چھڑی اور ناک۔۔عزیز خان

ایک آدمی سڑک پر جا رہا تھا اُس کے ہاتھ میں چھڑی تھی جس کو زور زور سے گھما رہا تھا چھڑی کی نوک ایک راہگیر کی ناک پر لگی تو اُس نے غُصے کا اظہار کیا پہلا شخص بولا اُسے آزادی ہے جیسے چھڑی گھمائے راہگیر بولا بالکل آپ کو آزادی ہے پر آپ کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے۔

کچھ دن قبل رہبر کمیٹی کے معزز ممبران جس میں تمام پارٹیوں کے لیڈرز بھی تھے عمران خان کی ذاتی زندگی اور اُس کی بیوی پر باتیں کر کے ہنس رہے تھے کیا باتیں اُن کو زیب دیتی ہیں؟

اسی طرح نواز شریف نے اپنی حکومت میں بے نظیر بھٹو کی کردار کشی کی۔۔عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم نے مریم نواز کے کردار پر باتیں کیں اب تو سوشل میڈیا پر کسی کی عزت محفوظ نہیں،پہلے سیاست میں رواداری ہوتی تھی مگر اب لیڈر ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر ایک دوسرے کوگالیاں تک دیتے ہیں جب لیڈر ایسا کریں گے تو اُن کے کارکُنوں سے کیا اُمید رکھی جا سکتی ہے۔

سوشل میڈیا پر مادر پدر آزاد کمنٹس پڑھ کر شرم آتی ہے اپنی سیاسی پارٹی اور لیڈروں کی محبت میں ایک دوسرے کے بارے میں گندی گالیاں دینا روز کا معمول بن چُکا ہے۔اپنے اداروں اور اُن کے سربراہوں کے بارے میں ایسے ایسے کمنٹس پڑھنے کے ملتے ہیں کہ اگر وہ خود  پڑھ لیں تو خود کشی کر لیں ،فیصلہ اپنے حق میں آئے تو سب اچھا،خلاف آئے تو سب بُرا ؟
ہم اپنی فوج کو بھی معاف نہیں کرتے جس کی وجہ سے یہ مُلک محفوظ ہے۔۔

میں نے جب سے ریٹائر منٹ کے بعد لکھنا شروع کیا اور معاشرے کی اصلاح کے لیے تحریریں لکھیں تو ہر تحریر پر جہاں میری حوصلہ افزائی کی گئی وہاں تنقید بھی ہوئی ۔۔۔تنقید برائے اصلاح براداشت ہوتی ہے مگر جب تنقید برائے تنقید کی جائے تو دکھ ہوتا ہےاور یہ کمنٹس کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ
جب پولیس ملازمت میں تھا تو مزے لوٹتا رہا اور اب نصیحتیں کر رہا ہے ؟کوئی بولا ہر آدمی جب ریئاٹرڈ ہوتا ہے تو اپنے آپ کو دانشور سمجھ لیتا ہے ایک کمنٹ یہ بھی تھا کہ ڈی ایس پی صاحب نے خود تو بڑی رشوت لی مگر اب ہمیں رشوت کی برائیاں بیان کرتے ہیں ۔

بات یہ نہیں ہے جن حالات میں ، میں نے ملازمت کی اور جن وسائل میں ہم نے گزارا کیا وہ بہت برے تھے ۔آج محکمہ میں گاڑیاں بھی ہیں ، تھانوں کی نئی عمارتیں اور ان میں رہنے کے لیے بیرکس بھی بنائی گئیں ہیں۔ اگر آج کے حالات کا اس وقت کے حالات سے موازنہ کیا جائے تو کافی بہتر ہیں۔

میں نے کبھی نہیں لکھا کہ میں ایماندار تھا مگر میں ان ایمانداروں سے بہترہوں جو ایمانداری کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور ہر طرح کی کرپشن کرتے ہیں ۔وہ تو انسانوں کے ساتھ اللہ کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کرتےہیں ۔۔میں نے جو بھی کیا اور جو کر رہا ہوں اُس پر میرا ضمیر مطمئن ہے

میں جو لکھ رہا ہوں یہ میرے دل کی آواز ہے نہ تو مجھے کوئی لالچ ہے اور نہ ہی شہرت کی آرزو۔میں اپنی زندگی میں بہت کچھ کرچُکا ہوں اچھے اور برے حالات سے بھی گزرا ہوں مگر میں نے جو کچھ کیا اپنے زور بازو پر کیا کسی کے در پر جاکے منتیں نہیں کیں اور نہ ہی اپنے ضمیر کو بیچا۔اگر انسان سمجھ لے کہ عزت، زلت ،زندگی ، موت،رزق ، پوسٹینگ ، ٹرانسفر صرف اللہ کے ہاتھ میں ہےتو شاید اُسے کسی کے آگے جھکنے یا ہاتھ پھیلانے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔

میری تحریریں محکمہ پولیس میں آنے والے نئےنوجوانوں کے لیے ہیں کہ وہ اپنے حق کی خاطر آواز بلند کریں جو دوران ملازمت میں نہیں کرسکا ملازمت کے شروع کے سالوں میں آپ بہت کچھ کرسکتے ہو مگر آہستہ آہستہ یہ محکمہ انسان کو اندر سے کرپٹ بنانا شروع کردیتا ہے۔۔
رشوت لینا بُرا نہیں لگتا افسران کے حکم پر غلط کام کرتے ہیں پھر ساتھ اپنے مفادات بھی شروع ہو جاتے ہیں اوردل میں ڈر بیٹھ جاتا ہے کہ اگر یہ ملازمت نہ رہی توکیا ہوگا۔۔ہمیں تو کبھی کسی پولیس آفیسر نے یہ نہیں بتایا تھا کہ رشوت نہیں لینی چاہیے بلکہ تھانہ پر کماؤ پوت ہی سب کو اچھا لگتا تھا اور اب بھی لگتا ہے۔
Acr ہر سال نہیں ملتی بلکہ افسران کے پیچھے جا کر لینی پڑتی ہے ؟پروموشن کیسے ہوتی ہے کوئی مدت نہیں ہے ؟ ملازمت میں کوٹہ بھی ہوتا ہے جوپی ایس پی اور رینکرز کو ان کا حق برابر ملتاہے؟؟
مگر آج سوشل میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے نوجوانوں کو بہت شعور دیا ہے وہ اس سے ضرور فائدہ اٹھائیں اور اپناحق لینے کی کوشش کریں ۔

دوستوں سے بس یہی درخواست ہے کہ سوشل میڈیا پر کسی بھی انسان کی ذاتی زندگی کو کیچڑ مت اُچھالیں اُس کے کام پر تنقید کریں یہ دیکھیں کہ وہ جو کچھ لکھ رہا ہے اس میں کتنی سچائی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تنقید کریں تنقید برائے تنقید نہ کریں اور دوسرے کی ناک کا خیال کریں؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply