نواز شریف بنام شہباز شریف۔نجم ولی خان

پیارے شہباز، سدا خوش رہو، تمہارا مکتوب ملا اور حالات سے آگاہی ہوئی، تمہاری دعاؤں اور نیک تمناؤں کا میری ہی نہیں تمہاری بھابھی کلثوم اور بھتیجی مریم کی طرف سے بھی بہت بہت شکریہ۔ ابھی مجھے لندن آئے ہوئے چند روز بھی نہیں ہوئے کہ وطن کی یاد ستانے لگی ہے مگر نجانے مجھے یہاں کتنے دن قیام کرنا پڑ جائے، ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا، وطن کی مٹی کے ساتھ ہمارا تعلق ختم نہیں ہو سکتا اور خاص طور پر اس مٹی کے ساتھ جس میں ہمارے پیارے والدمحو آرام ہیں جن کا تصوراورتربیت ہمیں آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ باندھے ہوئے ہیں۔ پیارے شہباز!میں تمہیں کیوں ڈانٹوں گا کہ یہ میری عادت ہی نہیں،میں تو جس سے ناراض ہوتا ہوں اسے دیکھ کے خاموش ہوجاتا ہوں، میں نے تو حمزہ کو بھی نہیں ڈانٹا کہ وہ این اے ایک سو بیس کے اہم ترین ضمنی الیکشن کے موقع پر کیوں غائب ہو گیا تھا۔

تم نے درست کہا کہ مسلم لیگ نون کو سب سے بڑی قومی جماعت کی حیثیت میں قومی اداروں سے تصادم نہیں کرناچاہیے ، یہاں پرویز مشرف کی مثال دی جاتی تھی کہ میں نے اس سے ہٹا کر اپنے بٹ صاحب کو آرمی چیف لگا دیا جس پر آئین تک کولپیٹ دیا گیا مگر اس مرتبہ تو میں نے کسی کو عہدے سے نہیں ہٹایا، ہاں، اتنا ضرور ہے کہ سابق آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی مگر میرے خیال میں اب اسے جرم نہیں بلکہ اعزاز سمجھا جانا چاہیے تھا مگر مجھے اس کے باوجود مجھے سزا دے دی گئی ۔ جب میں پوچھتا ہوں کہ مجھے کیوں نکالا توچند مسخروں کے علاوہ سب جانتے ہیں کہ میں کس سے کیا پوچھ رہا ہوں۔ اگر میرا قصور یہ ہے کہ میں پاک بھارت تعلقات کو اعتدال پر لانا چاہتا تھا تونظام کے تسلسل کی خاطر میں نے اس سوچ کوطاق پر رکھ کے روایتی زبان بولنا شروع کر دی۔ نریندر مودی کے پاکستان کے اچانک دورے کو اسی نظر سے دیکھا گیا جس نظر سے اٹل بہاری واجپائی کی بس کے ذریعے آمد کو دیکھا گیا تھا حالانکہ ان موقعوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے کی سیاست اور عوام کے حالات کو بدلا جا سکتا تھا۔

تم جانتے ہو کہ چار برس تک وزیر خارجہ کا تقرر کیوں نہ کیا گیاحالانکہ سفارتکاری جنگ سے ایک سو اسی درجے مخالف ایک عمل ہے۔ جب ٹکراو کی صورتحال پیدا ہوئی تو میں نے پرویز رشید اپنے جیسے جانثار اور وفادار ساتھی تک کی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا اور یہ قربانی میری ذات یا اقتدار کے لیے نہیں اس نظام کے لیے تھی جسے اس سے پہلے بھی بار بار لپیٹا جا چکا ہے۔ میں چاہتا تو سپریم کورٹ کے سامنے سرنڈر کرنے سے بھی انکار کر سکتا تھا کہ یہاں سیاستدان برس ہا برس سے مقدمات میں حاضر نہیں ہورہے، تاریخ پر تاریخ لیتے چلے جا رہے ہیں۔ مجھے مشورہ دیاگیا کہ عدالت کے اختیار سماعت پراعتراض کرکے معاملہ لٹکا دومگر میں نے ایسا بھی نہیں کیا، میں جے آئی ٹی کا بائیکاٹ بھی کر سکتا تھا اورمجھے مریم نے نیب کورٹ میں پیش نہ ہونے کا مشورہ دیا مگر میں نے اس وقت بھی وہاں حاضری دے ڈالی جب مجھے نشانہ بنا یا جا چکا تھا اور تمہاری بھابھی ہسپتالوں کے آئی سی یوز میں کینسر جیسے موذی مرض سے لڑ رہی تھی ۔ اس کے باوجود مجھ پر محاذ آرائی کا الزام دھرا جائے تو اس پر حیرت کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔

پیارے شہباز! میں تم سے اس صورتحال کے باوجود اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں محتاط بیانات جاری کرنے چاہئیں ، یاد کرو، میں نے جی ٹی روڈ پر عوام سمندر دیکھنے کے باوجود وہ زبان استعمال نہیں کی جو ہمارے مخالف ہمارے لیے استعمال کرتے ہیں۔ میرے رفقائے کار بار بار کہتے ہیں کہ ہم اداروں کی نہیں بلکہ افراد کی سازش کی بات کر رہے ہیں۔تم رینجرز کے احتساب عدالت میں پہنچنے اور بدتمیزانہ رویے پر خاموش رہنے کا کہتے ہو ، احسن اقبال نے جذباتی مگر اصولی بات کی،ہاں،اب وہ اس معاملے پر مزید اصرار نہیں کرے گا اور ہم تو اس وقت بھی خاموش رہے جب لاہور کے ضمنی انتخاب میں ہمارے کارکنوں کو اٹھایا جا رہا تھا، نہ ہم نے تب کسی کانام نہیں لیا اور نہ اب لے رہے ہیں۔ پنجاب اور وفاق کی حکمران جماعت اپنے ہی شہر کے حلقہ این اے ایک سو بیس میں ایک اپوزیشن پارٹی کی طرح الیکشن لڑ رہی تھی۔تم نے اختلافات پیدا کرنے والوں کے بارے میں لکھا ، میں جانتا ہوں کہ تم میرے خلاف کبھی نہیں جا سکتے کہ یہ ہمارے خون اور تربیت میں ہی نہیں ہے مگرمجھے تمہارے ساتھ ساتھ ان ارکان اسمبلی اور کارکنوں پر بھی فخر ہے جو میرے ایوان وزیراعظم سے نکالے جانے کے باوجودمیرے ساتھ ڈٹ کر کھڑے رہے۔ مسلم لیگ نون کے ارکان نے ا س سے پہلے گورنر راج اور دھرنوں کے دوران بھی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا اور اس آزمائش میں وہ ایک مرتبہ پھر سرخرو ٹھہرے ہیں۔ چودھری نثار علی خان سے پرانا تعلق ہے اور مجھے خوشی ہے کہ وہ بوجوہ میاں اظہر اور چودھری پرویز الٰہی نہیں ثابت ہو سکے۔

مجھے اتنا ضرور کہنا ہے کہ ہم سب ایک جسم کی مانند ہیں،کسی بھی جسم کے ہاتھ اوربازو مضبوط ہونے چاہئیں تاکہ وہ دشمن سے کامیابی کے ساتھ پنجا آزمائی کرسکیں مگر کسی بھی جسم میں کمزور دل اور دماغ بھی قابل قبول نہیں ہیں۔اداروں کے احترام کا فلسفہ سر آنکھوں پر مگر مہذب معاشروں میں پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں اور سیاسی جماعتیں بھی محترم ادارے سمجھی جاتی ہیں۔ پرویز مشرف کو اتارا جائے تو مارشل لاء لگ جائے اور پارلیمنٹ کے منتخب کیے ہوئے کسی ایک بھی سربراہ کو مدت پوری نہ کرنے دی جائے تو کیا اس کے ذریعے ادارے اور ملک مضبوط ہو سکتے ہیں، ہرگز نہیں۔میں ہروضاحت کو قبول کرتا ہوں مگر یہ تو بتایا جا نا چاہئے کہ یہ سب کچھ کہاں سے ریگولیٹ ہو رہا ہے۔تم نے کہا ،ہمیں تاریخ کا اسیر نہیں ہونا چاہئے اور میں کہتا ہوں کہ ہمیں اپنی تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے ورنہ ہم اپنی پرانی غلطیاں اسی طرح دہراتے اور نقصان اٹھاتے رہیں گے۔ مجھے افسوس ہے کہ صرف کلثوم نواز کو ہرانے کے لئے ملی مسلم لیگ اور تحریک لبیک یار سول اللہ جیسی جماعتوں کی سرپرستی کی گئی اور یہ تجربہ بھی ماضی میں سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد کی صورت میں ہم کر چکے اور اس کے بدترین نتائج بھگت چکے ہیں۔ مجھے پاک فوج میں ان محب وطن، بالغ نظر پروفیشنلز کا ضرور شکریہ ادا کرنا ہے جنہوں نے انتہائی اعلیٰ سطح پر کہا کہ فوج کو مارشل لاء نہیں لگانا چاہئے کہ پاک فو ج کو جو نقصانات پرویز مشرف کے دور میں ہوئے ابھی تک ان کاہی مکمل ازالہ نہیں ہو سکا۔ عوام اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں مگر اس کامطلب جمہوریت کی نفی ہرگز نہیں۔میں اگرعشروں پرمبنی اپنے تجربات کی روشنی میں یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہمارے قومی ادارے سیاسی معاملات میں فریق نہ بنیں تو یہ عین ان سے محبت اور عقیدت ہے، فوج ہو یا عدلیہ، یہ پوری قوم کے ادارے ہیں اورکچھ مسترد یا غیر مقبول سیاستدانوں کو ان کے ترجمان یا ایجنٹ ہونے کا تاثر بھی نہیں دینا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پیارے شہباز! سیاست کے دشت میں عمر بھر کی سیاحی نے یہی سکھایا کہ ہمیں عوام کے حق حاکمیت سے ہرگز دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان برصغیر کے رہنے والوں کی رائے اور مشورے سے بنا تھا، کوئی بھی ریاست اپنے شہریوں کے وجود اور رائے کو روندتے ہوئے ہوئے محض جغرافیے کی بنیاد پر ریاست کا درجہ برقرارنہیں رکھ سکتی۔ مجھے بہت خوشی ہو گی اگر ہمارے ادارے آئین اور قانون کے تحت اپنے اپنے دائرے میں کام کریں گے ۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق ہے کہ کسی سیاستدان کو کسی عدالت یا کسی مینجمنٹ کے ذریعے نہیں نکالا جا سکتاجب تک وہ وہ خود سرنڈر نہ کرجائے ۔ میرے ملک کے عوام نے مجھے عزت، شہرت اور اقتدار سے نوازا، میں اپنے عوام کے احسانات کا بدلہ ضرور چکاوں گا۔ میں نے، تم نے اور ہماری پوری ٹیم نے دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ کے خاتمے سمیت عوامی مسائل کے حل کے لیے دن رات کام کیا ہے، سی پیک کے ذریعے ایک تعمیر اور ترقی کے ایک نئے مستقبل کی بنیاد رکھی ہے۔ میں پھرکہوں گا کہ میں محاذ آرائی اور تصادم نہیں چاہتا ، میں چاہتا ہوں کہ ایوب دور سے جاری سیاستدانوں کے جعلی احتساب کی بجائے عوام کو ووٹ کے ذریعے حکمرانوں کے حقیقی احتساب کا حق دیا جائے، ہاں، اگر میرے ملک کے عوام آزادانہ اور منصفانہ انتخابات میں مجھے مسترد کر دیں گے تو میں ہرگز یہ نہیں پوچھوں گا کہ مجھے کیوں نکالا مگر اس طرح نکالا جانا کبھی قبول نہیں کروں گا۔ والسلام۔ تمہارا بھائی۔ محمد نواز شریف ۔ حال مقیم لندن،برطانیہ ( نوٹ: اس خط کو بھی کالم نگار کی بجائے قارئین اپنی ذمہ داری پر حقیقی سمجھیں)

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply