جسے اللہ رکھے (قسط3)۔۔عزیزاللہ خان

فائرنگ کی آواز سے پورے بیٹ کا دریائی علاقہ گونج رہا تھا فائرنگ کی آوازوں سے لگ رہا تھا کہ ہم پر فائرنگ کرنے والے مختلف قسم کا اسلحہ استعمال کر رہے تھےمیں نے چیخ کر فدا کو کہا ایک دفعہ پھر سیٹوں کے نیچے دیکھے شاید بنڈوریل مل جائے تھوڑی دیر بعد مجھے فدا کی آواز آئی “خان صاحب یہاں کُچھ نہیں ہے “میں نے فدا کو کہا کہ وہ نیچے اُتر کر گاڑی کی اوٹ میں آجائے کہیں اُسے فائر نہ لگ جائے -مجھے اُس دن احساس ہوا کہ وفادار ملازم جن سے آپ بچوں کی طرح پیار کرتے ہوں آپ کی خاطر اپنی جان کی پرواہ بھی نہیں کرتے ورنہ ایسے موقعہ پر ملازم اکثر اپنی جان بچا کر بھاگ جاتے ہیں –

شاماں ڈاہر بھی فائرنگ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اندھیرے میں کہیں گُم ہو گیا تھا تھوڑی تھوڑی دیر بعد دریا کے بند کی طرف سے کوئی نہ کوئی ملزم ہماری طرف آنے کی کوشش کرتا جس پر چاچا عباس کانسٹیبل اپنی جی تھری ریفل سے سنگل فائیر کر دیتا اور وہ ہمیں گالیاں دیتا واپس بھاگ جاتا-لانگ رینج اسلحہ میں جی تھری ریفل کا جواب نہیں ہے کھُلے علاقوں میں ریڈ یا مقابلے کے لیے اس سے بہتر کوئی ہتھیار نہیں ہے- میں بھی کبھی کبھی اپنی کلاشنکوف سے سنکل فائر کر رہا تھا اچانک میری ریفل کی میگزین میں گولی پھنس گئی جو لوگ اسلحہ استمعال کرتے ہیں اُنہیں معلوم ہو گا کہ میگزین کے اندر ایک سپرنگ نصب ہوتا ہے جو اپنی طاقت سے گولی کو چیمبر میں دھکیلتا ہے- میں نے کلاشنکوف کی میگزین نکال کر ناصر ڈرائیور کو دی کہ اُسے دیکھے گولی کیوں چیمبر میں نہیں جا رہی جس نے چیک کر کے بتایا کہ میگزین کا سپرنگ لوز ہے جس کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے اب میرے پاس اس کا ایک ہی حل تھا کہ ہر دفعہ ہاتھ سے گولی چیمبر میں ڈالی جائے چناچہ اب ناصر مجھے میگزین سے گولی نکال کر دیتا تھا جسے چیمبر میں ڈال کر میں فائیر کرتا تھا-محکمہ پولیس میں اسلحہ کی صفائی اور اُسے چیک کرنے کا بلکل رواج نہیں ہے تھانوں پر اکثر اسلحہ صفائی نہ ہونی کی وجہ سے زنگ آلود اور ناکارہ ہو جاتا ہے کیونکہ یہ بُہت کم استمعال ہوتا ہے لیکن جب ان کو چلانے کا وقت آتا ہے تو دھوکا دیتا ہے -رحیم یارخان ضلع کی تعیناتی کے دوران میں اپنی کلاشنکوف اور تھانہ کے اسلحہ کی صفائی ہر ہفتہ کرواتا تھا مگر مجھے اس بات کا بلکل اندازہ نہ تھا کہ اچانک اس طرح مجھ پر حملہ ہو جائے گا اور میری کلاشنکوف دھوکہ دے گی؟
میں نے گاڑی کے وائرلس سیٹ سے چوکی ہتھیجی کے وائرلس آپریٹر کو بھی فائیرنگ کی اطلاع دینے کی کوشش کی مگر کسی بھی وائرلس اسٹیشن سے رابطہ نہ ہو رہا تھا- اگر ہو بھی جاتا تو دریائی علاقہ میں اتنی جلدی امداد پُنہچنا ناممکن تھا تھوڑی دیر بعد ہمارے پاس روند ختم ہو جانے تھے اور پھر ہمارے ساتھ کیا ہونا تھا یہ سوچ کر میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد لہر دوڑ گئی-

سردار نور محمد خان لُنڈ ایم این اے جن کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا وہ یارو لُنڈ سندھ کے رہنے والے تھے میرے اُن سے کوٹ سبزل کی تعیناتی میں بُہت اچھے تعلقات ہو گئے تھے – نور محمد خان لُنڈ کے جوان بیٹے سردار نثار خان لُنڈ کو بھرچونڈی شریف والوں نے دشمنی میں اُس وقت قتل کر دیا تھا جب نثار لُنڈ کی گاڑی کے آگے اور پیچھے محافظوں کی گاڑیاں تھیں جب میں نے نور محمد خان سے سوال کیا کہ ایسے اسلحہ رکھنے کا کیا فائدہ اسلحہ اور محافظوں کے ہونے کے باوجود آپ کے بیٹے کو دشمنوں نے قتل کر دیا تھا ؟میرے اس سوال پر نور محمد خان لُنڈ مرحوم نے جواب دیا تھا” بھتیجا خان اسلحہ آپ کو موت سے نہیں بچاتا بُری اور درد ناک موت سے بچاتا ہے جو دشمن آپ کا ناک ،کان اور جسم کے دوسرے حصے کاٹ کر دیتا ہے ایسے حالات میں آخری گولی بچا کر رکھی جاتی ہے تاکہ خود کو ماری جاسکے”نور محمد خان لُنڈ مجھے پیار سے بھتیجا خان کہا کرتے تھے-اب میرے دماغ میں بھی نور محمد خان لُنڈ کے الفاظ گونج رہے تھے میں بھی سوچ رہا تھا ایک آخری گولی اپنے لیے بچا کر رکھ لوں گا اگر اس دوران کوئی مدد نہ آئی تو یہ آخری گولی خود کو مارنے کے کام آئے گی میں دشمنوں کے ہاتھوں دردناک موت نہیں مرنا چاہتا تھا-
چاچا عباس کانسٹیبل کو بھی صورت حال کی سنگینی کا اندازہ ہو چکا تھا بولا سر میں ان کو روکاتا ہوں آپ کرالنگ کرتے ہوئے نکل جائیں اندھیرا ہے انہیں پتہ نہیں چلے گا میں نے عباس کو انکار کر دیا ابھی ہم بات ہی کر رہے تھے کہ ہمارے پچھلی طرف سے فائیرنگ شروع ہوگئی پہلے تو میں پریشان ہو گیا پھر خیال آیا کہ یہ یقیناً معراج خان Asi ہو گا جو میری سرکاری گاڑی سے آگے نکل گیا تھا معراج خان کی طرف فائیرنگ کی آواز سُن کر دل کو کُچھ حوصلہ ہوا کہ مدد پُنہچ گئی ہے مگر بند کی طرف سے فائیرنگ میں کوئی کمی نہیں ہو رہی تھی دشمن ہمیں مارنے کے لیے اپنی سرتوڑ کوشش کر رہا تھا -اب ہماری حالت یہ تھی کہ سامنے سے بھی فائیرنگ اور پیجھے سے بھی فائیرنگ اور درمیان میں ہم ؟
دوران ٹرینگ سپشل ڈیوٹی کورس اور ATS کورس ہمیں یہ سیکھایا جاتا تھا کہ فائیرنگ میں “کرالنگ “کرتے ہوئے گولی لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے مگر “رولنگ” کرتے ہوئے دشمن صرف قریب آکر فائر مارے تو لگ سکتا ہے- (رولنگ اپنی گن کو سینے سے لگا کر خود کو رول کرنے کا نام ہے) میں نے عباس کو بھی رولنگ کرنے کا کہا کیونکہ اب دونوں اطراف کی فائرنگ سے بچنے کا صرف واحد حل رولنگ کر کے وہاں سے نکلنا تھا ورنہ ہماری موت یقینی تھی؟
عباس کانسٹیبل نے کہا سر آپ جائیں میں ان کو سنبھالتا ہوں میں نے اپنی کلاشنکوف سینے سے لگائی اور دریا کی ریتلی زمین پر رولنگ شروع کر دی فدا بھی میرے ساتھ تھا موت کا خوف کیا ہوتا ہے مجھے اُس دن بڑی شدت سے محسوس ہوا-اب فائرنگ دونوں طرف سے ہو رہی تھی زمین پر کافی دیر رولنگ کے بعد فدا اچانک فدا چیخا خان صاحب ہم تو بند کی طرف جارہے ہیں میں رک گیا حواس کُچھ بحال ہوئے تو غور کرنے پر احساس ہوا کہ بدحواسی میں واقعی ہم اُس بند کے کافی قریب آ گئے تھے جہاں سے نامعلوم ملزمان ہم پر فائیرنگ کر رہے تھے-کیونکہ میں بھاری جسم کا مالک تھا اور سردیوں کی یونفارم میں تھا کلاشنکوف کو سینے سے لگا رولنگ کرنا میرے لیے کافی مشکل ہو رہا تھا -اب ہم نے دوبارہ بند کی مخالف سمت رولنگ کرنا شروع کر دی کافی دیر رولنگ کے بعد اچانک میں کسی گہری جگہ میں گر گیا شاید وہ پانی کی کوئی کھال تھی جس میں پانی نہیں تھا اتنی دیر میں آس پاس کے رہائشی لوگوں نے بھی ہوائی فائرنگ شروع کردی تھی چاروں طرف فائرنگ شروع ہوئی تو دریا کے بند کی طرف سے فائرنگ بھی بند ہوگئی نامعلوم ملزمان لوگوں کو اکٹھا ہوتا دیکھ کر شاید فرار ہو گئے تھے-تھوڑی دیر بعد معراج اور اُس کے ساتھ گئے ملازمین بھی سرکاری گاڑی کے پاس آگئے سرکاری گاڑی میں گولیوں نے سوراغ بنا دیے تھے مگر شکر ہے انجن محفوظ تھا اور گاڑی سٹارٹ حالت میں ہی کھڑی تھی -میری وردی اور جسم مٹی سے لتھڑا ہوا تھا بیٹ کے کُچھ رہائشی لوگ بھی وہاں آگیے اور میرے لیے پانی بھی لائے میں نے پانی سے اپنا مُنہ دھویا پانی پیا تو میرے حواس کُچھ بحال ہوئے اللہ نے مجھے اور میرے ساتھی ملازمین کو نئی زندگی دی تھی- میں نے سلیم گن مین کو کُچھ نہ کہا مگر عہد کرلیا کہ اب اپنی بنڈوریل اپنے پاس رکھوں گا- وہاں پر موجود لوگ میری خیریت دریافت کر رہے تھے مگر میں سوچ رہا تھا کہ زندہ کیسے بچ گیا ؟؟؟مجھے خیال آیا کہ میری والدہ زندہ ہیں اور وہ ہمیشہ میرے لیے دعا کرتی رہتی ہیں -میں نے جب تھانہ نوشہرہ حاضری کی تو وہاں لوگوں کے لیے بیٹھنے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی تھی لوگ باہر زمین پر بیٹھ کر تفتیشی افسران اور ایس ایچ او کا انتظار کرتے تھے اور کُتے بھی اُن کے ساتھ بیٹھے ہوتے تھے – انسانیت کی اتنی تذلیل میں نے صرف تھانہ نوشہرہ میں ہی دیکھی تھی -میری یہ بھی عادت تھی کہ جہاں بھی پوسٹنگ ہوتی ملازمین اور لوگوں کے لیے ویلفیر کا کام ضرور کرتا تھا -تھانہ پر ملازمین کا میس بنانا بھی میری ترجیحات میں شامل ہوتا تھا -تھانہ نوشہرہ جدید کے باہر چھوٹی سی مسجد بھی تھی جس میں نمازیوں کے لیے بُہت کم جگہ تھی میں نے اپنی مدد آپ کے تحت ریت سیمنٹ اور اینٹوں کا بندوبست کیا- میری یہ بھی عادت تھی کہ جب بھی ایس کوئی تعمیر کرنی ہوتی تھی اتوار کے دن میں ٹریک سوٹ پہن کر آجاتا تھا تھانہ کے تمام ملازمین اکٹھے ہوتے تھے علاقہ کے زمیندار بھی موجود ہوتے تھے اور مستری بھی ہوتے تھے سب سے پہلے میں کندال کے ساتھ بنیاد خود کھودتا تھا جیسے ہی میں کسی یا کُندال پکڑ کر کام شروع کرتا ملازمین اور زمیندار بھی ایس ایچ او کو کام کرتا دیکھ کر خوشامداً کام کرنا شروع کر دیتے تھے اس طرح شام تک ہم چھتوں تک دیواریں مکمل کر لیتے تھے کھانے کی دیگیں بھی بن جاتی تھیں اور ہم دوپہر کا کھانا بھی اکٹھے ہی کھایا کرتے تھے –
دودن قبل میں نے تھانہ نوشہرہ جدید کی چھوٹی مسجد کو شہید کر کے وہاں بڑی مسجد کی بنیاد رکھی تھی اور اُس کا نام اپنے والد سردار امان اُللہ خان کے نام سے منسوب کرتے ہوئے “مسجد امان” رکھا تھا ابھی اُس مسجد کی چھت ڈالنا بقایا تھا ہو سکتا ہے اللہ تعالٰی نے مجھے اس مسجد کو مکمل کرنے کا موقعہ دیا ہو اور میری جان بچ گئی ہو –
تھوڑا ہوش آیا تو میں نے موبائل فون پر ڈی پی او کپٹن عادف نواز صاحب کو اس واقعہ کی تمام تفصیل بتائی انہوں نے میری اور ملازمین کی جان بچ جانے پر اللہ کا شُکر ادا کیا مجھے ہدایت کی کہ اب یہ پولیس اور آپ کی عزت کا معاملہ ہے فائرنگ کرنے والے ملزمان بچ کر نہیں جانے چاہیں ان کو گرفتار کرنا آپ کی ذمہداری ہے –

Advertisements
julia rana solicitors

بند پر جہاں سے فائرنگ ہوئی تھی ہم نے ٹارچ کی روشنی میں جاکر دیکھا تو موقعہ پر کلاشنکوف 8 ایم ایم بارہ بور کے خول کثیر تعداد میں بکھرے ہوئے تھے اُس جگہ تقریباً سات آتھ لوگوں کے پاوں کے نشانات تھے مگر تاریکی کی وجہ سے ان کا پیچھا کرنا خطرناک ہو سکتا تھا- موقعہ پر مبارک خان نمبردار بھی آگیا جس سے پوچھا گیا کہ کیا اُس کے کسی بیٹے نے محرر چوکی ہتھیجی کو کوئی ٹیلی فون کیا تھا تو وہ بولا اُس کا بیٹا تو کراچی گیا ہوا ہے مبارک خان کو نمبر دیکھایا گیا تو وہ بولا یہ نمبر اُس کی فیملی میں سے کسی کا بھی نہ ہے –
میں بُہت زیادہ تھک چُکا تھا اب میں نے تھانہ پر واپس جانے کا فیصلہ کیا موقعہ پر ایک کانسٹیبل کو چھوڑ دیا کیونکہ اندھیرے میں خول اکٹھے کرنا کافی مشکل تھا اس لیے تمام قانونی کاروائی کے لیے صُبح پھر موقعہ پر آنا تھا –
اتنی دیر میں فدا اپنے ٹیلی فون نمبر سے میرے بچوں کو اس واقعہ کے بارے میں بتا چُکا تھا وہ بھی مجھ پر فائیرنگ کا سن کر بُہت پریشان ہو گئے تھے جن کو میں نے تسلی دی کہ بچ گیا ہوں والدہ صاحبہ کو بھی فون پر کراچی بتایا کہ اُن کی دعاوں کے صدقے میری زندگی بچ گئی ہے وہ یہ سب کُچھ سُن کر رونا شروع ہو گئیں اور کہنے لگیں چھوڑ دوایسی ملازمت جس میں جان کا خطرہ ہے -ہم پولیس والوں کی بھی کیا زندگی ہوتی ہے نہ کسی کی خوشی میں شریک اور نہ غمی میں اور موت کا پتہ نہیں کب آجائے ؟
واپسی براستہ جلالپور پیر والہ بہاولپور مبارک پور ہوئی راستہ بھر دوستوں کے ٹیلی فون آتے رہے جو میری خیریت پوچھتے رہے-میری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ واپس آرہی تھی میں سوچ رہا تھا کہ آخر کون ایسی جُرت کر سکتا ہے کیونکہ اس علاقہ میں لوگ جتنے بھی بہادر ہو جائیں مگر پولیس ملازمیں سے مخالفت مول نہیں لیتے تھے اور اس طرح پولیس ملازمین کو بلا کر فائیرنگ کرنا ناممکن تھا؟ -واپسی پر میں نے معراج خان کو اپنے ساتھ سرکاری گاڑی میں بیٹھا لیا معراج ڈرائیونگ کر رہا تھا سارا راستہ ہم دونوں آپس میں یہی بات کرتے رہے کہ کون ہو سکتا ہے آخر میں ہم دونوں اس نتیجہ پر پُہنچے کہ ڈڈلی حسام کے پولیس مقابلے میں مارے جانے کے بعد اُس کا بھتیجا چھلو حسام اور اُس کے ساتھی یہ حرکت کر سکتے ہیں-
تھانہ پر پُنہچے تو ملازمین بھی ہمارا انتظار کر رہے تھے مجھے اور معراج کو زندہ سلامت دیکھ کر اُنہوں نے بھی خوشی کا اظہار کیامیں اپنی رہائشکاہ پر چلا گیا معراج خان بھی چوکی ہتھیجی چلا گیا نہانے اور وضو کے بعد میں نے اپنے رب کے حضور دو رکعت نفل شکرانہ ادا کیے کہ اُس نےمیری اور میرے ساتھی ملازمین کی جان بچائی-تھانہ کی تمام ملازمین کو میں نے رات ہی بتا دیا تھا کہ صُبح دوبارہ موضع بیٹ لنگاہ جانا ہے تاکہ ملزمان کا پتہ لگایا جاسکے رات کو نامعلوم ملزمان کے خلاف پولس ملازمین پر حملہ کرنے فائرنگ کرنے اور اقدام قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر دیا گیا تھا-
صُبح جلدی اٹھنے کے بعد میں تھانہ کے پولیس ملازمین کے ساتھ موضع بیٹ لنگاہ کے لیے روانہ ہو گیا چوکی ہتھیجی پُنہچا تو معراج خان میرے انتظار میں بیٹ لنگاہ جانے کے لیے تیار تھا چوکی پر کُچھ اور لوگ بھی موجود تھے جن میں سعید کنوں بھی تھا-سعید کنوں کے بارے میں معراج خان نے مجھ بتایا کہ یہ معاون پولیس ہے اسے اور دوسرے کُچھ لوگوں کو فائرنگ کرنے والے ملزمان کی تلاش پر مامور کر دیا ہے- محرر چوکی سے بھی میں نے فون کر کے بلانے والے ملزم کے بارے میں بیان لیا کہ وہ کون ہو سکتا ہے؟ اس کے بعد ہم سب ڈہڑاں والے پتن سے دوبارہ بیٹ لنگاہ کے لیے روانہ ہو گئے- کشتی سے دریار عبور کیا میں اپنی سرکاری گاڑی پر سوار تھا جس پر فائرنگ کے نشنات موجود تھے-موقعہ پر پُنچے تو مبارک خان لنگاہ کُچھ دیگر لوگوں کے ساتھ وہاں موجود تھا اور ہمارا انتظار کر رہا تھا موقعہ پر ملزمان کے نقش پا کے ساتھ ساتھ کافی تعداد میں مختلف بور کے اسلحہ کے خالی خول بھی بکھرے ہوئے تھے جو ہم پر فائر ہوئے تھے- اتنی فائرنگ کے بعد میں اور میرے ساتھی کیسے زندہ سلامت بچ گئے یہ بات کسی معجزہ سے کم نہیں تھی-خول کارتوس کی قبضہ میں میں لیے گئے جن کے تعداد تقریباَ تین ہزار تھی-نقشہ موقعہ بھی بنایا اس ساری کاروائی کے دوران میں وہاں پر موجود لوگوں سے اُن کی رائے بھی لیتا رہا کہ یہ ملزمان کون ہو سکتے ہیں؟ میں نے ایک بات محسوس کی کہ وہاں پر موجود لوگ مجھے سب کے سامنے کُچھ بتانا نہیں چاہتے- مبارک خان نمبردار نے کھانے کا انتظام بھی کیا ہوا تھا مگر مجھے چین نہیں تھا مجھ پر حملہ کیا گیا تھا میں کیسے ان ملزمان کو معاف کر سکتا تھا؟
موبائل فون نمبر جس سے چوکی پر کال کی گئی تھی CDR کے لیے ایک دوست کو دیا ہوا تھا جس نے بتایا تھا کہ ایک ہفتہ تک تفصیل مل جائے گی اُن دنوں محکمانہ طور پر CDR یا IMEI حاصل کرنے کی کوئی سہولت نہں ہوتی تھی پرائیویٹ طور پر معاوضہ ادا کر کے کال ڈیٹیل لی جاتی تھی جو ہزاروں میں ہوتی تھی- مبارک خان نمبردار مجھے ہہلی دفعہ ملا تھا مجھے ایسا لگا جیسے وہ مجھے کُچھ بتانا چاہتا ہے مگر وہاں پر موجود لوگوں کے سامنے جحجک رہا ہے میں اُس کے قریب گیا اور اُسے سرگوشی کی کہ اگر اُس کے پاس کُچھ معلومات ہیں تو تھانہ پر آجائے مبارک خان نے اثبات میں سر ہلا دیا-
ضروری قانونی کاروائی کے بعد میں اپنے ہمراہی ملازمین کے ساتھ اُسی ڈاہڑاں والے پتن سے بذریعہ کشتی واپس ہتھیجی کی طرف روانہ ہو گیا دریائی علاقہ سے گزرتے ہوئے رات والے خوفناک واقعات میرے ذہن میں گھوم رہے تھے-معراج نے چھلو حسام کی گرفتاری کے لیے مخبران مامور کر رکھے تھے مگر چھلو اپنے گھر سے غائیب تھا-
چوکی ہتھیجی پر کُچھ دیر قیام کیا معراج خان اور چوکی پر تعینات ملازمین سے میٹنگ کی تمام ملازمین نے عہد کیا کہ جب تک پولیس ملازمین پر حملہ کرنے والے ملزمان تلاش نہیں کر لیتے چین سے نہیں بیٹھیں گے-میں تھانہ کی طرف روانہ ہو گیا- تھانہ پر بھی کافی معززین میری خیریت دریافت کرنے آئے ہوئے تھے- مگر میرے ذہن میں رات والے واقعات ایک فلم کی طرح بار بار گھوم رہے تھے اور صرف ایک بات تھی کہ مجھ سمیت میرے ملازمین پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزمان کو ڈھونڈنا اور اُنہیں کیفرکردار تک پُنہچانا-
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply