• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ذلالت کی کہانی، ایک دوست کی زبانی۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

ذلالت کی کہانی، ایک دوست کی زبانی۔۔محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ

ہمارے ایک دوست ہیں  ، پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں، ایبٹ آباد کے رہنے والے ہیں۔ انتہائی معزز اور اعلی خاندانی پس منظر کے حامل ہیں۔ حال ہی میں میڈیکل سائنس میں لندن سے ماسٹرز کر کے لوٹے ہیں۔ اپنے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کے لیے گئے اور ہمارے لیے ایک کہانی ساتھ لے آئے۔ الفاظ کچھ ان کے ہیں کچھ میرے لیکن کہانی خالصتاً  انہی کی ہے، انہی کی زبانی سنیے:

کہتے ہیں کہ ” مجھے اپنا ڈرائیونگ لائسنس ری نیو کروانا تھا، وہاں جو کچھ ہوا  مجھے پہلے سے ہی اس کا اندازہ تھالیکن اس کے باوجود مجھے غصہ بھی آیا اور نظام کے غیر منظم اور غیر مؤثر ہونے پر افسوس بھی ہوا۔ان سب چیزوں پر غصہ پہلے بھی آتا تھا لیکن اب زیادہ غصہ اور  زیادہ افسوس اس لیے بھی ہوتا ہے  کہ باقی دنیا نے خود کو سدھار کر ایک دوسرے کی عزت کرنا سیکھ لیا ہے اور ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور ایک دوسرے کیلئضے ہمارا رویہ ساری دنیا سے بدتر ہے۔

میرا ڈرائیونگ لائسنس اپنی مدت پوری کر چکا تھااور لندن سے واپس آیا تو ظاہر ہے ری نیو کروانا تھا، جو کہ کرونالاک ڈاؤن کی وجہ سے لیٹ ہو گیا۔ لاک ڈاؤن ذرا نرم ہوا تو ایک روز چلا گیا لیکن بے انتہا رش دیکھ کر گھبرا کے واپس چلا گیا۔ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا اور بندے پہ بندہ چڑھا ہوا تھا۔ کرونا کازور ابھی ٹوٹا نہیں تھا لیکن کسی کو پرواہ کب تھی، نہ کسی نے ماسک پہنا ہوا تھا اور نہ سماجی فاصلے کا کسی کو دھیان تھا۔ لہذا میں واپس چلا گیا اور کوئی دو مہینے بعد دوبارہ  طبع آزمائی کا سوچا۔  اب بھی حال ویسا ہی تھا لیکن کام تو کروانا تھا۔

میں نے فارم بھرے، یاد رہے کہ پڑھی لکھی دنیا میں اب یہ سارے کام کمپیوٹرائزڈ ہو چکے ہیں اور یہ سارے کام ویب سائٹس پر ڈیٹا اندراج سے ہو جاتے ہیں، اس کے لیے ہاتھ میں فارم پکڑ کے سکول کے بچوں کی طرح قطار نہیں بنانا پڑتی لیکن یہاں تو قطار بھی نہیں تھی۔ کمرہ نمبر ایک جو لائسنس کی تجدید کروانے والوں کے لیے مخصوص تھا،  لاکڈ تھا ۔ پتہ چلا کہ تجدید کروانے والے دو بجے کے بعد آئیں۔ دل میں ہزار برا بھلا کہہ کے دو بجے دوبارہ آنے کے لیے واپس چلا گیا۔

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ۔۔

جب دوبارہ پہنچا تو تقریبا ًً تین بج چکے تھے، سوچا شاید اب رش چھٹ چکا ہولیکن دیکھا کہ صبح سے بھی زیادہ رش تھا۔ کمرہ ابھی بھی لاک تھا، اور باہر سب ٹیکسی ڈرائیور، ٹرک ڈرائیور، ڈاکٹر، وکیل، پڑھے لکھے اور جاہل سب ایک ہی صف میں محمودوایاز بنے کھڑے تھے۔

یہ رش اپنی جگہ پر موجود تھا اور کچھ لوگ کسی وردی والے کے ساتھ یا کسی چپڑاسی یا عملے کے کسی اور فرد کے ساتھ آتے، اور اسی کمرے میں دوسری طرف سے اندر چلے جاتے۔ یہ سب وہ خوش نصیب تھےجو کسی نہ کسی سفارش کے ساتھ آئے تھے، اندر جاتے، پندرہ منٹ میں اپنا کام کرواتےاور گردن اکڑا کے نکلتے جا رہے تھے۔ جبکہ دو سے تین بجے کے درمیان جو فارم جمع ہو کے اندر جا چکے تھے، ان کی باری ہی نہیں آ رہی تھی۔ انتظار گاہ نام کی کوئی جگہ تو وہاں تھی نہیں، لہذا دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کہ کھڑا ہو گیا تماشائے اہل کرم دیکھنے لگا۔ بڑی غلطی یہ ہوئی کہ کسی ریفرنس کے بغیر آ گیااور اب انتظار میں تھا کہ کوئی معجزہ ہو اور میرا نام پکارا جائے۔ رش بے انتہا تھا اور خواتین کے لیے بھی کوئی الگ جگہ نہیں تھی۔ میرے سامنے کئی خواتین کو بھی اسی رش میں سے راستہ بنا کر لوگوں سے ٹکراتے گزرنا پڑا اور ساتھ میں کئی نگاہوں کا نشانہ بھی بننا پڑا لیکن کام بھی تو کروانا تھا، کوئی اور چارہ یا راستہ بھی کہاں تھا۔

خیر پانچ بجے کے قریب لوگوں کی گرمی اور انتظار سے بیزاری کے بعد دروازہ کھلا اور سب ایک سیلاب کی صورت اندر گھس گئے۔ میں مہذب دنیا کا فرد ہونے کے ناطے گھبرایا ضرور لیکن مرتا کیا نہ کرتا، ناک بند کر کے ندی میں چھلانگ لگا دی۔ اندر دیکھا کہ چار آدمی چار ہزار آدمیوں کاکام سنبھال رہے تھے۔ میں نے بھی تمیز ایک طرف رکھ دی اور دھکم پیل کر لے ایک کاؤنٹر پر جگہ پکڑ لی۔میری خوشی کی حالت ایسی تھی جیسے کسی بچے کو اس کی من پسند چیزملنے پر ہوتی ہے۔ اب میں اچک اچک کر کاؤنٹر کے دوسری طرف رکھے فارموں میں اپنا فارم تلاش کرنے کی کوشش کر رہا تھاکہ شاید مجھے اپنا فارم کہیں سامنے نظر آ جائے اور نتیجتاً باری جلدی آ جائے لیکن ہزار کوشش کے باوجود  فارم نظر نہیں آیا۔ سفارش والے فارم برابر آ رہے تھے اور ساتھ اندر رکھے ایک دو فارم  بھی بھگتتے جا رہے تھے۔ دفتری اوقات پانچ بجے تک تھے اور میری الجھن بڑھ رہی تھی اگر پانچ بج گئے اور باری نہ آئی  اور معاملہ کل پر چلا گیا تو کل پھر یہی ذلالت اٹھانا پڑے گی۔ دل ہی دل میں آیتوں اور سورتوں کا ورد شروع کر دیا اور کاؤنٹر کے دوسری طرف بیٹھے اہلکار پر پھونکنے لگا کہ یااللہ یہ کام اپنا جلدی مکمل کر لے۔

کاؤنٹر کے دوسری طرف ایک ہی بندہ فارم والے بندے کو پکار رہا تھا،پھر کمپیوٹر پر ڈیٹا اندراج بھی  کررہا تھا،  فیس کے پیسے بھی لے رہا تھا اور بقایا پیسے بھی واپس کر رہا تھا۔ کئی بندوں کا کام اکیلا بندہ کر رہا تھا اور اوپر سے اس کے کام کی رفتار بھی انتہائی سست تھی۔  میں نے غور کیاکہ وہ ہر بندے سے بیس روپے زائد وصول کر رہا تھا۔ کسی فارم پر فیس 1300 اور کسی پر 780 روپے فیس درج تھی لیکن وہ 800 اور 1320 روپے وصول کر رہا تھا، اور خلق بھی شاید رش اور بیزاری کے باعث اس ناانصافی پر سوال اٹھا کر مزید ذلیل نہیں ہونا چاہتی تھی لہذا کسی نے بھی کوئی سوال نہیں اٹھایا، ویسے بھی بیس روپے کی اوقات ہی کیا ہے کہ اس کے لیے جھگڑا کیا جائے۔

لیکن دوسری طرف روزانہ چار پانچ سو آدمیوں سے بیس روپے وصول کیے جائیں تو  اوپر کی یہ آمدنی ماہانہ لاکھوں میں پہنچتی ہےلیکن بات وہی ہے کہ اتنی گرمی اور جھک جھک کے بعد کون اس بےایمانی کی کلاس لے اور پھر دفتر میں آئے ہوئے اسّی فیصد لوگ ویسے ہی ان پڑھ تھے، جنہیں نہ اس بےایمانی کاادراک تھا اور نہ اپنے حقوق کا۔ خیر اللہ اللہ کر کے میری باری آئی اور بیس روپے  کی بجائے  پچاس روپے کا غم کھا ناپڑا کہ نہ تو میرے پاس ٹوٹے بیس روپے تھے اور نہ کاؤنٹر کے دوسری طرف چینج بچا تھا۔ پونے چھے بجے میں کام کروا کے دفتر سے باہر نکلا۔

کام تو جیسے تیسے ہو گیا لیکن میں سوچتا رہا کہ کہ وہ مسلمان اللہ کا بندہ اپنے آپ کو شاید یہ کہہ کر بیس روپے زائد لینے پر تسلی دے لیتا ہو کہ اوور ٹائم تو اسے ملتا نہیں، تو چلو ایسے ہی سہی اور ویسے بھی یہ اوپر کی آمدنی ساری کی ساری اس کی جیب میں تھوڑی جاتی ہو گی، اوپر سے نیچے تک سارے عملہ حصہ بقدر جثہ وصول کرتا ہو گا۔ اور حکومت تمام انفراسٹرکچر ہونے کے باوجود پیسے بچانے کے لیے نوکریاں نہیں دیتی اور چار چار بندوں کا کام ایک اکیلے آدمی کو کرنا پڑتا ہے۔  میں اس ساری ذلالت سے گزرنے کے بعد سوچتا رہا کہ کیا ایک پاکستانی شہری کی کوئی عزت نہیں؟ کوئی حقوق نہیں کہ اسے زندگی اس طرح لڑ مر کے گزارنا پڑ رہی ہے؟  صرف مزید ذلت سے بچنے کیلئے بےایمانی اور ناانصافی کے خلاف وہ آواز نہیں بلند کر سکتا؟ کیونکہ بولے گا تو ایک تو اس کے پاس اتنے ذرائع نہیں کہ وہ لڑ سکے ، غلط کو غلط کہہ سکے اور دوسرا بہت سے دوسرے وہیں کھڑے ذلیل ہوتے لوگ بھی اس کا ساتھ نہیں دیں گے اور یہ کہہ کر چپ کروا دیں گے کہ یہاں پر کچھ نہیں ہو سکتا اس لیے بس اپناکام نکلواؤ اور چپ کر کے نکل جاؤ۔ اس ملک میں اخلاقیات بھی اسی کی ہیں جس کے پاس وسائل ہیں۔ اور ایک اور بات جو میں سوچ رہا تھا، وہ یہ کہ حکومتیں اگر ٹائیگر فورس ٹائپ رضاکاروں کے جتھے بنا نے کی بجائے جہاں جہاں افرادی قوت درکار ہے وہاں وہاں انہیں مناسب روزگار دے تو شاید بہت سے کام طریقے سے انجام پانے لگیں۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

پس نوشت: میں نے اپنے دوست کی یہ بپتا سننے کے بعد ان کے زخموں پہ نمک چھڑکتے ہوئے انہیں بتایا کہ لائسنس بنوانے کے لیے میں ایک انتہائی تگڑا ریفرنس لے کر گیا، ایس پی صاحب کے دفتر میں بیٹھے بیٹھے نہ صرف سارا کام ہو گیا بلکہ ایس پی صاحب نے اپنے ہاتھوں سے مصافحہ کر کے لائسنس عنایت کیا اور “ہیو سیف ڈرائیو” وش بھی کیا۔ پیارے وطن میں اگر ذلالتیں بے مثال ہیں تو سہولتیں بھی تو نایاب ہیں۔

Facebook Comments

محمد ہارون الرشید ایڈووکیٹ
میں جو محسوس کرتا ہوں، وہی تحریر کرتا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply