عیسائی باپ کی وراثت۔۔۔محمد طفیل ہاشمی

اگر کسی کا باپ عیسائی ہو اور بیٹا مسلمان ہو تو کیا بیٹے کو باپ کی وراثت میں سے حصہ ملے گا؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے بارے میں پہلے سے موجود کتب فقہ میں جواب کو اس دور کے سیاسی اور سماجی حالات کے پس منظر میں دیکھنا ضروری ہے.
کتب فقہ یہ بتاتی ہیں کہ مسلمان اور غیر مسلم میں وراثت جاری نہیں ہو سکتی یعنی وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے خواہ ان میں قرابت کا تعلق ہو یا نکاح کا. فقہاء اربعہ کی یہی رائے ہے. ان کی دلیل یہ حدیث ہے لا یرث المسلم الکافر ولا الکافر المسلم (نسائ کے سوا تمام کتب صحاح میں موجود ہے) نیز ایک دوسری حدیث میں ہے دو مختلف مذاہب کے افراد ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے (احمد، ابوداؤد، ابن ماجہ) اس رائے کی عقلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ولایت یعنی باہمی تعاون و تعلق جو وراثت کی اساس ہے ان میں باقی نہیں رہتا.
حضرت معاذ، امیر معاویہ، محمد بن حنفیہ، حسن بصری، محمد بن علی بن حسین اور مسروق کی رائے یہ ہے کہ مسلمان غیر مسلم کا وارث ہوگا لیکن غیر مسلم مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا. ان کی دلیل یہ حدیث ہے الإسلام یعلو ولا یعلی. (دارقطنی ،بیھقی) شیعہ امامیہ، ابراہیم نخعی، سعید بن المسيب اور عبداللہ بن مغفل کے مطابق بھی مسلمان غیر مسلم کا وارث ہوگا لیکن بر عکس نہیں.
اگر اس ضمن میں قرآن حکیم کی طرف مراجعت کی جائے تو قرآن نے وراثت کی تقسیم کے جو احکام دئیے ہیں وہ سورہ النساء کے دوسرے رکوع میں ہیں اور سورہ کا آغاز یاایھالناس سے کیا گیا ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورہ میں دئیے گئے احکام اگر مالی، دیوانی یا فوجداری نوعیت کے ہیں تو ان کا اطلاق عمومی ہوگا البتہ ایمانیات اور عبادات کا تعلق صرف مسلمانوں سے ہوتا ہے. ایسے مسائل کو اس حوالے سے بھی دیکھنا چاہئیے کہ جس دور میں دارالاسلام اور دارالحرب کی جنگی صورت حال تھی اور ممالک بین الاقوامی معاہدات کے پابند نہیں تھے تو دوایسی ریاستوں کے شہری جن میں سے ایک اسلامی اور دوسری غیر اسلامی ہو ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے تھے لیکن اب یہ کہنا کہ باپ بیٹے میں سے ایک پاکستانی اور دوسرا برطانیہ /امریکہ کا شہری ہے اور وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکیں گے حالات کے بدلنے سے احکام کی تبدیلی کے اصول سے صرف نظر کرنا ہے.
میری ذاتی رائے میں جس طرح ہم سب لوگ بین الاقوامی شہریت کے حامل ہونے کے باعث دور قدیم کے حالات سے نکل آئے ہیں ہمیں اپنے حالات کے مطابق مقاصد شریعت کے مطابق فیصلے کرنے چاہیے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply