بچے محفوظ مستقبل محفوظ۔۔عمران علی

انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے ارد گر بسنے والے لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار کیے بغیر رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا، اسی لیے معاشرے وجود میں آئے، جہاں لوگ ایک ساتھ نہ صرف قیام پذیر ہوتے ہیں بلکہ انکی روزمرہ زندگی کے معمولات اور معاملات دونوں ہی ایک دوسرے جڑے ہوتے ہیں، یہ معاشرتی زندگی کا حسن ہے کہ اس میں موجود ہر ایک فرد اپنی ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور اسی کے پیشِ نظر وہ اپنا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے

کہا جاتا ہے کہ انسان کا سب سے بڑا اثاثہ اس کی اولاد ہوتی ہے اور یہ بات واقعتاً سچ بھی ہے کہ، انسان اپنے آپ پر ہر دکھ تکلیف سہہ لیتا ہے مگر اپنی اولاد کے لیے وہ بہت حساس واقع ہوا ہے، بچے تو پروردگار عالم کا حسین ترین تحفہ ہیں، یہ ہمارا مستقبل ہیں، زندگی کی تمام تر حسن اور رعنائیاں انہی کے دم سے ہیں، لیکن پچھلے کئی برسوں سے جس طرح سے پاکستان میں ان معصوموں کے حقوق کی بدترین پامالی کی جا رہی ہے وہ نہایت خوفناک ہے، تعلیم، صحت، خوراک کے بنیادی حقوق تو پہلے ہی بمشکل میسر تھے

مگر ان سب سے زیادہ ہولناک صورتحال تشدد کی تمام تر اقسام میں اضافے کے ساتھ ساتھ بد ترین جنسی تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان ہمیں نہ جانےکس طرف کو دھکیلے جارہاہے، دنیا میں ذمہ دار اقوام پرہیز/احتیاط علاج سے بہتر ہے کے اصول عمل پیرا ہوکر تمام حفاظتی انتظامات اس لیے کر لیتے ہیں تاکہ کسی بڑے حادثے سے اپنے بچوں اور قوم کو پیشگی محفوظ کیا جاسکے مگر جہاں ہم اقوام عالم میں دیگر ترقیاتی معاملات میں بے تحاشا پیچھے ہیں وہاں ہم اپنے بچوں، اپنے پھولوں کو محفوظ رکھنے میں تو شاید پتھر کے زمانے میں موجود ہیں ،16 دسمبر 2014 آرمی پبلک سکول پشاور میں جب انسانیت کے دشمنوں نے حملہ کرکے پوری قوم کے سینوں کو چھلنی کیا اور سینکڑوں پھولوں کو انکی ماؤں کی آغوش سے جدا کردیا تب جاکر سکولوں کی حفاظت کے پیش نظر جنگی بنیادوں پر ارباب اختیار کو اقدامات اٹھانے کا ہوش آیا، تب پورے ملک میں سکولوں کی حفاظت کے بنیادی اصولوں کو وضع کرکے سکولوں میں گارڈ تعینات کیے گئے، چاردیواریاں اونچی کی گئیں، کاش کے ایسے اقدامات آرمی پبلک سکول جیسے تکلیف دہ واقع کے رونما ہونے سے پہلے ہی کر لیے جاتے، ان ننھے شہداء نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کر کے قوم کو جھنجھوڑ دیا، بات یہاں رکتی نہیں ابھی ان فرشتوں کا غم قوم کے دل میں ہرا ہی تھا کہ اس قوم کے دل پر ایک اور بڑا اور گہرا گھاؤ قصور کی 6 سالہ معصوم زینب کی عزت کو پامال کرکے اس کو قتل کر کے کیا گیا اس کے جنسی جنون میں مبتلا قاتل کو پکڑا بھی گیا اسے سزا بھی ہوئی مگر اسے نشان عبرت نہ بنایا گیا، یہ وہ جنونی جنسی درندہ تھا کے جس کی حوس کا نشانہ قصور میں بہت سے معصوم بچے اور بچیاں بنیں۔

یہ تو ایک زینب تھی کہ جس کا کیس منظر عام پر آگیا نہ جانے ایسے کتنے ہزاروں معصوم بچے اور بچیاں ہونگے کہ جن کے ساتھ اس قسم کے معاملات ہوئے مگر، خاندان، برادری اور علاقے کی نام نہاد عزت کو وجہ بنا کر ان معاملات کو دفن کردیا گیا، کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی کہ جس میں ایک الیکٹریشن استاد اپنے معصوم شاگرد(چھوٹے) پر بہیمانہ تشدد کر رہا تھا اس کم بخت کا دل نہیں دہلا، ہمارے سرکاری سکولوں میں زیرِ تعلیم بچوں کو اس جدید دور میں اساتذہ کے تشدد اور گالم گلوچ کا سامنا ہے، بہت سے سرکاری اور حتیٰ کہ پرائیویٹ سکولوں میں پینے کا صاف پانی اور ٹوائلٹ جیسی بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کا سامنا ہے، سکولوں کی پک اینڈ ڈراپ کی ڈیوٹی پر معمور رکشوں پر 20، 20 بچے لدے ہوئے ہوتے ہیں جن کے بیسویں حادثات رونماء ہوچکے ہیں مگر ہم بے فکر ہیں۔۔۔

ذرا نظر دوڑائیں اپنے ارد گرد اور سوچیں کہ کیا ہم اپنے بچوں کی بابت کتنا ذمہ دار معاشرہ ہیں، کیا ہمارے بچے محفوظ ہیں جواب نفی میں ہی ملے گا، اب وقت آ چکا ہے کہ ہم اپنے بچوں کی حفاظت کو لے کر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اپنے بچوں کو پورا وقت دیں ان کو کسی بھی رشتے سے بلاوجہ پُر تکلیف ہونے سے روکیں، اپنے بچوں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر بھی کڑی نظر رکھیں، والدین کے بچوں کی بھرپور حفاظت کے حکومت وقت اور ارباب اختیار بالعموم مکمل ذمہ دار ہیں، حکومت نے بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی پر مؤثر قانون سازی تو کر رکھی ہے مگر اس پر من وعن عملدرآمد نہایت ضروری ہے، اب تو عوام الناس کا یہ پر زور مطالبہ ہے کہ بچوں پر جنسی زیادتی اور تشدد کرنے والوں سرعام پھانسیاں دی جائیں انکو رہتی دنیا تک نشان عبرت بنایا جائے، بچوں پر تشدد کو قطعی طور پر ناقابلِ ضمانت جرم قرار دیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدارا ارض پاک کو اپنے بچوں کے لیے مل کر محفوظ بنائیں، اگر ہم ان کو محفوظ بنانے میں کامیاب نہ ہو پائے تو یقین جانیے ہم آنے والے وقت میں ان کا سامنا کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے، ہمیں اپنے بچوں کو مل جل کر بحیثیت ذمہ دار شہری و معاشرہ ایک محفوظ مستقبل کی فراہمی کے لیے ہر سطح پر اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، کیونکہ “بچے محفوظ تو مستقبل محفوظ”۔

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بچے محفوظ مستقبل محفوظ۔۔عمران علی

Leave a Reply