مذہبی ثقافت(اختصاریہ)۔۔حسان عالمگیر عباسیhass

لباس کا تعلق ثقافت سے ہو سکتا ہے لیکن ثقافت کا تعلق مذہب سے ہے۔ وہاں تک ثقافت مقبول ہے جہاں مذہب کی لکیر آپ نے خود اپنے ناک سے اس وقت رگڑی تھی جب آپ ایک مسلم گھرانے میں خدا کے نائب بن کر نازل ہوئے۔ مذہب آپ کو مجبور نہیں کرتا کہ اس کا کلمہ پڑھیں اور جو پڑھ لے تو اسے اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کے لباس کو علاقائی ثقافت سے نتھی کرتا پھرے۔ اگر مرضی ہی کرنی ہے تو مذہب بھی آپ کی گردن کا طوق نہیں ہے ،مذہب مرضی سے خدا کی مرضی کو اپنی مرضی ماننے کا نام ہے۔

فرمانبرداری نہیں ہے تو فرمان کیوں پڑھتے ہو؟

حلف کیوں لیتے ہو؟

تم بھی وہی کرو جو نافرمان کرتے آ رہے ہیں۔ کیا انھیں کوئی ٹوک ہے کہ وہ بے لباس گھومیں؟

ان کی لیے تو یہی دنیا ‘جنت’ ہے اور پورا حق ہے کہ وہ قید سے آزاد ہو کر آزادی کی زندگی بسر کریں۔ “الدنیا سجن المؤمن و جنت الکافر۔” لیکن اگر قید میں رہنے کی قسم اٹھائی ہے تو وہی کرنا ہے جو اللہ  تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ  کے ذریعے اپنے گناہوں میں لت پت بندوں کو بتا دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رہے بندہ غلام ہوتا ہے اور غلامی میں خدا کا حکم چلتا ہے ،اس کے نافرمان لوگوں کے بنائے اصولوں کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر رد کرنا ہوتا ہے تاکہ در تعالیٰ بندوں پر مغلق ہو کر رد نہ کر سکے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply