• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پشاور جلسے میں منظور پشتین کی تقریر کے غور طلب نکات۔۔۔۔ خالد داؤد خان

پشاور جلسے میں منظور پشتین کی تقریر کے غور طلب نکات۔۔۔۔ خالد داؤد خان

1۔ فی الحال عدم تشدد اور بہت احترام سے تمھیں سمجھایا جا رہا ہے، تمھیں نعرے سے تکلیف ہے لیکن نعرہ ایک معمولی سی چیز ہے ۔ پشتون نوجوان تو ابھی ریہرسل کر رہے ہیں ۔ وہ وقت آئیگا جب تم لوگ یہ نعرہ بھول جاؤگے ، تمھارے اگردو ہاتھ ہیں تو میرے بھی دو ہی ہاتھ ہیں، تمھاری دو ٹانگیں ہیں تو میری بھی دو ہی ٹانگیں ہیں، تمھارا بھی ایک ہی سر ہے اور میرا بھی، دو آنکھیں تم بھی رکھتے ہو اور میں بھی۔ فرق صرف ایک بندوق کا ہی بچتا ہے ، جس دن کسی نے یہ بندوق تم سے چھین لی تو کیا رہ جائیگا تمھارے پاس۔

2۔ پشتون آج اپنے وطن کے اصل جغرافیہ، تاریخ اور مسائل سے بے خبر اور تقسیم ہو چکا ہے۔ صرف ایک نوکری کے لالچ میں ہم سکول اور یونیورسٹی جاتے ہیں جہاں تم میرے ذہن میں اپنا جھوٹا مطالعہء پاکستان بھر دیتے ہو، میں علم کے حصول کیلئے جاتا ہوں اور وہاں تم مجھے اپنے وطن کے قائداعظم اور اپنے وطن کے علامہ اقبال کا جھوٹ جبراً  پڑھاتے ہو۔ اس تعلیم کی بدولت تم نے مجھ سے میرا باچہ خان، خان شہید، ایپی فقیر اور سب سے عظیم لیڈر احمد شاہ ابدالی مجھ سے چھننے   اور میرے ذہن سے نکالنے کی کوشش کی۔ تمھارے اندر کسی قسم کی غیرت اور حیاء باقی نہیں رہی ہے۔

3۔ تم ڈرپوک ہو، جنگ شروع کرکے خود پیچھے ہٹ جاتے ہو اور ہمارے پولیس اور لیویز کو لڑنے کیلئے آگے کر دیتے ہو جو ہم میں سے ہیں۔ تمھارے اندر لڑنے کا حوصلہ ہی نہیں ہے۔ بس دیکھتے جائیں ، پوری دنیا میں ان کا تماشا  بنا ہوا ہے۔ تم نے پشتونوں کے وطن میں دہشت گردی پیدا کی، پھر اس دہشتگردی کو ختم کرنے کا بہانہ بنا کر پشتونوں کے وطن پہ قبضہ کرنا چاہا، ان کے گھر اور وسائل کو ہتھیانا چاہا۔ تم سوات دہشتگردی مٹانے نہیں ، ان کے وسائل پہ قبضہ جمانے آئے تھے۔ تم نے اپنے دوست فضل اللہ کو یہاں بٹھا کر یہاں کی معدنیات لے جانے کی کوشش کی۔ تم یہاں صرف اپنی چھاؤنیاں بنانے آئے تھے، خدا کی قسم میں تمھیں یہ چھاؤنیاں بنانے نہیں دوں گا۔ تم نے پشتونوں کو توڑنے کی کوشش کی لیکن دیکھو آج پشتون ایک مٹھی ہو چکے ہیں، دیکھو اور جلتے رہو۔

4۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ پی ٹی ایم کے 5 مطالبات ہیں ۔ ارے، 5 مطالبات تو ایم ٹی ایم (محسود تحفظ موومنٹ) کے کبھی ہوا کرتے تھے، پی ٹی ایم کے تو بیسیوں مطالبات ہیں۔ تم جب مجھ سے مذاکرات کروگے تو پشتون دھرتی کے ایک ایک تنکے کا حساب دینا پڑے گا۔ اے پشتون نوجوانو۔۔۔۔۔ سنو، سنو۔۔۔ ایک بات تو میں نے آج تک تم سے چھپا رکھی ہے، تفصیل اب بھی نہیں بتاؤں گا ، صرف شہ سرخی سن لو۔۔ تمھارے وطن کی عصمتوں کا قصہ ابھی میں نے نہیں کیا ۔ صرف اتنا سن لو کہ تمھارے وطن کی سرخ و سفید پشتون لڑکیوں کی عصمتیں انہوں نے پامال کی ہیں، یہ قصے تو ابھی تک ہم نے کیے  ہی نہیں، اس لئے کہ بات اگر حقوق تک ہی محدود ہوتی تو انصاف مانگوں گا لیکن عزت لوٹنے کا جواب انصاف نہیں ، گردن اڑانا ہوتا ہے۔ یہ کام جس جس نے بھی کیا ہے ، کان کھول لو، ہم ایک ایک کو جانتے ہیں، سب کی فہرستیں ہمارے پاس ہیں۔ آج فاٹا ، ڈی آئی خان اور دیگر کینٹ ایریاز میں جو کچھ چل رہا ہے اسکا تو مجھے نہیں پتا  لیکن ان نوجوانوں کو میں نے اگر “وہ” کہانیاں بتا دیں تو خدا کی قسم تمھاری گردن نہیں بچے گی۔ بنگال میں تم 91 ہزار پتلونیں چھوڑ کر بھاگے تھے-قسم خدا کی، یہاں 3 لاکھ پتلونیں چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا۔

5۔ میرے نوجوانو !! ہم اپنی غربت کی وجہ سے آج اپنا جغرافیہ، اپنی مٹی اور اپنی زبان بھول بیٹھے ہیں۔ ایک نوکری کو بچانے کیلئے ہم چپ ہو جاتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہوگا، تمام نوکر پیشہ لوگوں نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ جس دن تم نے اعلان کیا، ہمارا استعفی بھی اسی دن آئیگا۔سن لو، اس وطن کے بچوں کو تم کبھی نہیں اپنا سکتے۔کسی کو “گل خان” کا طعنہ مت دو، یہ سب ہمارے پشتون بھائی ہیں۔ اگر یہ سمجھ گئے تو دیکھ لینا ، انہیں مارنے کیلئے یہ تم سے بھی آگے ہونگے۔ جگہ جگہ مظاہرے اور دھرنے ہو رہے ہیں چاہے فاٹا ہو، خیبر پختونخوا  ہو یا بلوچستان کے پشتون علاقے، ہر جگہ پشتون عوام ان کے سامنے کھڑی ہو چکی ہے۔ اب جلد ہی ایک بڑا لائحہ عمل سامنے آئیگا جس کے لئے ہم نے کوششیں تیز کر دی ہیں جسکے لئے میں تمام مشیران سے عاجزانہ اپیل کرتا ہوں کہ آپ سب ہمارا ساتھ دیں تاکہ ایک متفقہ فیصلہ کیا جاسکے۔ جب تک پچھلے تمام واقعات کی تحقیق نہیں ہو جاتی، ہمارے وطن کے بچے ،چاہے وہ لیویز میں ہیں یا پولیس میں، تمھارے لئے مزید کسی قسم کی ڈیوٹی سرانجام نہیں دیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

6۔ میرے دوستو ۔ ۔۔ ہمارے حصے میں تو لاشیں آئیں، ویران گھر آئے، بربادی آئی لیکن ترقی کہیں اور چلی گئی۔ پاکستان میں 11 موٹر وے بن گئے اور 11 کے 11 پنجاب میں۔ یہاں ایک معلومات آپ سے شئیر کرنا چاہوں گا کہ پاکستان میں ٹیکس کی سب سے بڑی کمائی “کرک ہائی وے” سے وصول کی جا رہی ہے جسے ہیوی لوڈ سے برباد کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر اس ہائی وے پہ معصوم پشتون حادثوں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ یہاں سے ٹیکس وصول کر کے تم نے اپنی دھرتی آباد کر لی اور میری برباد۔ یہ مسئلہ دہشتگردی سے بھی  ز یادہ سنگین ہے۔ ہمارا پشاور تم نے برباد کر کے رکھ دیا، اس لائق بھی نہ چھوڑا کہ یہ پشتونوں کو روزگار دے سکے۔ بیچارے سارے پشتون روزگار کی تلاش میں لاہور، فیصل آبار اور کراچی جانے پر مجبور ہیں۔ اے لاہور، اے راولپنڈی۔۔۔ تمھیں شرم آنی چاہیئے کہ اس تاریخی دھرتی کا اختیار و اقتدار ہم نے تمھارے ساتھ شریک کیا لیکن تم نے اس کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ اگر تم یہی کھیل کھیلو گے تو میں مزید اسے تمھارے ساتھ شریک رہنے نہیں دو ں گا، پھر اس تاریخی دھرتی کا مکمل اختیار ہم اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔
آخر میں آنے والے جلسوں اور دھرنوں کے بارے میں مختصر بات کی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply