بارِ شناسائی ۔تبصرہ/محمد غزالی خان

ایک ایسی کتاب جسے کوئی پاکستانی ناشر شائع کرنے کی جراء ت نہ کر سکا!

کئی سال پہلے ایک پاکستانی دوست کامضمون دیکھ کر مجھے سخت حیرت ہوئی تھی کیونکہ اس میں جنگ آزادی کے جتنے سپاہیوں کے نام تھے وہ سب غیر مسلم تھے۔ ملاقات ہونے اور استفسار کرنے پر موصوف نے بتایا کہ پاکستان میں کسی بھی ابھرتے ہوئے صحافی کو اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ بلاوجہ اس پر جماعت اسلامی کا ہمدرد ہونے کا الزام نہ لگ جائے۔ (واضح رہے کہ مضمون انگریزی میں تھا)۔

یہ واقعہ زیر تبصرہ کتاب میں ’’ضروری اعتذار‘‘ کے عنوان کے تحت مصنف، جو 36 برس تک دنیا کے مختلف ممالک میں بحیثیت پاکستانی سفیر ذمہ داریاں ادا کرنے کے بعد اب کینیڈا میں مقیم ہیں،کے پہلے ہی جملے کی وجہ سے یاد آگیا۔ موصوف لکھتے ہیں، ’’اس کتاب کو پاکستان میں شائع ہونا چاہیے تھا اور یہ کام آج سے کم از کم دو سال پہلے ہوجانا چاہیے تھا!(کتاب 2013 میں شائع ہوئی تھی۔۔ مبصر) لیکن یہ ممکن نہیں ہوا۔ اور اس لیے نہیں ہوا کہ اس مملکت خدا داد میں، جس کے باسیوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ اس روئے زمین پر دین حق کے سب سے بڑے پیرو کار ہیں اور اب سچائی کوسننے والی سماعتیں اور سچ پڑھنے والی آنکھیں بہت کم ہیں۔ ورنہ اب تو وہاں ہر طرف گندم نما جو فروشی کا بازار گرم ہے اور منافقت کا راج ہے۔‘‘ جو لوگ پاکستان کی سیاست پر نظر رکھتے ہیں اور واقعات کو نظریاتی، جماعتی یا مسلکی تعصب کی عینک لگائے بغیر دیکھتے ہیں انہیں خوب اندازہ ہو گا کہ ’’سچائی کوسننے والی سماعتیں اور سچ پڑھنے والی آنکھیں‘‘ مذہبی، سیکولر اور لبرل ہر طبقے سے غائب ہیں۔

بہر حال مصنف کے بقول پاکستان کے ہر ناشرنے،بشمول ایک بڑے ناشر کے جوپہلے بھی موصوف کی تین کتابیں شائع کر چکا تھا، کتاب شائع کرنے سے معذرت ظاہر کر دی اور دو سال تک مسودہ اپنے پاس رکھنے کے بعد اس کے،’’قانونی مشیر نے انہیں یہ مشورہ دیا کہ اُن کے پرچم تلے اس کتاب کی اشاعت ان کے لیے مسائل پیدا کر دے گی۔‘‘ اوربالآخر اس کا پہلا ایڈیشن دہلی کے فیروس میڈیا نے 2013 میں شائع کیا۔

کتاب پاکستان کے مختلف سیاست دانوں اور شخصیات کے ساتھ مصنف کے ذاتی تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے جس میں دلچسپ اندازِ بیان کے ساتھ ساتھ جس بے باکی کا مظاہرہ کیا گیا ہے اسے دیکھ کر تو پاکستان میں اس کے شائع نہ ہو سکنے پر ذرہ برابر بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ بے باکی تو بے باکی اس میں پہلا ہی تذکرہ ایسی شخصیت کا ہے جس پر تبرّہ بھیجے بغیرسیاسی تبصرے، مباحثے، تجزیے اور کتابیں شایدنا مکمل سمجھی جاتی ہیں یعنی مرحوم جنرل ضیاء الحق۔ تمام دوسرے سربراہوں کی طرح ضیاء الحق سے بھی بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں مگر جس بات نے ’’مملکت خداداد‘‘ میں مرحو م کو سب سے زیادہ نا پسندیدہ شخصیت اور قیامت تک تبرّہ کا مستحق بنادیا وہ ان کا مذہبی رحجان تھا۔ اس کاا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایک دوست نے اس کتاب کا ذکرپاکستان کے ایک کثیرالاشاعت اخبار میں اپنے ایک مستقل کالم میں کیا اور اس میں بتایا کہ مصنف نے مرحوم ضیاء الحق کی تعریف کی ہے توایڈیٹر صاحب کو یہ بات اس قدر نا گوار معلوم ہوئی کہ انھوں نے فوراً ایک ای امیل کالم نگار دوست کو بھیجا اور پوچھا کہ وہ ایک ڈکٹیٹر کی تعریف کیسے کر سکتے ہیں۔

بہر حال مصنف کے بقو ل ضیاء الحق، ’’بلاشبہ ایک انتہائی متنازعہ شخصیت تھے اور رہیں گے لیکن ایک حقیقت جس کا میں آج بھی بلا خوف تردید اعادہ اور توارد کر سکتا ہوں یہ ہے کہ میں نے 35 برس کی سفارتی اور سرکاری ملازمت کی تمام مدت میں ضیاء الحق سے زیادہ نرم خو اور حلیم انسان نہیں دیکھا۔ تاریخ ضیاء الحق کی ذات کے متعلق جو بھی فیصلہ کرے اس سے مجھے سرورکار نہیں ہے لیکن کوئی بھی دیانتدار مورخ ان کے خلق اور اخلاق کے ضمن میں میرے بیان کی تردید نہیں کر سکے گا۔‘‘

ضیاء الحق کے ایک ادا کار ہونے یا بالفاظ دیگر ان پر منافقت کے الزام کے جواب میں غوری صاحب رقم طراز ہیں، ’’۔۔۔ جو بے ساختگی ضیاء الحق کے ہاں میل جول کے حوالے سے میں نے دیکھی اور محسوس کی اس میں کہیں بھی مجھے اداکاری یا ریا کاری کا شائبہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ سربراہان مملکت، وزیروں اور سفیروں سے جس تپاک سے ملتے تھے، اُسی تپاک سے میں نے انہیں فرش پر جھاڑو لگانے والے خاکروب اور ان کی گاڑی کا دروازہ کھولنے والے دربان سے بھی جھک کر ملتے اور گرمجوشی کے ساتھ مصافحہ کرتے دیکھا۔ اگر وہ واقعی اداکاری تھی تو کمال کی تھی اور اگروہ ادا کاری کے پیشے کو ہی اپنی وجہ شہرت بنانے کے بارے میں سوچتے تو بھی اتنے ہی مشہور ہوتے جتنے بطور صدر پاکستا ن ہوئے بلکہ اس صورت میں شاید ان کے کردار اور شخصیت کے وہ سوالیہ نشان منسلک نہ ہوتے جو آج تک ان کا احاطہ کیے ہوئے کھڑے ہیں‘‘۔

ضیا ء الحق کے بارے میں غلط فہمیوں کی وجوہ بیان کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے، ’’میری دانست میں ضیا ء الحق کے کھرے پن اور شخصیت کے انکسار اور عجز کے ضمن میں پاکستانیوں کے ذہنوں میں شکوک اور شبہات اس وجہ سے زیادہ پیدا ہوئے کہ وہ اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو جیسے سخت گیر، درشت مزاج اور فطرتاً منتقم مزاج سربراہ حکومت کے عادی ہو چکے تھے۔۔۔۔ بھٹوکی لیاقت اور ذہانت میں کسی کو کوئی کلام نہیں ہو سکتا لیکن جہاں تک ان کی شخصیت اور تفنن طبع کا سوال تھا، وہ صرف اور صرف ایک وڈیرے تھے۔ درشت خو اور انتہا درجہ کے مغرور انسان جس کے خمیر میں اپنی بڑائی اور عام انسانوں سے بہت بلند تر کوئی خصوصی مخلوق ہونے کا خناس ایسا رچا بسا تھا کہ وہ عوامی لیڈر ہونے کے دعویٰ کے باوجود تا دم آخر اس خول سے باہر نہیں نکل سکے جو وڈیرہ خون نے انہیں وراثت میں عطا کیا تھا۔‘‘

ضیا ء الحق کی انکساری، اعلیٰ اخلاق اور ان کے دینی اقدار کے مصنف نے متعدد واقعات درج کیے ہیں جنہیں نقل کرنا اس تبصرے کو بہت طویل کردے گا البتہ بحیثیت صدر ان کے دورہ افغانستان کے دوران ایک سفارتکار کے اس موازنے سے قارئین بہت کچھ اخذ کر سکیں گے:’’سفر کے دوران ہمارے چیف آف پروٹوکول کرنل اسماعیل جو بھٹو کے چہیتے تھے لیکن ضاء الحق نے انہیں فوجی ہونے کے ناطے ان کی جگہ پر برقرار رکھا تھا، پورے وقت اس سفر کا مواززنہ اس سفر سے کرتے رہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے ہمراہ دو سال قبل کیا گیا تھا۔ کہتے رہے اور افسوس بلکہ گلہ کرتے رہے کہ دیکھو کیسا زوال ہے۔ بھٹو کے اقتدار میں ہم لوگ بڑے جیٹ طیارے میں سفر کررہے تھے۔ اس بار یہ دقیا نوسی، ہچکولے کھانا ہوا فوکر فرینڈشپ کا چھکڑا ہے۔ اس سفر میں جہاز کے پرواز کرتے ہی شیمپئین کے کاک کھل گئے تھے، جب کہ یہ سفربالکل سوکھا بلکہ روکھا ہے۔ وغیرہ وغیرہ‘‘

جنرل ضیاء کے دورہ چین کے دوران مرحوم کی اہلیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں، ’’1982 میں جب وہ اپنے شوہر صدر ضیا ء الحق کے ساتھ بیجنگ تشریف لائی تھیں تو ایک سہ پہر میری بیوی کو ساتھ لے کر شاپنگ کرنے نکلی تھیں اور عابدہ جب صدر کی بیگم کو جو اس وقت پاکستان کی خاتون اول تھیں، شاپنگ کروانے کے بعد واپس آئیں تو ان کا پہلا جملہ یہ تھا کہ میں نے آج تک ایسی سادہ عورت نہیں دیکھی جو خاتون اول ہونے کے باوجود شاپنگ اس احتیاط سے کر رہی تھیں جیسے ان کے شوہر کی آمدنی انتہائی محدود ہو۔ بے چاری نے پوری شاپنگ پر سو ڈالر بھی خرچ نہیں کیے تھے جبکہ ہم نے تو اسی بیجنگ میں پاکستانی جرنیلوں اور ایئر مارشلوں کی بیگمات کو اس طرح شاپنگ کرتے دیکھا تھا کہ ان کے ہینڈ بیگ سو سو ڈالر کی گڈیوں سے بھرے ہوتے تھے اور فرینڈ شپ اسٹور کا بڑھیا سے بڑھیا سامان وہ قیمت پر نظر ڈالے بغیر خرید لیا کرتی تھیں۔ ایک ایئر مارشل کی بیگم نے تو اتنا سامان خریدا تھا کہ ہمارے ایئر اتاشی کو وہ سامان بیجنگ ایئر پورٹ تک، جہاں ایئر فورس کا ایک C-130 طیارہ اسی مقصد سے کھڑا ہوا تھا، لے جانے کے لیے ٹرک کا بندوبست کرنا پڑا تھا۔‘‘

پاکستان کے نوبیل انعام یافتہ سائنسداں پروفیسر عبدالسلام کے حوالے سے مصنف نے لکھا ہے کہ:’’پروفیسر عبدالسلام کے دورہ الجزائر تک ضیاء الحق مرحوم و مغفور ہو چکے تھے اور ان کا تذکرہ نکلا تو پروفیسر صاحب نے بہ آواز بلند ان کی مغفرت کی دعا مانگی اور فرمایا کہ ضیاء الحق خود اتنے انتہا پسند نہیں تھے، جتنے ان کے گردو پیش میں پھلنے پھولنے والے حلقہ بگوش! میں نے پروفیسر صاحب سے اتفاق کرتے ہوئے صرف یہ اضافہ اپنی طرف سے کیا کہ بہر حال یہ الزام توضیاء الحق کی چوکھٹ پر ہی رہے گا کہ انہوں نے دین کے نام پر فاشزم کو ہوا دینے والے تنگ نظروں اور رجعت پسندوں کی سرپرستی کی۔‘‘

مصنف نے بھٹو کی فرعونیت کے کئی چشم دید واقعات بیان کیے ہیں جن میں سے یہ ایک ہی کسی خوددار شخص کو دہلا دینے کے لیے کافی ہے:’’ایسی ہی ایک حاضری سے فارغ ہو کر میں ان کے عالیشان کمرہ دفتر سے باہر نکلنے والا تھا کہ دروازہ کھلا اور باہر کھڑے ہوئے باوردی چپڑاسی نے اس وقت کے ایک ممتاز MNA کو جنہیں میں بخوبی جانتا تھا اور جن کا تعلق بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی ہی سے تھا، اندر کمرہ میں داخل ہونے کے لیے راستہ دے دیا۔۔۔وہ حضرت برق رفتاری سے بھٹو صاحب کے ڈیسک کی طرف بڑھے تھے بلکہ لپکے تھے جس کے پیچھے وہ اپنی گھومنے والی آرام دہ کرسی پر پاؤں پسارے ہوئے بیٹھے تھے۔

’’چشم زدن میں میں نے دیکھا کہ وہ معزز MNA جھپٹ کر بھٹو صاحب کے قدموں پر جھکا اور ان کے قدموں میں اپنا سر رکھ دیا۔ میرے بدن میں جھرجھری سی آگئی۔۔۔بھٹو صاحب نے نہ اُس شخص کو اس حرکت سے باز رکھنے کی کوشش کی اور نہ ہی اسے اپنے قدموں پر سے ہٹایا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کب تک بھٹو کے قدموں کی دھول کو سجدہ کرتا رہا۔ اس لیے کہ میں تو ایک سناٹے کی کیفیت میں دفتر کے دروازہ سے باہر نکل آیا تھا اور میرے پیچھے زرق برق وردی والے چپڑاسی نے دروازہ بند کر دیا تھا۔‘‘

مصنف نے بھٹو کی ذہانت، خود اعتمادی اور تحریری اور تقریری صلاحتیوں کی دل کھول کر تعریف کی ہے مگر ان کے بقول وڈیرے گھرانے میں پیدائش نے ان تمام خوبیوں کو بے معنی بنا دیا تھا۔ مصنف لکھتے ہیں، ’’ذوالفقار علی بھٹو کا بنیادی مسئلہ ان کی پیدائش کا حادثہ تھا۔ ذہانت خدا داد نعمت ہے جو غالباً انہیں اپنی ماں کے دودھ میں عطا ہوئی تھی لیکن باپ کی طرف سے انہیں خون میں وڈیرہ شاہی کا آزار ملا تھا اور یہ آزار مرتے دم تک ان کی ذات کے ساتھ دیمک کی طرح چمٹا رہا بلکہ شاید ان کی جوا ں مرگی کا سبب بھی بنا اور ذہانت کو کھا گیا جو انہیں منصف ازل نے بہ افراط دی تھی اور جس کا مناسب استعمال انہیں نہ صرف ایک طویل عمر طبعی دے سکتا تھا بلکہ اتنی ہی طویل سیاسی زندگی اور قائدانہ حیات بھی بخش سکتا تھا۔‘‘

بھٹو کی طرح غوری صاحب نے اُن کی صاحب زادی بے نظیر بھٹو کی صلاحیتوں کو بھی بھر پور خراج پیش کیا ہے۔ غوری صاحب کے نزدیک بے نظیر کو ان صلاحیتوں کو پوری طرح استعمال کرنے کا موقع نہ مل سکا اور مرحومہ پر اپنے باب کا عنوان ہی انھوں نے ’’بے نظیر۔۔۔اک ادھوری کہانی‘‘ دیا ہے۔ مصنف کی نظر میں، ’’۔۔۔ضیا ء الحق کے دور حکومت میں بے نظیر پر ہر ممکن دروازہ بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور قید و بند کی جن صعوبتوں سے انہیں گزرنا پڑا تھا، انہوں نے بے نظیر کی نفسیات پر گہرے نقوش مرتسم کیے تھے۔ ایک بے نام سا خوف اور ہراس تھاجو لا شعوری طور پر ان کی نفسیات کا حصہ بن چکا تھا۔۔۔‘‘

مرحومہ کے ساتھ شروع شروع میں مصنف کی تلخ خط و کتابت کی تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحومہ کان کی اچھی خاصی کچی تھیں۔ لکھتے ہیں: ’’یہ احساس میرے لیے خاصا تکلیف دہ اور مایوس کن تھا کہ بے نظیر کو انسان کی پرکھ نہیں تھی۔‘‘ مصنف نے شروع میں مرحومہ کے خوشامدیوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کی وجہ سے جنم لینے والے کشیدہ تعلقات سے لے کر بعد میں تعلقات استوار ہونے اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ای میل سے رابطہ رہنے کی تفصیلات دی ہیں اور مرحومہ سے مستقل رابطے پر مبنی اپنے تاثرات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’میں نے اس دوران یہ محسوس کیا اور یہ احساس کوئی میرے ذہن کی اختراع نہیں تھی۔ وہ امریکہ سے اپنی وطن واپسی کے لیے آشیر واد حاصل کرنے کے لیے بہت سنجیدگی سے کوشاں تھیں۔ اگر چہ یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلمہ تھی کہ 9/11 کے سانحہ کے بعد بش انتظامیہ نے جنرل مشرف کے ساتھ جو بندھن باندھا تھا اور جس انداز میں واشنگٹن اور اسلام آباد میں افغانستان کے خلاف لشکرکشی کے معاملہ میں پینگیں بڑھ رہی تھیں اس کے بعد بے نظیر کی افادیت طوطا چشم بش انتظامیہ کی نظر میں صفر کے برابر ہو چکی تھی۔ عالم یہ تھا کہ بے نظیر کو واشنگٹن میں معمولی درجے اور حیثیت کے سرکاری اعمال سے وقت لینے کے لیے تگ ودو کرنے کی نوبت آچکی تھی لیکن بی بی نے ہمت نہیں ہاری اور آخر کار بش اور ان کے انتہا درجے کے قدامت پسند مشیروں کو اپنی افادیت کے ضمن میں قائل کر کے ہی چھوڑا۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ طویل جلا وطنی کے بعد وطن واپسی انہیں راس نہیں آئی۔‘‘

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بے نظیر جیسی کہنہ مشق اور تجربہ کار سیاست داں کو کسی غیر ملکی حکومت کے آشیر واد لینے کے لیے کیوں مجبور ہونا پڑا؟ شاید اس کا جواب یہ ہے کہ پاکستان کا مضبوط سے مضبوط سیاست داں بھی اندرونی طور پر نہایت کمزور ہوتا ہے۔بظاہر عوام میں مقبول ہونے کے باوجود عوام میں ان کی جڑیں نہیں ہوتیں۔ شاید صدیوں غیر ملکی غلامی کرتے کرتے برصغیر کے عوام ذہنی طور پر آج تک آزاد نہیں ہونے پائے۔ پورے خطے میں آج بھی سیاسی پارٹیوں پر خاندانوں کا قبضہ ہے اور پاکستان اس کی بد ترین مثال ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت بلاول بھٹو کو وصیت میں ملنے کے بعد اور بلاحیل وحجت جیالوں کو اسے قبول کر لینے اور کسی قسم کی قباحت محسوس نہ کرنے کے بعد تو اس گراوٹ نے تمام حدوں کو توڑ ڈالا۔ پاکستان میں بھٹو سیاسی پارٹی کا’’شہید‘‘ قائد ہی نہیں بلکہ ایک فرقے کا بانی بن چکا ہے۔ اس کے نام پربڑی سے بڑی دھاندلی بھی جیالوں کے لیے دینی احکامات سے کم حیثیت نہیں رکھتی۔ پاکستان کے بڑے سے بڑے صحافی یا سیاست دانوں کی جراٗت نہیں کہ ان دھاندلیوں پر تنقید کرسکیں۔

اور ظاہر ہے جن لوگوں نے مذہبی لبادے اوڑھ رکھے ہیں ان کا مقام تو اورزیادہ اعلیٰ وارفع ہے۔ایک مسلم معاشرے میں ان کے پاس سب سے بڑا ہتھیار تو کسی کو بھی کافر یا مومن یا یہودی ایجنٹ قرار دینے کا حق ہے۔ اپنے اس حق کے ساتھ یہ طبقہ جب سیاست میں آتا ہے تو وزارت عظمیٰ سمیت بڑے بڑے عہدوں کی تمنا کرتا ہے۔ البتہ ان کی صلاحیتیں اور ذہنیت کا ایک نمونہ مصنف کے دور سفارت میں مولانا فضل الرحمٰن صاحب کے بحیثیت چیئرمین خارجہ امور کمیٹی کے دورہ کویت کے دوران کویتی پارلیمان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ ارکان کے ساتھ ایک میٹنگ میں پڑھنے کو ملتا ہے۔ لکھتے ہیں، ’’۔۔۔جاسم الصقر صاحب نے مولانا کو باضابطہ خوشگوار الفاظ میں خوش آمدید کہنے کے بعد ان سے درخواست کی کہ وہ جس مقصد کے لیے وارد ہوئے ہیں وہ بیان کریں۔ لیکن مولانا نے مجھ سے فرمایا کہ کشمیر پر پاکستانی موقف سے حاضرین کو میں آگاہ کروں۔

’’مجھے حیرت ہوئی کہ مولانا خود اس فریضے کی ادائیگی سے کیوں جان چھڑا رہے ہیں۔ لہٰذا میں نے ضروری سمجھا کہ مولانا کو یاد دلاؤں کہ وہ پاکستان کے خصوصی ایلچی بن کر وارد ہوئے ہیں اور وزیر اعظم بے نظیر کی خصوصی ہدایات کے بموجب میں انہیں اس ملاقات کے لیے لے کر گیا تھا۔

’’مولانا کچھ قائل ہوئے کچھ نہیں ہوئے لیکن خاموشی جب بوجھل ہونے لگی تو انہوں نے رک رک کر اردو زبان میں پانچ سات منٹ تک کلمات ادا کیے جن کا میں انگریزی میں ترجمہ کرتا رہا لیکن پھر جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ مولانا نفس مضمون کی طرف نہیں آرہے ہیں اور معززسامعین بھی ایک دوسرے کی طرف کن انکھیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا حالات کو مزید بگڑنے دینے سے بچانے کی نیت سے میں نے لقمہ دیا کہ مولانا اگر پسند فرمائیں تو گفتگو کو میں آگے بڑھاؤں اور یوں لگا جیسے مولانا اسی لمحہ کے منتظر تھے۔ انہوں نے فوراً حامی بھر لی اور سامنے میز پر رکھے ہوئے کیک پیسٹری کی طرف رجوع ہوئے اور پھر ایک گھنٹے تک ان کی طرف سے میں ہی بولتا رہا اور وہ اپنے پیٹ کی میزبانی کرتے رہے۔

’’اس ذمہ داری سے فارغ ہو کر ہم باہر نکلے تو میرا گمان یہ تھا کہ مولانا میرا شکریہ ادا کریں گے کہ میں ایک مشکل وقت میں ان کے کام آیا تھا لیکن مولانا نے تو گاڑی میں میرے ساتھ بیٹھتے ہی مجھ سے ایک نئی فرمائش کردی اور وہ یہ تھی کہ ان کی ملاقات کویت کی بین الاقوامی شہرت کی حامل فلاحی تنظیم بیت الزکوٰت کے صدر اور روح رواں جاسم الحجی صاحب سے کروادی جائے۔ کویت کی یہ فلاحی تنظیم دنیا بھر کے مسلم ممالک میں مدرسوں، ہسپتالوں، یتیم خانوں اور اس قسم کے دوسرے فلاح و بہبود کے اداروں کو مالی وسائل فراہم کرتی ہے۔۔۔‘‘

اہلیت کے تعلق سے مصنف نے اپنے وقت کی ایک اور شخقیت مولانا ستار نیازی صاحب کی کارکردگی کا قصہ بھی بیان کیا ہے۔ اسی طرح کئی وزیروں اور سیاسی کارکنوں کی غلامانہ سوچ اور دھاندلیوں کا ذکر بھی ضمناًآیا ہے۔ اس مضمون کی طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے یہاں قابل ذکر اور زیادہ اہم شخصیات کے بارے میں مصنف کے مشاہدات اور تجربات کو زیر تحریر لایا جا رہا ہے۔

نواز شریف پر طویل مضمون میں اپنی پہلی ملاقات کے بعد اپنے مشاہدے کا ذکر یوں کیا ہے، ’’اور مجھے یہ بھی احساس ہوا جس کے بعد کے برسوں میں کئی بار تصدیق بھی ہو گئی کہ میاں صاحب فطرتاًشرمیلے اور کم گو ہیں اور محفل گدازی کی وہ رو جسے اقبال نے اپنے شاہین صفت نوجوانوں کے لیے شخصیت کا لازمہ قرار دیا تھا، ان میں یا تو بالکل ہی نا پید تھی یا اگر تھی بھی تو بہت کم! البتہ یہ الگ بات تھی کہ اپنی مردانہ وجاہت کی فراوانی سے وہ اس کسر کو کسی حد تک زائل کر دیتے تھے۔‘‘

موصوف کے ساتھ اُنھوں نے اپنی دلچسپ ملاقاتوں کا ذکر تفصیل کے ساتھ کیا ہے جس کی شروعات 1987 میں کٹھمنڈو میں پہلی ملاقات سے ہوئی جہاں نواز شریف صاحب بحیثیت وزیر اعلیٰ پنجاب اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے ساتھ سارک کانفرنس کے موقع پر تشریف لے گئے تھے۔ کٹھمنڈو میں مصنف اور ان کے ساتھی پشمینہ شالوں کی کسی دکان میں خریداری کی نیت سے موجود تھے مگر قیمتیں سن کر کسی کی ایک شال خریدنے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔ کچھ دیر بعد،’’میاں نواز شریف اپنے چند ہمراہیوں کے ساتھ دکان میں وارد ہوئے۔۔۔وہ شان و شوکت کے ساتھ شالوں کی دکان میں تشریف لائے۔۔۔انہوں نے ہمیں شالوں میں الجھے دیکھ کر سوال کیا کہ کیا ہمارے خیال میں وہ شالیں اس قابل ہیں کہ خریدی جائیں؟ اور جب ریاض کھوکر اور میں نے تصدیق کی کہ شالیں بلا شبہ معیاری اور عمدہ ہیں تو میاں صاحب نے کاؤنٹر کے پیچھے کھڑی ہوئی نیپالی لڑکیوں سے کہا کہ وہ ان کے لیے پشمینا شالوں کے جتنے بھی رنگ دستیاب ہیں، سب کی ایک ایک شال نکال دیں۔‘‘

’’کھٹمنڈو میں سارک کانفرنس کا انعقاد ایسے دنوں میں ہوا تھا جب بھارت اور پاکستان میں کرکٹ کے ورڈکپ کے میچز بھی کھیلے جا رہے تھے۔ اب یہ حسن اتفاق تھا کہ وفد کے قیام کٹھمنڈو کے آخری روزجب وہاں تعینات پاکستانی سفیر نے وزیر اعظم جونیجو اور وفد کے دیگر اراکین کے لیے اپنی رہائش گاہ پر ظہرانہ یعنی لنچ کا اہتمام کیا تو اسی دن غالباً کلکتہ میں پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں ٹورنامنٹ کا سیمی فائنل میچ کھیل رہی تھیں۔ لہٰذا نواز شریف نے ظہرانہ میں شرکت سے معذوری کا اظہار کردیااس لیے کہ وہ میچ دیکھ رہے تھے اور اسے کسی حال میں چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔‘‘

نواز شریف کے ساتھ بحیثیت وزیر اعظم پاکستان موصوف کے دورہٗ الجزائر میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے غوری صاحب رقم طراز ہیں، ’’۔۔۔ہاں ان مذاکرات کے دوران میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ میاں صاحب کے متعلق پاکستان کے باتونی حلقوں (Chattering Class) میں یہ چہ میگوئیاں تھیں کہ ان کی توجہ کی مہلت (Focussing Span) کسی ایک موضوع پر تین چار منٹ سے زیادہ نہیں تھا جبکہ ایک اوسط ذہانت کے فرد کے ہاں یہ مہلت عام طور سے سات منٹ ہوا کرتی ہے تو اس میں کوئی ایسا مبالغہ بھی نہیں تھا۔‘‘

نواز شریف صاحب کے ہمراہ گئے ہوئے وفد میں وزیروں اور مشیروں کی فوج کی ناقص اور مایوس کن کارکردگی کی مثالیں پیش کرنے کے بعد غوری صاحب لکھتے ہیں کہ، ’’۔۔۔یہ وسوسہ مجھے پریشان کر رہا تھا کہ نواز شریف کی سفارت کا جو نتیجہ نکلے گا یا نہیں نکلے گا، وہ تو الگ کی بات ہے لیکن مجھے تو ان کی وزارت عظمیٰ کی عمر طبعی ایسے وزیروں اور مشیروں کی موجودگی میں بہت کم دکھائی دے رہی تھی۔‘‘
اس کے بعد موصوف کے دورہ ترکی، جہاں وہ ایک خوفناک زلزلہ کے بعد برادر مسلم ملک کے شہریوں کی اشک شوئی کے لئے تشریف لائے تھے کچھ کم دلچسپ نہیں۔ مصنف کے مطابق، ’’میں نے دیکھا کہ زلزلے سے متاثرہ علاقے خصو صاً زمین بوس عمارتوں اور مکانوں کو دیکھتے ہوئے میاں صاحب واقعی رقیق القلب ہو رہے تھے۔۔۔لیکن زلزلہ اپنی جگہ اور میاں صاحب کا معروف ذوق طعام اپنی جگہ۔ چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے تو نہیں جاتا۔۔۔لہٰذاہوٹل پہنچتے ہی میاں صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ وہ رات کا کھانا تناول کرنے کے لیے اپنے پسندیدہ کباب ریستوراں جانا چاہتے ہیں۔

’’استبول کا یہ معروف کباب ریستوراں ایئر پورٹ کے نزدیک تھا اور اس کی وجہ شہرت گزشتہ کئی برسوں سے یہ تھی کہ میاں نواز شریف اس کے خصوصی سرپرستوں میں سے تھے۔۔۔میاں صاحب نے ریستوراں کے مالک پر خاص عنایت کی تھی اور اسے سرکاری مہمان بنا کر ایک ہفتہ پاکستان کا دورہ کروایا تھا۔ میں خود اپنی آنکھوں سے اس ریستوراں میں اوپر نیچے ہر منزل پر دیواروں پر آویزاں وہ تصاویر دیکھ چکا تھا جو ریستوراں کے مالک نے اپنے دورۂ پاکستان میں اپنے سرپرست خاص میاں نواز شریف کے ساتھ کھنچوائی تھیں۔۔۔میری دانست میں وہ موقع بالکل اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ پاکستان کاوزیر اعظم جو اپنے ترک بھائیوں کو ایک آفت نا گہانی پر پرسہ دینے اور ان سے تعزیت کرنے کے لیے آیا تھا، اس قسم کی تفریح کا مرتکب ہو۔ لہٰذا مین نے حد ادب میں رہتے ہوئے مناسب الفاظ میں اپنے تحفظات کابر ملا اظہارا کردیا۔۔۔‘‘

پرویز جنرل مشرف کے بارے میں بھی مصنف نے دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں جن کے ساتھ ان کی پہلی ملاقات 12 اکتوبر1999 کونواز شریف کا تختہ الٹنے کے چند روز بعد ہی مشرف کے دورہ ترکی کے دوران ہوئی جہاں موصوف، ’’اپنے ترک دوستوں اور حلیفوں سے شاباشی لینے کے لیے‘‘ پہنچے تھے مگر،’’جنرل مشرف کی بد نصیبی کہُ اس وقت کے صدر ترکی سلیمان دیمرل اور وزیر اعظم بلند ایجوت دونوں ہی فوج کے ہاتھوں ڈسے ہوئے تھے۔۔۔دیمرل صاحب نے ن کا استقبال تو بہت خندہ پیشانی سے کیا لیکن جب بات چیت کا آغاز ہوا تو انہوں نے جنرل صاحب کو بقول شخصے بہت کھری کھری سنائیں۔ انہیں نیک و بد سمجھانے کے لیے۔

صدر دیمرل نے انتہائی تحمل اور بردباری سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’’جنرل مجھے عملی سیاست میں پچاس برس سے زیادہ ہو چکے ہیں اور اس طویل عرصے میں جس عمل نے میرے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا وہ سیاست میں فوج کی مداخلت ہے۔ ہمارے جرنیلوں کے دماغ میں بھی یہ خنّاس تھا کہ وہ ملک کو سدھار سکتے ہیں لیکن ہر بار وہ جب اپنا تماشہ دکھاکے واپس بیرکوں میں گئے تو حالات پہلے کی بہ نسبت اور خراب کر کے گئے۔ جنرل! دنیا کی کوئی فوج کسی ملک کی تقدیر نہیں سنوار سکتی۔ یہ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے اورتمہیں میں اپنا چھوٹا بھائی سمجھتا ہوں، لہٰذا بڑے بھائی ہونے کے ناطے میرا مشورہ یہ ہے کہ جتنی جلد ہو سکے، اقتدار سیاست دانوں کو واپس کردو اور اپنی بیرکوں کو لوٹ جاؤ۔‘‘

صدر دیمرل کے ساتھ ملاقات کے بعد وزیر اعظم بلند ایجوت نے بھی پرویز مشرف کو آڑے ہاتھوں لیاجو سلیمان ویمرل کے مقابلے میں فوج کے بہت زیادہ ڈسے ہوئے تھے اور، ’’ان تمام نقصانات کی فہرست گنوائی جو سیاسی عمل میں فوج کی مداخلت بے جا سے ترکی میں پیدا ہوئے تھے اور بقول ان کے دنیا کے ہر اس ملک میں ہو سکتے تھے اور ہوئے تھے، جہاں فوج اپنے ڈنڈے کی حکمرانی زبردستی مسلط کرتی ہو۔‘‘

اس دورے کے دوران جنرل مشرف نے غوری صاحب سے بہت سے سوالات کیے جن میں ایک یہ تھا کہ ان کے خیال میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے اور اس کا حل کیا ہے؟ غوری صاحب نے جو دو وجوہات بتائیں وہ تو وہی ہیں جن سے نجات چھڑانے کی ہر پاکستانی کی خواہش ہے یعنی وڈیروں کا سیاست میں دخل اور جہالت۔ البتہ سیاست کو وڈیروں سے پاک کرنے کا جو طریقہ انہوں نے تجویز کیا وہ دلچسپ ہے: ’’جنرل صاحب! دنیاآپ پر ڈکٹیٹر ہونے کی چھاپ تو ان آٹھ دس دن میں ہی لگا چکی ہے اور جتنے دن پاکستان کی باگ ڈور سنبھالے رہیں گے، یہ لیبل آپ پر مزید چسپاں ہوتا رہے گا لیکن اگر آپ واقعی ملک اور قوم کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو کڑوی گولی ہی نہیں بلکہ کڑوی گولیاں نگلنی پڑیں گی۔ آپ نے کمال اتاترک کو اپنے لیے رول ماڈل قرار دیا ہے تو پھر آپ ان کی تقلید ہی کرلیجئے۔ اتاترک میں بہت سی خامیاں تھیں۔ بہت سے عیب تھے لیکن ایک بہت بڑی صفت تھی۔ وہ جو ہر رہنما میں ہوتی ہے اور ہونا چاہیے جنہیں اپنی قوم کی تقدیر بدلنے کادعویٰ ہوتا ہے۔ اتاترک نے جو کام کرنے کا فیصلہ کیا، پھر اس کے متعلق نہ اپنے ذہن میں کوئی ابہام رہنے دیا اور نہ اپنی قوم کو کسی مغالطہ میں رکھا۔۔۔نیت ہو تو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ میرے ذہن میں ایک فارمولا ہے اور وہ یہ کہ آپ 1971 کے سقوط ڈھاکہ کو خط تنسیخ قرار دیجئے۔ وہ جسے انگریزی میںِ Watershed کہتے ہیں۔ پاکستان اس سانحہ کے نتیجے میں دو دلخت ہو گیا تھا۔ یہ فیصلہ تو آج تک نہیں ہو سکا کہ اس کی ذاتی ذمہ داری کس پر تھی لیکن عوام کی عدالت میں پاکستانی سیاست دانوں کی کھلی ناکامی بڑی وجہ تھی جو ملک کے ٹکڑے ہوئے اور قائد اعظم کا پاکستان منتشر ہو گیا۔ آپ یہ حکم نافذ کردیجیے کہ سقوط ڈھاکہ سے پہلے جو لوگ بھی پاکستان کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے رکن تھے وہ اور ان کے بیٹے، بھتیجے، داماد وغیرہ وغیرہ آئندہ بیس برس کے لیے عملی سیاست میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے۔ بیس برس میں کم از کم چار الیکشن ہوچکے ہوں گے اور اس عمل کے نتیجے میں نہ صرف پرانے جغادری اور کھلاڑی پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے مٹ چکے ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک نئی اور متبادل قیادت قوم سے اپنا وجود منوا چکی ہو گی۔‘‘

گزشتہ چند سالوں کے دوران ہندستان کے چند مسلمان دانشوروں کی جانب سے تحریک خلافت پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔ تاریخ کے اس اہم حصے کا ایماندارنہ تجزیہ یقیناًکیا جانا چاہیے مگر افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ اس سے وابستہ بے لوث قربانیاں دینے والی شخصیات بھی نہ بچ سکیں۔ میری اپنی نظر سے یہ خبر نہیں گزری مگر کسی نے مجھے بتایا کہ اردغان حکومت سے پہلے جب کوئی ترکی وزیر ہندستان تشریف لائے تو کسی صاحب نے ان سے یہ سوال بھی کر ڈالا کہ کیا خلافت کے لیے ہندوستان میں جمع کی گئی رقم ترکی پہنچی تھی؟ اپنی تاریخ سے نا بلد وزیر نے مسکرا کر جواب دیا کہ کاش ایسا ہوجاتا۔ اور وزیرموصوف کا یہ جواب ان عناصر کیلئے خلافت تحریک کے قائدین کی بد دیانتی کا ایک اور ثبوت تھا۔ مگر غور ی صاحب کے مطابق، ’’لیکن جب میں پہلی بار ترکی کے مرکزی بینک جو ہمارے اسٹیٹ بینک کی طرح کا ادارہ ہے، کے گورنر سے ملنے گیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ہندوستانی مسلمان جب لاکھوں روپے کے عطیات لے کر انقرہ پہنچے تو کمال اتاترک نے ان کے جذبہ اخوت اور ترک مسلمانوں کے لیے ان کی پر خلوص حمایت کو سراہتے ہوئے حکم دیا کہ ملت بینک کے تاسیسی فنڈز میں جوان دنوں اپنی تاسیس کے مرحلہ میں تھا،مسلمانان ہند کے اس فیاض عطیہ کو شامل کیا جائے۔ سو ملت بینک کی بنیادوں میں ہمارے آباؤ اجداد کے گاڑھے پسینے کی کمائی بھی شامل ہے اور ترک رہنما جو تاریخ سے واقف ہیں، آج بھی ہندوستان کے مسلمانوں کی اس بے مثال قربانی کا ذکر احسان مندی کے ساتھ کرتے ہیں۔‘‘

کتاب جنرل ضیاء الحق، ذوالفقار علی بھٹو، محمدخان جونیجو، میاں نواز شریف، جنرل پرویز مشرف، پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام،حکیم محمد سعید اور فیض احمد فیضؔ پر الگ الگ چیپٹرز پر مشتمل ہے مگر اس میں بہت سی دیگر اہم شخصیات کے بارے میں بھی دلچسپ معلومات فراہم کی گئی ہیں مثلاً عمران خان کی سادگی، کھرے پن اور لگن کی بھر پور انداز میں تعریف کی گئی ہے اوران کے ہسپتال کی تعمیر میں رقم جمع کرنے میں مدد کرنے کی وجہ سے مصنف کو بے نظیر کی ناراضگی مول لینی پڑی تھی اور جس کی وجہ سے دونوں میں تلخ خط و کتابت بھی ہوئی مگر بعد میں یہ تعلقات خوشگوار ہوگئے۔

پروفیسر عبدالسلام اور حکیم سعید کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے: ’’۔۔۔میں نے اپنی پوری عملی زندگی میں ان دو حضرات۔۔۔حکیم سعید مرحوم اور پروفیسرعبدالسلام، سے زیادہ نیک نفس، خوش خلق اور فرشتہ سیرت انسان نہیں دیکھا۔۔۔‘‘ دونوں شخصیات کے مختلف واقعات کتاب میں درج ہیں۔
فیض احمد فیضؔ پر مفصل باب میں لکھتے ہیں: ’’فلسطینیوں کے جذبہ حریت اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف ان کی مزاحمت سے فیضؔ صاحب نہ صرف متاثر تھے بلکہ اس کے بڑے مداح بھی تھے۔ لیکن حیرت کا مقام ہے کہ دسمبر 1979 میں افغانستان پر سویت یونین کی وحشیانہ یلغار اور غلبے پر فیضؔ صاحب کے قلم سے ایک حرف احتجاج نہیں نکلاتھا۔کیا ان کی نظر فہم میں افغانستان مظلوم نہیں تھے یا وہ محض اس لیے لب بستہ تھے کہ افغانیوں کی آزادی کو سلب کرنے والا وہ روسی سامراج تھا جسے فیضؔ صاحب اپنے عفوان شباب سے مظلوموں کا ہمدرد اور حمایتی گردانتے آئے تھے۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

فیضؔ صاحب کی خود ساختہ جلا وطنی کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ: ’’۔۔۔1978 سے لے کر 1983 تک جو پانچ سال فیضؔ صاحب نے جلاوطنی میں گزارے اور جس کے لیے ان کے مداحوں نے انہیں مظلوم اور جنرل ضیاء الحق کو ظالم ٹھہرایا، وہ سرسر ان کا ذاتی فعل،ذاتی اقدام تھا۔ ورنہ پاکستان کی حکومت کے کسی قابل ذکر اہلکار یا منصب دار نے انہیں اس کے لیے مجبور نہیں کیا تھا۔وہ ضیا ء الحق سے الرجک تھے، اسی طرح جیسے اور بہت سے دانشور تھے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply