میری یہ تحریر بھی گزشتہ مضمون سے پیوستہ ہے جس میں راقم نے طیب اردگان کی کامیابی میں قوم پرستانہ ، عظمتِ رفتہ کے جذبے کے کو ایک اہم فیکٹر قرار دیا تھا یہ مضمون بھی اسی سلسلے کی دوسری کڑی سمجھ لیجئیے۔
عالمی معاملات میں دلچسپی رکھنے والے احباب کے علم میں ہوگا کہ الیکشن سے پہلے اردگان نے امریکہ کو دبنگ انداز میں خبردار کیا تھا کہ اگر “امریکہ نے شام میں ترک افواج کے خلاف کسی کاروائی میں حصہ لیا تو انہیں “عُثمانی تھپڑ” کا سامنا کرنا پڑے گا”۔ یہ عُثمانی تھپڑ کیا ہے؟
تُرکی سلطان مراد چہارم نے 1634 میں اپنے نامزد کردہ وزیرِاعظم پر حملہ کرنے والے دو محافظین کو تھپڑ رسید کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا اس تھپڑ کو تاریخ میں”عثمانی تھپڑ ” سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ یہ تھپڑ ایسی تکنیک سے استعمال کیا جاتا ہے کہ مدِمقابل کے سر کی ہڈی چٹخ جاتی ہے اور وہ موقعے پہ ہی دم توڑ جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ تھپڑ اگر کسی گھوڑے کو بھی رسید کردیا جائے تو وہ بھی زندہ نہ رہ پائے۔ اردگان کے عثمانی تھپڑ کی بازگشت امریکہ کے ایوانوں تک سنائی دی گئی اور دو دن بعد ہی امریکی وزیر خارجہ انقرہ پہنچے ترک صدر اور وزیر خارجہ سے تین گھنٹے مذاکرات ہوئے مگر کوئی نتیجہ برامد نہ ہوا۔
ترک صدر اردگان اس سے پہلے بھی بارہا خلافت عثمانیہ کا حوالہ دیتے رہے ہیں اور ترک قوم کی تاریخ پہ بجا طور پہ فخر کا اظہار کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی سیاست کی بنیاد ہی خلافت عثمانیہ کے احیاء اور ترک قوم پرستی پہ رکھی۔ سیاسی سفر کے آغاز میں ہی انہوں نے سیکولر نظام حکومت سے وابستہ اپنے ملک ترکی کی ایک تقریب میں اسلامی نظام حکومت و خلافت کی خوبیوں پہ مشتمل نظم پڑھی جسکی وجہ سے اردگان کو چار ماہ جیل میں گزارنے پڑے۔۔
اقتدار میں آنے کے بعد اردگان مسلسل امریکہ کو زِچ کر رہے اور امریکی اثر و نفوذ سے آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دینے کے لئیے اقدامات کر رہے ہیں ۔ 2004 میں پانچ نکاتی اصلاحاتی پیکج متعارف کرایا گیا جس میں ترکی کو یورپی یونین کے قریب لانے ، سیاست میں فوج کے اثر و رسوخ کو کم کرنے ، ترک قوم کی سماجی ،ثقافتی اور سیاسی حقوق کے تحفظ جیسے اقدامات کئیے گئے مگر اب ترکی یورپی یونین میں شرکت کا خواہشمند نہیں بلکہ خود کو اسلامی دنیا کے قریب لا کر امت مسلمہ کی قیادت کی طرف بڑھ رہا ہے۔
اردگان کی زیرِ قیادت ترکی میں پچھلے دس سالوں میں خارجہ پالیسی میں نمایاں تبدیلیاں ہوئیں اور قوم پرستانہ پالیسیاں اپنائی گئیں ۔ مشرق وسطی میں امریکہ اور نیٹو کے اقدامات پہ بھی سخت اختلاف کیا گیا، بعین شام کی صورتحال ترکی اور امریکہ اور نیٹو کے درمیان اختلافات کا باعث بنی اور ترکی نے شام میں امریکہ کے حمایت یافتہ کرد جنگجووں کے خلاف سخت کاروائی کی ۔ اس اقدام سے بھی امریکہ و یورپ ترکی سے سخت بروفراختہ ہیں۔
صدر اردگان کی ان جارحانہ پالیسیوں کو امریکہ اورمغربی ممالک سلطنت عثمانیہ کے احیاء کی کوششوں سے تعبیر کرتے ہیں اور مشرقِ وسطی میں ترکی کے بڑھتے ہوئے کردار پہ عرب ممالک بھی پریشانی کا شکار ہیں ۔ دراصل ماضی کی ترک عثمانی سلطنت کی نشاتہ ثانیہ کا خدشہ انکے اذہان پہ چھایا ہوا ہے ۔ وہ خائف ہیں کہ اردگان جس طرح سے ترک قوم کو اپنی عظمتِ رفتہ نسلی و قومی تفاخر پہ ابھار رہا ہے ، انہیں ڈر ہے کہ مبادا طیب اردگان خلافت عثمانیہ کی شکست و ریخت میں عربوں کے گھناونے کردار پہ انتقامی روئیے کا شکار نہ ہو جائے اور عرب دنیا پہ اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کرے۔حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور ترکی میں نسلی تفاخر پہ تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا مزید یہ کہ ترکی سعودیہ و عرب امارات کے” قطر مقاطعے “پہ ترکی ان دو طاقتوں کے مقابل قطر کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگیا تھا یہ اقدامات عرب دنیا کو اندیشوں میں مبتلا کر رہے ہیں۔
ترکی اور امریکہ میں اختلافات کی وجہ امریکہ کی کرد جنگجوئوں کی حمایت ہے جسے ترکی اپنی سالمیت و اتحاد کے لئیے خطرہ سمجھتا ہے مزید براں ترکی شام کے کچھ علاقوں کی ملکیت کا دعویدار بھی ہے جو جنگ عظیم اول میں ترکی سے علیحدہ کر دئیے گئیے تھے یہ براہ راست سلطنتِ عثمانیہ کی جغرافیائی حدود کی طرف ملکیت کا دعویٰ ہے۔ اسکے علاوہ مغرب کو خدشہ ہے کہ ترکی جنگ عظیم کے بعد کئیے گئیے معاہدوں سے اذاد ہونے کے بعد معاشی و اقتصادی طور پہ مضبوط ہوگا اور مشرقِ وسطی میں اپنا اثر و نفوذ بڑھائے گا۔
ان معاہدوں میں سب سے اہم “معاہدہ لوزان” ہے جس کی اہم شرائط میں باسفورس کو عالمی سمندر قرار دینا اور ترکی میں تیل کی پیدوار کے لئیے اقدامات کرنے ملکی پیداوار بڑھانے کے بجائے ترکی کو اپنی ضروریات کا تیل برامد کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔ باسفورس کی سمندری کھاڑی بحر اسود، بحر مرمرہ اور بحر متوسط کا لِنک ہے اوراس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ عالمی تجارت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی نہر سویز کے ہم پلہ قرار دی جاتی ہے۔
ترک صدر اردگان کئی بار واضح کرچکے ہیں کہ2023 کے بعد ترکی وہ ترکی نہیں رہے گا جسے یورپ کا” مرد بیمار “کہا جاتا تھابلکہ اردگان ببانگِ دہل کہتا ہے کہ ” وہ اپنی زمین سے پٹرول بھی نکالیں گے اور ایک نئی نہر بھی کھودیں گےجو بحر اسود اور مرمرہ کو باہم ملاکر مربوط کردے گی “اور اس کے بعد ترکی یہاں سے گذرنے والے ہر بحری جہاز سے ٹیکس وصول کرے گا ۔ اندازہ لگائیے یہ اقدامات ترکی کو کن معاشی بلندیوں پر لے جا سکتے ہیں؟۔
بجا طور پہ ترکی اپنی عظمت رفتہ کی بحالی کے خواب دیکھ رہا ہے اور امت مسلمہ کی قیادت کے لئیے خود کو تیار کر رہا ہے۔ صدر اردگان آئین میں ترامیم کے ذریعے صدر کے عہدے میں تمام طاقت مرکوز کر کے خود کو “سلطان اردگان” کے روپ میں ڈھال رہا ہے۔
جملہ معترضہ.
” پاکستان کے عوام بھی اردگان کو اسلامی دنیاکے رہنماکے طور پہ دیکھ رہے ہیں۔ یہ وہی غلامانہ ، تن آسان پست ذہنیت ہے جو ہر طاقتور حکمران کے زیریں آنے میں عافیت محسوس کرتی ہے۔ “گل فقیر” سوچتا ہے پاکستان خود کیوں نہیں ؟
آخر پاکستان آگے بڑھ کر خود میں قیادت کی صلاحیت پیدا کیوں نہیں کرتا ؟کیا ہم ہمیشہ “وزیر” رہیں گے ، یا حقیقی سلطان بھی بن پائیں گے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں