کراچی والے کراچی سنبھال لیں گے۔۔ہُما

مدت سے پنپتی ہوئی سازش نے ڈبویا
کہنے کو میرے شہر کو بارش  نے ڈبویا!

حقیقت الحال کچھ یہی ہے کہ ہر واقعے کے بہت سے محرکات ہوتے ہیں، کبھی بھی کوئی حادثہ اچانک سے وقوع پذیر نہیں ہوتا،ضرورت حادثہ کے پیچھے کارفرما عوامل کا جائزہ لینے کی ہے۔

کیا کراچی میں بارش ہوجانا کوئی حادثہ تھا؟

جی نہیں یہ حادثہ نہیں تھا یہ سانحہ تھا!
بقول شاعر حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
کوئی ٹھہرا نہیں حادثہ دیکھ کر
کراچی حسرت و یاس کی تصویر بنے اپنے تمام اسٹیک ہولڈرز کے پاؤں کے نیچے ایک فٹبال کی مانند نظر آیا۔ جسے کبھی کوئی ایک طرف سے گول کرنے کے لئے ٹھوکر مارتا ،کبھی دوسرا پہلے کے پاؤں کے نیچے سے کھینچ کر خود ٹھوکر مار کر گول کرنے کی کوشش کرتا۔
ہائے کراچی جس کے بے شمار ورثاء موجود ہیں ،
کراچی لاوارث نہیں ۔

آئیے کراچی کے کچھ بڑے ورثاء کے بارے میں پہلے  جانتے ہیں۔۔

کراچی کے سب سے بڑے وارث کا نام سندھ کی ایک قوم پرست جماعت پیپلزپارٹی  ہے۔جس کے جانشین بلاول بھٹو زرداری کراچی کے ایک حلقے سے کامیاب ہوچکے ہیں۔اپنی تقاریر میں وہ کراچی والوں کو بتاتے ہیں کہ یہ شہر کراچی میرا ہے، میں یہاں پیدا ہوا ہوں، میں بھی کراچی والا ہوں۔میں کراچی سے، کراچی والوں سے محبت کرتا ہوں کیونکہ میرا ماضی اسی کراچی سے وابستہ ہے۔

کراچی کے دوسرے بڑے وارث کا نام حکمران جماعت تحریک انصاف ہے۔جس کے پاس اس وقت کراچی کی 14 سیٹیں موجود ہیں۔یہ نشستیں دوران الیکشن دھاندلی سے حاصل کی گئیں یا شفافیت سے اس سے قطع نظر یہاں سے سلیکٹ ہونے والوں کو دیکھیں تو وزیراعظم عمران خان، صدر مملکت عارف علوی، گورنر سندھ عمران اسماعیل، علی زیدی، فیصل واڈا، عالمگیر خان اور بہت سے نمایاں نام ابھرتے ہیں۔

ان تمام نام نہاد اعلیٰ  وزراء میں سے وزیراعظم عمران خان 15 مئی 2018 کو کراچی آتے ہیں تو جوش خطابت میں کراچی والوں کو کچھ وعدے دے کر جاتے ہیں۔
میں کراچی کے بلدیاتی نظام کو تبدیل کروں گا
مئیر کے لئے براہ راست انتخاب کرواؤں گا
انٹرنیشنل لیول کی سرکاری جامعات بنواؤں گا
پولیس نظام میں ایسی بہتر ی لائیں گے کہ کسی دوسرے ادارے کی ضرورت نہیں پڑے گی
بزنس کے لئے سازگار مواقع اور ماحول پیدا کریں گے
سستی بجلی کی فراہمی یقینی بنائیں گے
کھیلوں کو فروغ دیں گے
سیوریج کے لئے ری سائیکلنگ پلانٹس لگائیں گے
سرکلر ریلوے کا قیام ہوگا
نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کی جائے گی ۔

وزیراعظم صاحب دوسال گزر جانے کے بعد کراچی کو کچھ نہ دے سکے،دیا تو صرف کراچی کی ایک سیاسی جماعت کو خوش رکھنے کے لئے دو وزراء ۔جن کی حکومت میں آنیاں اور جانیاں ان کی جماعت کے زندہ ہونے کا پتہ دیتی رہیں ،ماضی میں کراچی کی یہ سب سے بڑی سیاسی جماعت شاید اکیلی کراچی کی وارث تھی،لیکن اب اس جماعت کے مئیر اپنے عہدہ مدت کے ختم ہونے سے چند دن پہلے اپنے خطوط میڈیا کو دکھاتے ہوئے آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔

جس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ عوام انہیں بے اختیار سمجھ کر ان پر ترس کھائے اور انہیں ایک بار پھر سے بااختیار کرے۔
جانے دیجئے صاحب مسند مئیر کراچی ۔۔

کراچی والے جب اس جماعت کو عزیز رکھتے تھے تو انہوں نے کم و بیش ہی آپ اور آپ کی جماعت کے عہدیداروں کو قیمتی لباسوں میں ملبوس دیکھا تھا،ہم نے ماضی میں آپ کی جماعت کے ایم این اے، ایم پی اے، سیکٹر اور یونٹ انچارجز کو سڑکوں پر جھاڑو لگاتے عوام کی خدمت کرتے دیکھا تھا۔
آپ کن اختیارات کی بھیک مانگ کر عوام کے سامنے خود کو بے بس دکھارہے ہو؟؟
آپ کے عہدیداران قیادت کی چھینا جھپٹی میں، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں، ذاتی زندگیاں سجانے سنوارنے میں ایسا مصروف ہوئے کہ قوم کی اہلیانِ کراچی کی فکر کو پس پشت ڈال کر صرف اتنی آواز بلند کرتے رہے کہ آپ کا روزگار سیاست چلتا رہے ۔

یوں تو کراچی کے بہت سے ضمنی ورثاء بھی موقع کے منتظر رہتے ہیں کہ کب اقتدار انہیں ملے اور وہ کراچی کی باگ ڈور سنبھال کر اسے کھینچ کر چلائیں، ان میں قابل ذکر عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی ہیں ،عوامی نیشنل پارٹی کا کراچی میں ایک اچھا خاصہ ووٹ بینک بن چکا تھا کیونکہ ستر کی دہائی میں ایوب خان نے کراچی میں پختون آبادکاری کروائی اور اس شہر میں وسائل کی کمی کے باوجود مقابلہ بازی کا ماحول پیدا کیا، لیکن اے این پی نے کراچی کو ہمیشہ ایک کاروباری مرکز سمجھا جب کہ اس کا آبائی اور عزیز علاقہ ملک کا دوسرا صوبہ اور شہر ہی رہا،عوامی نیشنل پارٹی کی سیاست اب کراچی میں محدود ہوتی جارہی ہے کیونکہ اس کے متبادل تحریک انصاف اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے ۔

وہ تحریک انصاف جس کے سربراہ کے وعدے آپ پڑھ چکے ہیں بقیہ عہدیداروں کی شعلہ بیانی بھی کراچی کو جنت بنادینے سے نہ کم تھی اور نہ ہی اب کم ہوئی ہے، اب بھی جب وہ بولتے ہیں تو یہ کہ وفاق کے ہاتھ میں کچھ نہیں، آپ آج کراچی کو آئین کے آرٹیکل 149 شق نمبر 4 کے مطابق وفاق کا حصہ بنائیں کل وہ اس کو جنت بنادیں گے مکمل اختیار کے بغیر وہ کچھ نہیں کریں گے،
حقیقت الحال مکمل قبضے کے بغیر وہ کچھ کرنا نہیں چاہتے حتیٰ کہ وفاقی بجٹ میں بارہا حصہ رکھنے کے وعدے کے باوجود وہ کراچی کو اس کا جائز حق نہ دے سکے،

پیپلزپارٹی یعنی صوبائی حکومت کے ما تحت کراچی وہ سندھی ہاری بن کر رہ گیا ہے جس سے اس کا مالک بیگار کرواتا ہے۔جسے ہر صورت اپنے سائیں کے لئے پاؤں میں زنجیر پہنے دن رات محنت کرنی ہے اور بدلے میں فقط چند گھٹن زدہ آلودہ سانسیں اس کا مقدر ہیں۔اس پر بھی سائیں چیف صاحب مراد علی شاہ سب اچھا ہے کا راگ الاپتے ہیں۔
ہم نے دیکھا، ہم نے سنا ہم نے مان لیا کہ برسات میں چیف منسٹر اپنے کمفرٹ زون سے برساتی اور لانگ بوٹ پہنے باہر نکلے طارق روڈ اور اس جیسے بہت سے علاقوں کا دورہ کیا اور ہر چیز بہتر ہے کا جائزہ لیا۔۔چلیں ہم نے مان لیا کہ کراچی میں کہیں پانی نہیں بھرا تھا۔کراچی میں جاں بحق افراد کی افواہیں، حادثات کی افواہیں سب حکومت سندھ کے خلاف سازش تھیں
چیف منسٹر صاحب ہم نے مان لیا کہ آپ سے  زیادہ کوئی قابل نہیں ہے، آپ رات دیکھتے نہ دن بلکہ گھر گھر جاکر مصیبت میں پھنسے کراچی والوں کی فریاد رسی کرتے اور اشیاء خوردونوش پہنچاتے رہے،
ہم نے مان لیا کہ آپ اور آپ کی حکومت اس شہر کو حاصل کرنے کے لئے دن رات محنت کررہی ہے۔

کبھی مردم شماری میں اس شہر کی حقیقی آبادی کو کم کرکے شہر کا نقشہ ایسا بنایا جاتا ہے کہ حلقہ بندیاں آپ کی حکومت کے حق میں ہوں۔کہیں اضلاع کو توڑ کر نیا ضلع بناکر اپنا زبردستی کا مینڈیٹ تیار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور سرکاری صفحات کالے کئے جاتے ہیں۔ہم نے مان لیا کہ موجودہ بارشوں میں کراچی ڈوبا نہیں بلکہ بارش ہوتے ہی آپ کے بہترین نکاسی آب کی وجہ سے پانی مقررہ مقامات تک پہنچ گیا۔

ہم نے مان لیا کہ شہر کو بجلی کی فراہمی بلاتعطل کی گئی اور جن علاقوں میں بجلی بحال نہ ہوسکی تو اس میں بھی صرف عوامی ہمدردی پنہاں تھی، کےای ایس سی کی نااہلی اور بوسیدہ الجھی ہوئی کرنٹ پیدا کرتی تاروں کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا۔

اب جب ہم آپ کے تمام احسانات مان چکے ہیں تو آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ کراچی پر سے تھوڑی سی توجہ کم کردیجئے، کراچی کو کراچی کی مخیر عوام اور بہت سے فلاحی ادارے جو کورونا اور لاک ڈاؤن میں بھی عوام کو خوراک پہنچاتے رہے، ان کی ضروریات کا خیال رکھتے رہے اور بعد میں بھی عوام کی فریاد رسی کرتے رہے، یہ سب کراچی والوں سے مل کر کراچی کو سنبھال لیں گے
آپ اپنی توجہ تھوڑی سی اندرون سندھ کی جانب متوجہ کرلیجئے جہاں انسان نہیں انسانیت سیلاب میں بہہ رہی ہے

سندھ کے ضلع دادو  اور اس تحصیلیں جوہی، کاچھو یونین کونسل چھنی، ٹنڈو رحیم اس وقت آپ کی خصوصی توجہ کے منتظر ہیں۔جہاں کا آپ فضائی دورہ کرکے چند راشن کے ٹرک دکھاکر کر فوٹو سیشن اور ہدایات کے بعد رخصت ہوگئے تھے۔

یہ اضلاع اور اس کی تحصیلوں سے ملحق دو سو سے زیادہ دیہات پانی میں ڈوب چکے ہیں
علاقوں کو ملانے والی سڑکیں اہم سڑک واہی پاندی سمیت سب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر راستے عوام کے لئے بند کرچکی ہے۔وہاں لوگ آپ کی خصوصی توجہ کے طالب ہیں ،وہاں لوگوں کے لاکھوں مویشی جو ان کا ذریعہ معاش تھے سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔
وہ بے یارو مددگار کھلے آسمانوں کے نیچے بھوک پیاس سے تڑپ رہے ہیں،ان کے بیماروں کے بچ جانے کی کوئی امید نظر نہیں آتی کیونکہ وہاں شہروں تک ہسپتال تک پہنچنے کے لئے تمام راستے بند ہوچکے ہیں۔

اگر رب نے آپ پر حکومت کی عنائیت کرہی دی ہے تو اس کا حق ادا کریں، یہ علاقہ کراچی سے بہت دور ہے، اس علاقے کی جغرافیائی اہمیت کراچی جتنی تو نہیں لیکن یہاں بھی آپ کی اپنی رعایا انسانوں کی صورت بستی ہے۔وزیراعظم صاحب، وزیراعلیٰ سندھ اور دیگر اعلی عہدیداران اپنی رعایا کی خبر گیری کریں کہ وہ درختوں پر چڑھے آپ تک اپنی فریاد پہنچنے کی منتظر ہے ۔۔سائیں چیف منسٹر آپ اپنی تعریفیں کرنے میں کوئی ثانی نہیں رکھتے لیکن کچھ اصول تو باضمیر حکمرانوں سے سیکھیے ۔

جیسا کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا۔۔جب وہ اپنی رعیت کا جائزہ لینے گشت پر نکلے اور ایک بڑھیا سے عمر کے نظام کے بارے میں پوچھا۔بڑھیا نے پرشکوہ انداز میں کہا کہ عمر نے کبھی میری خبر گیری نہیں کی ،خدا اس کا بھلا نہ کرے۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا لیکن عمر کو کیا خبر کہ اس کے دارلخلافہ سے اتنی دور ایک مستحق بڑھیا اس خیمے میں رہتی ہے۔
وہ بولی سبحان اللہ ایک شخص لوگوں پر امیر مقرر ہو اور پھر وہ اپنی مملکت کے مشرق و مغرب سے ناواقف ہو تعجب کی بات ہے۔ یہ بات سن کر حضرت عمر ؓ رو پڑے۔ اور اپنے آپ ؓ کو مخاطب فرما کر بولے اے عمر ؓ  تجھ سے تو یہ بڑھیا ہی دانا نکلی۔

عمر اپنی بے خبری پر شرمندہ ہوکر رو سکتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں کی اکڑی گردنیں کبھی انہیں شرمندہ کرکے سر نہیں جھکانے دیں گی۔پاکستان میں موجود ہر حکمران بشمول وفاق و سندھ اپنے اپنے فرائض اور رعایا کی خبر گیری کریں ۔

کراچی اس وقت لوگوں کی توجہء قبضہ سے زیادہ اپنا حقیقی حق اپنی درست مردم شماری ،حقیقی رائے شماری  اور وسائل کی منصفانہ تقسیم  کے ذریعے چاہتا ہے۔کراچی کے حصول سے زیادہ کراچی کی تعمیر پر توجہ دیں بصورت دیگر قبضہ مافیا بننے کا خیال دل سے نکال دیں،کیوں کہ کراچی والے ملک کے کسی بھی حصے میں آنے والی قدرتی آفات میں سب سے پہلے اپنا حصہ ڈالنے پہنچتے ہیں 2005 کا زلزلہ ہو یا کوئی بھی آفت کراچی والوں کی خدمات پیش پیش رہی ہیں  ،اس مشکل وقت میں بھی وہ اپنوں کی مدد سے پیچھے نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کراچی کے لئے کچھ نہیں کرسکتے تو فقط سیاسی پوائنٹس اسکورنگ سے بھی گریز کریں  کیوں کہ کراچی والے کراچی سنبھال لیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply