سینیٹ الیکشن اور میرا خواب۔۔ محمد اسلم خان کھچی ایڈووکیٹ

آج صبح میں نے خواب سنایا کہ صادق سنجرانی صاحب الیکشن جیت رہے ہیں۔
خواب کے بعد اور خواب سے پہلے کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ سینیٹ الیکشن کے بعد ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے سے کوسوں دور ہو گئے ہیں۔ شاید محترمہ مریم صفدر صاحبہ کو شدت سے احساس ہو گیا ہے کہ محترم جناب آصف علی زرداری صاحب انہیں دھوکہ دے گئے ,دوسرے لفظوں میں ن لیگ پہ بھاری پڑ گئے ہیں۔
یہ زرداری صاحب کا ہی حسن ِ کمال ہے کہ دہائیوں سے سیاسی حریف نوازشریف صاحب کو ایک ہی سیاسی چال سے آسمان سے زمین پہ لے آئے۔

پی ڈی ایم کی جاری تحریک کے دوران کراچی جلسہ کے بعد ہی میں نے عرض کر دیا تھا کہ زرداری صاحب ن لیگ کو داغ مفارقت دینے جا رہے ہیں۔ کراچی جلسہ کے بعد بلاول بھٹو زرداری صاحب اچانک جارحانہ موڈ ترک کر کے موافقانہ موڈ پہ آ گئے ۔ وقت گزرتا رہا۔ زرداری صاحب بیماری سے متاثرہ منظر ِ عام سے ہٹتے ہوئے اپنے سارے گْر بلاول زرداری صاحب کو منتقل کر کے گوشہ نشیں  ہو گئے۔

پھر اچانک صحت مند ہوئے اور نہ جانے کونسی گیدڑ سینگھی سونگھائی کہ ساری ن لیگ شاہد خاقان عباسی, رانا ثناءاللہ صاحب اور محترمہ مریم صفدر صاحبہ انکے معتقدین میں شامل ہوتے ہوئے محترم جناب سید یوسف رضا گیلانی صاحب کے مریدین میں بھی شامل ہو گئے۔ مخدوم زادہ صاحب سید یوسف رضا گیلانی صاحب سے محبت کا یہ عالم ہو گیا کہ پوری ریاست کو الٹ پلٹ کر کے انہیں سینیٹر منتخب کروالیا۔
زرداری صاحب اس ” جادوگری ” پہ تحسین کے مستحق ہیں ۔

سید یوسف رضا گیلانی صاحب کی کامیابی کی خوشی پیپلزپارٹی تو مسلسل منائے جا رہی ہے لیکن ن لیگ کے سر سے جیت کا نشہ دوسرے دن ہی اتر گیا جب انہیں اندازہ ہوا کہ وہ اتنی سنگین غلطی کا ارتکاب کر بیٹھے ہیں جسکا ازالہ ممکن ہی نہیں۔
پیپلزپارٹی کیلئے سید یوسف رضا گیلانی صاحب چیئرمین سینٹ منتخب ہوں یا نہ ہوں۔ اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ زرداری صاحب نے جو حاصل کرنا تھا۔ کر لیا،
اب ذرا یوسف رضا گیلانی صاحب کے منتخب ہونے سے پہلے کے سنیریو پہ نظر ڈالتے ہیں۔

پی ڈی ایم کی تحریک زوروں پہ تھی۔ پلان کے مطابق لانگ مارچ کے دوران ہی تحریک عدم اعتماد پیش کی جانی تھی اور یہ حقیقت ہے کہ اگر بیس تیس ہزار لوگ اسلام آباد لا کر بٹھا دیئے جاتے۔ تحریک عدم اعتماد پیش کی جاتی تو یقیناً یا تو تحریک کامیاب ہو جاتی یا پھر پرائم منسٹر اسمبلیاں توڑ کے عوام سے رجوع کرتے۔ دوبارہ الیکشن کی صورت میں عمران خان اور مریم نواز صاحبہ میں کانٹے کا مقابلہ ہوتا لیکن پیپلزپارٹی کیلئے مسئلہ یہ تھا کہ فوری الیکشن کی صورت میں پیپلز پارٹی کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ زیادہ سے زیادہ پنجاب سے 10 سے 15 سیٹیں نکال پاتی۔۔لیکن سیاست کے عظیم کھلاڑی ” زرداری صاحب ” نے شطرنج کی ایسی چال چلی کہ گھوڑے پیادے بن گئے اور پیادے کہیں گہری گھاٹیوں میں گر کے گم ہو گئے۔ سینیٹر کی سیٹ لیکر ریاست پاکستان کو ایک پیغام بھی دے گئے کہ ابھی میں زندہ ہوں۔ سندھ حکومت بچا گئے اور پنجاب میں پارٹی کی ازسرنو تنظیم سازی اور نئی حکمت عملی مرتب کرنے کیلئے وقت بھی حاصل کر لیا۔

اس سارے عمل میں ن لیگ نے سب کچھ کھو دیا۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ ” نوٹ کو عزت دو ” کے نیچے دب گیا۔ خریدوفروخت کے بازار سجے اور ن لیگ کو ہی مورد ِ الزام ٹھہرایا گیا۔ سنا ہے کہ 160 ارب روپے خرچ ہوئے۔
جنگ کا اصول ہوتا ہے کہ جنگ جیتنے کیلئے کم از کم تین پلان بنائے جاتے ہیں۔ ضمیر فروشوں کے تعاون اور ممکنہ جیت کی خوشی میں ن لیگ شاید پلان A تک محدود رہی لیکن مقابلے میں حکومت کے پاس ممکنہ شکست کی صورت میں پلان ( A-B-C ) بھی تھا۔

پرائم منسٹر نے شکست کی صورت میں فوری طور پہ پلان ( B) پہ عمل کرتے ہوئے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کر دیا۔ یہ واقعی ایک خطرناک فیصلہ تھا۔ کچھ بھی ہو سکتا تھا لیکن شاید سیاست اسی کو کہتے ہیں۔ پرائم منسٹر جیت گئے ۔پی ڈی ایم پہلے ہی اپنی جیت پہ افسردہ تھی ۔اس نے بائیکاٹ کر دیا۔ پرائم منسٹر 178 ووٹ لیکر دوبارہ پرائم منسٹر بن گئے ۔کہتے ہیں سیاست میں ٹائمنگ بڑی اہم ہوتی ہے۔ پرائم منسٹر کا صحیح ٹائم پہ صحیح فیصلہ انکی جیت کا سبب بنا اور وہی ٹائمنگ پی ڈی ایم کے زوال کا سبب بنی۔ نہ حکومت گری۔ نہ لانگ مارچ ہوا بلکہ عمران خان کو 6 ماہ مزید مل گئے۔ اب نئی جنگ کیلئے وہ نئی صفیں ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔

پچھلے تین دن سے ن لیگ اعلیٰ  اخلاقی جمہوری اقدار کی باتیں کرتی نظر آرہی ہے۔ شاہد خاقان عباسی صاحب اور جناب احسن اقبال صاحب کو خدشہ ہے کہ جس طرح سید یوسف رضا گیلانی صاحب کو سینیٹر بنوانے کیلئے ووٹ خریدے گئے تہے۔ اب چیئرمین سینیٹ کیلئے وہی منڈی اب دوبارہ سجنے والی ہے۔ انہیں بہت اعتراض ہے۔ وہ مطالبہ کر رہے ہیں  کہ اعلیٰ  اخلاقی جمہوری روایات کی پاسداری کیلئے ” مقتدر حلقوں ” کو منڈی کی روک تھام کیلئے کوشش کرنی چاہیے۔۔ ویسے کتنی دلچسپ بات ہے کہ چند دن پہلے کے خریدار اب بکنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

ن لیگ کے مولانا عبدالکریم صاحب تو چند قدم اور آگے نکل گئے کہ کوئی وٹس ایپ پہ کال کر رہا ہے
جناب محترم مولانا صاحب سے سوال ہے کہ کون کال کر رہا ہے ؟
کوئی جنرل کال کر رہا ہے ؟
آخر نام تو بتایا ہو گا کہ میں کون ہوں۔۔۔ تعارف تو کرایا ہو گا کیونکہ وٹس ایپ تو ” بشیرے چاچڑ ” کے پاس بھی ہے جو سارا دن بکریاں چراتا ہے ۔ فون چارج کرنے کیلئے کمر پہ سولر انرجی پینل لگائے سارا دن بکریاں بھی چراتا ہے اور وٹس ایپ کالز بھی کرتا رہتا ہے۔ جب مولانا صاحب نے اتنی ہمت کر ہی لی تو کم از کم نام تو بتا دیتے۔

حافظ عبدالکریم کو اگر کوئی نہیں جانتا تو اس کا میں بتادوں کہ موصوف نے ڈیرہ غازی خان میں ایک یونیورسٹی بنائی جس کو ایچ ای سی سے منظور نہیں کروایا گیا ۔ بچوں کو ایڈمیشن دیکر ان سے پیسے بٹورے گئے ۔ ان کا مستقبل داؤ پر لگادیا۔۔وہ یونیورسٹی اسی باریش بزرگ حافظ عبدالکریم صاحب کی تھی۔ یونیورسٹی کا نام انڈس یونیورسٹی تھا۔۔اس وقت یہ ایم این اے تھا تو معصوم غریب طالبعلموں کو اربوں کا چونا لگا گیا۔ نواز شریف صاحب نے شاید اسی قابلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں سینیٹر بنوانے کا فیصلہ کرلیا۔

یہ ممکن نظر آتا ہے کہ نیب سے طلبی کی کال آگئی ہو, کیونکہ یونیورسٹی فراڈ اور زیتون ہوٹل کے بعد مولانا صاحب کا شمار ارب پتی افراد میں ہوتا ہے۔ ن لیگ کے اپنے دور میں ہی انکے خلاف نیب میں کرپشن کے کیسز شروع ہو گئے تھے جو ابھی تک چل رہے ہیں چونکہ یہ پاکستان ہے۔ اربوں روپے ہڑپ کرنے والوں کی جنت ہے تو یہ کیس بس چلتے ہی رہتے ہیں۔ کچھ نتیجہ نہیں نکلتا اور ویسے بھی 800 سی سی سوزوکی کار میں بغیر سکیورٹی ایڈیشنل سیشن جج لیول کا ” احتساب جج ” بھلا انکا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ مرحوم ارشد ملک صاحب کا انجام ہم سب دیکھ ہی چکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آج سینٹ  الیکشن ہے۔ پچھلے ایک ہفتے سے ہی پوری قوم ہیجان کا شکار ہے۔ شرطیں, دشمنیاں, ایک دوسرے سے دوریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ محترم جناب سید یوسف رضا گیلانی صاحب جیتیں گے۔ کوئی صادق سنجرانی صاحب کی جیت کی امید لگائے بیٹہے ہیں۔ کل میرے ایک بہت ہی پیارے دوست شیخ سلیم صاحب جو سید یوسف رضا گیلانی صاحب کے بہت پیارے اور قریبی دوست ہیں وہ بڑے ایکسائیٹڈ تہے کہ گیلانی صاحب جیتیں گے۔ ویسے اگر آپ سچ پوچھیں تو دل میرا بھی یہی چاہتا ہے کہ گیلانی صاحب چیئرمین سینیٹ بن جائیں۔ بلامبالغہ کہتا ہوں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت نفیس اور شاندار انسان ہیں۔ انتہائی شریف النفس ہیں۔ انکے در پہ دوست دشمن سب ایک جیسے ہیں۔ کوئی بھی چلا جائے۔ بہت محبت اور مسکراہٹ سے ملتے ہیں۔ تکبر سے عاری عاجز انسان ہیں۔ بڑے دکھ سہے ہیں۔بیٹا کئی سال طالبان کی قید میں رھا۔ لوگوں کو روزگار دینے کی پاداش میں لمبی جیل کاٹی ہے۔ میرا بہت دل چاہتا ہے کہ وہ چیئرمین سینیٹ بن جائیں ۔ میرے ہمسائے بھی ہیں
لیکن اس خواب کا کیا کروں جو میں نے دیکھا کہ
یوسف رضا گیلانی صاحب الیکشن ہار رہے ہیں۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ مریم صاحبہ کے تین لوگ سید یوسف رضا گیلانی صاحب کی بجائے صادق سنجرانی صاحب کو ووٹ دے رہے ہیں ۔خواب مبہم ہونے کی وجہ سے تعداد تو یاد ہے لیکن انکے چہرے یاد نہیں آرہے۔ خواب میں یہ بھی نظر آتا ہے کہ مریم صاحبہ اچانک کچھ ذاتی مسائل میں گھر گئی ہیں انکا کوئی اپنا انکے سیاسی سفر میں رکاوٹ بننے کی کوشش کر رہا ہے اس وجہ سے وہ اتنے اہم الیکشن پہ توجہ نہیں دے پا رہیں ۔ زرداری صاحب بھی صادق سنجرانی کی جیت پہ اپنے مخصوص انداز اور نشیلی خوبصورت آنکھوں سے نواز شریف صاحب کی طرف اشارہ کر کے مسکرا رہے ہیں۔
خواب تو یہی بتاتا ہے۔۔کہ صادق سنجرانی صاحب چیئرمین سینیٹ بن جائیں گے۔
اگے اللہ دیاں اللہ ہی جانے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply