائز دے سکتی ہے۔ اگر منصفانہ اور شفاف انداز میں الیکشن ہوتا ہے تو پیپلزپارٹی کراچی کی انتخابی ریس میں بہت پیچھے رہ جائے گی اور ایم کیو ایم اپنی 2013 کی پوزیشن واپس لے سکتی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply