ہم دیکھیں گے

ہم دیکھیں گے
آصف جاوید قیصرانی
شاہدلغاری ہمارے پرانے دوست ہیں، کوٹ مٹھن کی نمائندہ شخصیت ہیں۔ جنوبی پنجاب کی روایات کے بر عکس ان کی زمیندار فیملی تعلیم یافتہ بھی ہے اور مذہب کے قریب بھی ۔پچھلے ہفتے ان کا فون آیا، وہ رندھی ہوئی آواز میں بتارہے تھے کہ میرے والد صاحب اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں۔
ہمیں گاؤں میں قرآن مجید پڑھانے والے حسین شاہ صاحب کہا کرتے تھے کہ اپنے پیاروں کا جنازہ پڑھنا بھی قسمت والوں کو نصیب ہوتا ہے ۔ آج کل کی خود ساختہ مصروفیات، غم روزگار، روایتی تساہل کی وجہ سے ہم شاہدلغاری کے والد کی نمازہ جنازہ میں شرکت نہ کر سکے۔ لیکن کوٹ مٹھن جانا ناگزیرٹھہرا۔ ایک سرائیکی کہاوت کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ "جانے والے " بھول جاتے ہیں لیکن "آنے والے " یاد رہ جاتے ہیں۔ سفر تنہا نہیں کٹتا چاہے وہ زندگی کا ہو یا کوٹ مٹھن شریف کا، اس لیے ہم نے مصطفی اور زبیر کو بلا لیا ، یہ ہمارے ایسے دوست ہیں ، جیسے مشتاق احمدیوسفی کا مرزا عبدالودود بیگ۔ مصطفی صاحب نے اسلامیہ یونیورسٹی بغداد کمپس سے آنے میں اتنی دیر لگا دی جیسے وہ بہاول پور والے بغداد سے نہیں عراق والے بغداد سے آ رہے ہوں۔ اور زبیر کے تیس منٹ کو ہم ویسے بھی چار سے ضرب دیا کرتے ہیں، جب یہ دونوں ہمارے پاس پہنچے توگھڑی رات کے دس بجا چکی تھی۔
قصبہ ظاہر پیر میں ہم نے رشید خان کے پاس جانا تھا اور پھر وہاں سے کوٹ مٹھن تک۔ رشید ہمارے دیرینہ دوست ہیں، وہ خودبہاول پور نہ بھی آئیں لیکن ہر سال "میٹھے اور زیادہ آم" بھجوانا نہیں بھولتے۔ خیردو گھنٹوں کی" مختصر " میٹنگ کے بعد طے یہ ہوا کہ جنوری کی رات بارہ بجے دریا سندھ کے کنارے رشید خان کے پاس پہنچنے کا ٹائم کچھ زیادہ مناسب نہیں، سو معاملہ صبح پہ اٹھا رکھیں۔ اگلے دن صبح سات بجے ہم نیو حبیب خان بادامی باغ لاہور والوں کی لمبی بس پہ روانہ ہوئے۔ رشید خان اور زبیر جنوبی پنجاب کے روایتی زمیندار ہیں ، چند ایکڑ کپاس ، گندم یا گنا اگا کر قوم پہ احسان عظیم کرتے ہیں اور پھر سارا سال ان کا موضوع سخن گاڑیوں کے نئے ماڈل، کھاد اور سپرے کی نئی کمپنیاں ،مقامی تھانے کے وڈے نکے تھانیدار اورکسی بھی قسم کا کام نہ کرنے والے ممبران اسمبلی ہوتے ہیں ۔ گنے کی فصل بیچنے کے بعد رشیدنے نئی گاڑی لی ہوئی تھی اور اسی گاڑی پہ ہی ہم نے کوٹ مٹھن تک جانا تھا۔قصبہ ظاہر پیر سے چاچڑاں شریف کچھ منٹ کی مسافت پہ ہے، ہم کوٹ مٹھن شریف کا احوال کسی اور وقت کے لیے اٹْھا رکھتے ہیں۔ پیر فرید کی جنم بھومی چاچڑاں شریف نے ہی ہمیں اپنے سحرمیں جکڑ لیا تھا۔عظیم سندھو کے کنارے بسیایا ہوا قدیم قصبہ چاچڑاں شریف دریا کے زیریں اور بالائی میدانوں کا حسین سنگم ہے، پچیس سال پہلے بچپن میں ہم اماں کے ساتھ رحیم یارخان جاتے ہوئے چاچڑاں شریف کے کشتیوں والے جھولتے پلوں سے گزرے تھے، وہ جھولے اب بھی ویسے ہی ہیں۔ چاچڑاں کا اجڑا ریلوے اسٹیشن ، کسی معدوم ہوتی تہذیب کا پتہ دیتا تھا، وہاں پر بچھائی جانے والی ریلوے لائن کے نشان تو باقی ہیں لیکن لوہا کسی میٹرو یا اورنج کے کام لگ گیا ہے۔

سندھو، اباسین، انڈس یا سندھ کے اوپر سے جھولتے ہوئے گزرنا ایک چھوٹا سا المیہ تھا۔ ان لوگوں کے ساتھ اور بھی " چھوٹے چھوٹے" المیے ہوتے رہتے ہیں،جیسے کسی دن بھینس کا دودھ نہ دینا، شوگر مل مالکان سے ایک سال بعد کاشتکاروں کو معاوضہ کا ملنا، کپاس کی فصل کا دریا برد ہوجانا، کوئی ٹریکٹر ٹرالی الٹنے سے راستے کا دس پندرہ گھنٹوں کے لیے بند ہوجانا، ادھار کے نام پہ سپرے ، کھاد ، بیج سود پہ لینا۔ درجنوں لوگوں کا کشتی سمیت پانی میں بہہ جانا۔ یہاں سب " چھوٹے چھوٹے " المیے جمع ہیں۔ اہل نظر کہتے ہیں کہ بہت سے چھوٹے چھوٹے المیے ایک عظیم المیے کو جنم دیتے ہیں، ویسے سندھو کے جزیروں میں رہنے والوں کو نہیں پتہ کہ المیہ ہے کیا؟، آنکھوں سے آنسو کیوں جاری ہوتے ہیں؟ اور مسکراہٹ کس چڑیا کا نام ہے، یہ احساسات کیا ہوتے ہیں، کیا کچے میں رہنے والے لوگوں کے احساسات بھی ہوتے ہیں؟ احساس کا ہے کو؟ ان جزیروں میں پیدا ہونا، کام کرنا اور مر جانے کا نام زندگی ہے۔ یہاں کے باسیوں کی نیند کا آرام سے تعلق نہیں لیکن بدن کا مٹی سے تعلق ضرور ہے ، یہاں کوئی مذہب نہیں ہے ۔ یہ لوگ مہانڑے ہیں، تھوڑے مسلماں تھوڑے ہندو۔ میں نے ایک سے دریافت کیا یہاں ذائقہ میں سب سے بہترین مچھلی کون سی ہے، اس نے کہا "صاب جی دو ورھیاں توں مچھی نئیں کھادی ، پکڑائی دا بالیں داگھیو ، تیل گھندے سے " ( دو سال سے مچھلی نہیں کھائی، جو پکڑتے ہیں، اس کو بیچ کر بچوں کا راشن لے لیتے ہیں)۔

Advertisements
julia rana solicitors

دریا ، دریا والوں کوبھی بھوک دے رہا ہے، ان جزیروں میں خوشی اور غم کے درمیاں کوئی فاصلہ نہیں۔ یہاں صرف ایک نقطہ ہے کہ زندہ رہا جائے اوربس! بے نظیر کے نام پہ اب ایک پْل بن رہا ہے ، امید ہے وہ الیکشن 2018 کی الیکشن مہم کے کام آئے گا۔ البتہ سی پیک والے اپنا کام تیزی سے مکمل کر رہے ہیں۔سندھو کے ان جزیروں میں ہم نے گوپے بھی دیکھے، مردوں نے سرخ رنگ کے شلوار قمیض اور خواتین نے ساڑھی سے ملتا جلتا لباس جس میں نارنجی رنگ کی چولی اور سرخ یا سبز رنگ کا چمکتا گھا گھرا پہن رکھا تھا، ، یہ دریائی لوگ بھی کتنے جھوٹے ہیں اپنی محرمیوں کو تیز رنگوں میں چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اس جھوٹ اور سچ کا فیصلہ بھی وقت کے بہاؤ کے ساتھ ہو جاتا ہے،خلیل جبران کے الفاظ میں وقت کا بہاؤ سفید کبوتر کے ایک کالے پرکو کالے کبوتر کا سفید پر بنا دیتا ہے۔ فیض نے کہا تھا ہم دیکھیں گے تو۔۔۔ ہم نے وقت کے بہاؤ کو ایک طرف رکھا اور دیکھا۔۔۔ سی پیک کے بے نظیر پل پہ ایک خوبصورت ٹرام مہانڑوں سے لدی ، پھولوں سے بھری ، شیردریا کے اوپرسے جا رہی تھی اور چاچڑاں شریف ایسے لگ رہا تھا جیسے روم کی گلیاں۔ دریا کے دوسرے کنارے پہ مجسمہ آزادی سے بھی بلند پیر فرید اپنے ہاتھوں میں دیوان لیے کھڑا تھا۔ اسلام آباد کی سڑکوں اور کراچی کے سی ویو پہ رکھے ہوئے تمام مردہ کنٹینر گوادر کی جانب گامزن تھے۔سندھو کا سارا پانی جیسے دودھ، اجلا ، نکھرا نکھرا ہم نے رنگوں کا اور پانی کا لمس محسوس کرنا چاہا مگر ہاتھ نہیں اٹھ سکا۔ لاکھوں ٹن مٹی ، وقت کے سینکڑوں ہزاروں سال کے بہاؤ نے ، ہم سے عمل کی طاقت چھین لی تھی، ہمارا ہاتھ نہیں اٹھنے دیاگیا۔۔۔ زندگی کب کی ختم ہوگئی تھی۔ صرف سنا جاسکتا تھا۔۔۔ دیکھا جاسکتا تھا۔۔۔۔ ہم دیکھیں گے۔۔۔ لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔سینکڑوں ہزاروں سال بعد!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply