بورس، اوسپ مینڈل اور سٹالن کی ہجو۔۔سلمیٰ اعوان

انتونینا روسی جرنلسٹ پاکستانی نژاد انجنیئر منصور کی بیوی ہے۔ ماسکو جاتے ہوئے منصور مجھے جہاز میں ملا تھا۔دونوں میاں بیوی سے دوستی ہوگئی۔انتونینا پاکستان کو اپنا دوسرا گھر مانتے ہوئے اس کے کلچر اور لوگوں سے لے کر اس کی سیاست کے اسرارو رموز سے بھی آگہی رکھتی ہے۔اکثر اِس سے گپ شپ رہتی ہے۔ایسی ہی ایک بات چیت کے دوران بورس پاسترنک جسے میں ہزار بارہ سو لفظوں میں پھنسانے کی سر توڑ کو شش میں تھی زیرِ بحث آگیا۔ شرم کرو کچھ۔ملامتی کوڑا لہرایا۔روسی ادب کا دیو اور تمہارے گنوے منوے لفظوں میں قید ہوجائے۔ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟مزہ آیا پھٹکار کھا کر۔تو پھر پُوچھا۔ قہقہہ اُچھلا ٹکڑے کردو اس کے۔عشق،یاریاں اور شادیاں،فن اور اس کی جہتیں، اوسپ مینڈل کے ساتھ سٹالن کی Epigramکا واقعہ۔ دونوں ملکوں کے موازنوں میں ہنستے ہوئے جیسے اُس نے راہ دکھائی۔ اپنے ملک کے سیاسی حالات پر نظر ڈالو۔انقلاب سے اُمیدیں وابستہ کرنے والوں،سچ اور کھرا لکھنے والوں پر کیا بیت رہی ہے؟پون صدی قبل کے روس کو سو چو۔ بورس پاسترنک، اوسپ مینڈل اور سٹالن کو یاد کرو۔گو بندے اٹھوانے اور قتل کروانے کے سلسلے خیر سے ابھی بھی تھوڑے بہت جاری و ساری ہیں۔سو انتونینا کے ہدایت نامے پر عمل کر رہی ہوں۔
بورس چوبیس برس کا تھا جب My sister life چھپی۔یہ 1922کا زمانہ تھا۔حالات بہت مشکل اور وقت نازک تھا۔یہ روسی سوسائٹی میں بہت انقلابی ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ بیسیویں صدی کی شاعری پر بہترین کتابوں میں سے ایک سمجھی گئی۔
اِس مجموعے کی تین نظموں The racing star, Rupture اورReissner انقلاب سے متعلق امیدوں، خوابوں،کہیں اُن کے ٹوٹنے اور کہیں اُن کے جڑنے، کہیں مایوسی اور کہیں امید کے درمیان سفر کرتے احساسات کی ترجمان تھیں۔
دراصل بورس نظام کے تہہ وبالا ہونے اور مار دھاڑ سے مایوس ہوا تھا۔ اُسے تو امید تھی کہ انقلاب عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی لائے گا۔اُن خوابوں، اُن امیدوں کو کہیں تعبیر ملے گی جو زمانوں سے انہوں نے دیکھے تھے۔ آنے والے دنوں نے یہ ثابت کردیا کہ وہ غلط باتوں پر سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔
اپنی بہن جوزیفائن کو لکھتے ہوئے اُس نے اپنے دکھ کا اظہار کیا۔
”میں ولادی میر مایا کو وسکائے اور نکولائی سے تعلقات ختم کررہا ہوں کہ انہوں نے ادب اور آرٹ کو کیمونسٹ پارٹی کی خواہشات اورضروریات کے تابع کردیا ہے۔میرے لئیے اُن کی دوستی کو خیر باد کہنا کسقدر دشوار اور تکلیف دہ ہے مگر اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ میں بہت مجبور ہوں۔“
اب ذراسٹالن کی ہجو کا بڑا دلچسپ قصہ بھی سُن لیں۔
یوں تو 1929سے ہی سٹالن cpsu کا مستند لیڈر تسلیم کرلیا گیا تھا۔مگر آہستہ آہستہ بورس پارٹی اور سٹالن سے مزید متنفر ہوگیا تھا۔انہی دنوں اوسپ مینڈل نے سٹالن پر سخت طنزیہ نظم لکھی۔بڑے رازدرانہ انداز میں یہ خبر دوستوں تک پہنچائی گئی۔ سُننے کے لیئے قابل بھروسہ دوست اکٹھے ہوئے۔کمرے کی کھڑکیاں اور دروازے سبھی بندکیے گئے حتیٰ کہ روشن دان بھی۔ مینڈل نے مدھم سی آواز میں پڑھنا شروع کیا۔
ہم زندہ ضرور ہیں مگر اُس دھرتی بارے سوچتے نہیں
جہاں ہم رہ رہے ہیں کچھ دس قدم پرے یا نزدیک
تم سن ہی نہیں سکتے ہو جو ہم کہتے ہیں
لیکن اگر لوگ موقع پر بات کریں تو وہ کریملن کا کیشیئن کے بارے ہی ہوگی
اس کی موٹی انگلیاں بھدّی ہیں اور پھسنے والی مچھلی کی طرح پلی ہوئی
موزوں لفظوں کی تلاش اتنی مشکل جتنے بھاری وزن دار پتھر
اُس کا کاکروچ جیسی مونچھیں بہت ڈراؤنی ہیں
بوٹوں کا اپر چمکتا اور چھب دار ہے لیکن گرداگرد چھوٹی اور موٹی گردنوں والے خوشامدی ٹٹو اور پٹھو ہیں یہی اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں
کچھ تو سیٹیاں بجاتے کچھ میاؤں میاؤں کرتے
اور کچھ سو ں سوں کرتے ہیں وہ اکیلا
گرجتا، دخل در معقولات کرتا اور کش لگاتا
اپنے ہی اصولوں کو توڑتا حکومتی فرمانوں کو سموں تلے روندتا
اپنے چڈوں، اپنے ماتھے اپنی آنکھوں اور بھنوؤں میں
ہر قتل پر خوش ہوتا
نظم سننے کے بعد بورس نے بے اختیار کہا۔
”مینڈل تم نے یہ کیا لکھ ڈالا؟ ہمارے جذبات کا اتنا حقیقی ترجمان۔“ پھر وہ خو ف سے لبریز آواز میں بولا۔
”مینڈل تم سمجھو تم نے کچھ نہیں سنایا اور ہم نے کچھ نہیں سُنا۔تم جانتے ہو بہت ظالمانہ چیزیں ہورہی ہیں۔لوگوں کو ان کا جرم بتائے بغیر اٹھالیا جاتا ہے۔دیکھو دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔اور کچھ پتہ نہیں کب کیا کیا کہانیاں بن جائیں؟بس سمجھو تم نے کچھ نہیں سُنایا۔میری جان کچھ نہیں۔“
بورس بھول گیا تھا کہ شاعری خوشبو کی طرح ہوتی ہے جسے دیواروں،بند دروازوں میں قید نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بنریرے کوٹھے الانگتی پھلانگتی ہواؤں کے دوش پر اڑتی کوچہ کوچہ قریہ قریہ سفر کرتی کریملن پہنچ گئی تھی۔
مینڈل کو گرفتارکرلیا گیا۔بورس سخت پریشان۔ایک گرفتاری دوسرے یہ ڈر کہ کہیں اُس پر بے وفائی کا الزام نہ لگ جائے۔سارے شہر میں وہ بھاگا بھاگا پھرا۔اپنے بارے میں وضاحتیں دیتا ہوا کہ اُس نے تو کوئی بات نہیں کی تھی۔
ایسے ہی صبر آزما دنوں میں اُس کے اپارٹمنٹ میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔کسی نے کہا۔
”کامریڈ سٹالن تم سے بات کرنا چاہتا ہے۔“پاسترنک تو کُنگ سا ہوگیا ایسی صورت کا سامنا تو اس کے کہیں گمان تک میں نہ تھا۔ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
ایک آوازماؤتھ پیس میں سے اُبھری۔ سٹالن کی آواز،ایک جابر اور ظالم حکمران کی آواز۔رعب اور کرختگی سے بھری ہوئی آواز۔
بورس کی آواز میں گبھراہٹ،ہکلاہٹ اور احمقانہ پن تھا۔ سوال ہوا تھا۔وہ مینڈل کے ساتھ کتنی ذہنی مطابقت رکھتا ہے۔کانوں کی سنسناہٹ، زبان کی ہکلاہٹ اور دل کی دھڑکنوں کی اُتھل پھتل میں اس نے کہا کہ اس کے اور مینڈل کے خیالات میں بہت اختلاف ہے۔ اور پھرایسا ثابت کرنے میں اُس نے کتنی ہی الٹی سیدھی باتیں کیں جنہیں کرنا گویا وقت ضائع کرنا تھا۔سٹالن نے اُس سے ادبی حلقوں میں مینڈل کی گرفتاری کا ردِعمل جاننا چاہا۔اور یہ کہ اُس کی رائے اِس بارے میں کیا ہے؟
بورس کب اپنے حواسوں میں تھا۔ فوراً ہی انکار کرتے ہوئے بولا ”اب ماسکومیں ایسے سٹڈی سرکلز کہا ں رہے ہیں؟مدت ہوگئی مجھے کسی ادبی محفل میں گئے ہوئے۔“سٹالن نے ایک تمسخرانہ انداز میں یہ کہتے ہوئے کہ وہ ایک کامریڈ سے بات نہیں کرسکتافون بند کردیا۔
بہت سالوں بعداپنے اُس وقت کے جذبات و احساسات پر اُس نے لکھاکہ اُس وقت اُسے کچھ سوجھ ہی نہیں رہا تھا۔دیر بعد جب اُس کے اوسان بحال ہوئے۔ وہ شرمندگی اور دکھ کے پاتال میں گرگیا کہ وہ کیا کر بیٹھا ہے؟اپنی بزدلی پر پیچ و تاب کھاتے ہوئے۔اُس نے دوبارہ رابطے کی کوشش کی کہ وہ اُسے بتائے کہ وہ بہت غلطیاں اور زیادتیاں کررہا ہے۔ مگر کریملن سے ایک ہی جواب تھا۔
”کامریڈ سٹالن بہت مصروف ہیں۔“
حقیقیت تو یہ تھی کہ اس کا پچھتاوہ ختم ہونے میں نہ آرہا تھا۔بعد میں اُس نے لمبا چوڑا خط بھی سٹالن کو لکھا۔اُسے ہمیشہ اس بات کا تاسف رہا کہ وہ صورت حال کو ہینڈل کرنے میں بہت بُری طرح ناکام رہا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply