ہنگامہ ہے کیوں برپا/شکور پٹھان

اکبر کو حیرت تھی کہ ہنگامہ ہے کیوں برپا ؟۔۔یہاں یاروں کو حیرت نہیں یقین ہے کہ ہنگامہ نہیں ، ہنگامے ہیں جو اس ناچیز کے قدوم میمنت لزوم کی ولایت آمد کے رہین منت ہیں۔ بدخواہوں نے اسے “ سبز قدم” سے تعبیر کیا، جسے خاکسار نے جو اہل زبان نہیں ہے اور شدید “نااہل زبان” ہے، مبارک قدم سمجھا کہ سبزہ تو خوشحالی کی علامت ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہریالی سے بھرپور انگلستان میری آمد کے کچھ دنوں بعد خشک بھوری زمین میں تبدیل ہوگیا۔لیکن یہ بات ذرا بعد میں آئے گی۔ پہلے ذرا انگلستان آمد اور اس سے ذرا قبل کا احوال سن لیں۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے سارے طوفان میری آمد کے منتظر تھے۔
چالیس سال متحدہ عرب امارات میں رہ کر وہاں سے اپنا بوریا بستر سمیٹنے کی ایک طویل داستان ہے جسے کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھئے۔ چونکہ دوبئی سے ہمیشہ کے لئے جارہا تھا تو جہاں دوسروں رشتہ داروں کی الوداعی ملاقاتیں اور دعوتیں جاری تھیں، سوچا بغل میں واقع بحرین جاکر اپنے محبوب چچا کو بھی مل آؤں کہ نہ جانے دوبارہ کب آنا ہو۔ یہیں سے شاید ہنگاموں اور واقعات نے میرے قدموں کی آہٹ جان لی تھی کہ صبح بحرین پہنچا اور شام کو چچی، ان کی بیٹی اور ان کی ملازمہ کو کرونا نے آلیا۔ مجھے چونکہ دوہفتے بعد طویل سفر کرنا تھا چنانچہ چچا کو خدا حافظ کہہ کر دوسری صبح ہی واپسی کی راہ پکڑی۔
لیکن بحرین سے خالی ہاتھ نہیں آیا تھا۔ کرونا بھی میرے ساتھ ہی آیا تھا، پہلی بار منفی لیکن دو دن بعد مثبت نتیجہ آنے کے بعد دس دن کے لئے گوشہ نشین ہونا پڑا۔ لیکن کرونا کا تحفہ وافر مقدار میں میرے ساتھ تھا ، اہلیہ اور میری بہو بھی اس کا شکار ہوگئے۔ ادھر بحرین میں چچا کا ڈرائیور، ان کی دیکھ بھال کے لئے آنے والا “ میل نرس”، اس کی بیوی اور بچہ بھی “ کرونا پازیٹیو “ ہوگئے۔ چچا کے بیٹے جو دوبئی میں ہوتے تھے فورا” اپنے گھر والوں کی نگرانی کے لئے پہنچے اور کرونا کی لپیٹ میں آگئے اس طرح دس بارہ لوگ اس کا شکار ہوئے، جس کی ابتداء میری بحرین آمد سے ہوئی۔ میرا بیٹا ہم سب کی نگہداشت کرتا رہا اور محفوظ رہا۔ ہم لندن پہنچے اور وہ دوسرے دن کینیڈا پہنچا جہاں سے اس کا فون آیا کہ اسے بھی کرونا ہوگیا ہے۔ بہرحال، وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ۔۔اللہ نے کرم کیا اور سارے مریضوں کو جلد شفایاب کردیا۔
دوبئی سے آتے ہوئے امارات ائرلائن میں جو لچھ ہم پر گذری وہ ایک الگ مضمون کی متقاضی ہے اور وہ صرف ہم میاں بیوی پر گذری، عالمی حالات اس سے متاثر نہیں ہوئے، چنانچہ اس کا ذکر یہاں بے محل ہے۔
بے محل تو انگلستان آمد کے بعد میری اپنی طبیعت کا بگڑ جانا بھی ہے لیکن برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ جس مرض کے لئے میں پچھلے آٹھ ماہ سے پریشان تھا اور کراچی، دوبئی اور شارجہ کے ڈاکٹروں کو دکھانے کے باوجود ذرہ بھر بھی افاقہ نہ ہوا تھا، ایک ہفتے بعد بیٹی اصرار کرکے NHS یعنی برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے “ واک ان سینٹر” لے گئی جہاں باوجود اس کے کہ میں انگلستان کا شہری نہیں ہوں ، انہوں نے مجھے تفصیل سے دیکھا اور ایسی شافع دوا دی کی کہ صرف دو گولیاں جو ان ہی کی فارمیسی سے ملی تھیں ، کھاکر مجھے آرام آگیا اور اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اب تک خیریت سے ہوں۔ ساتھ ہی یہ بات سمجھ آگئی کہ لوگ باگ علاج کے لئے لندن صرف سیاسی مجبوری سے ہی نہیں جاتے، وہاں واقعی بہترین علاج بھی ہوتا ہے۔
طبیعت سنبھلی تو میں اپنی حرکتوں پر اتر آیا یعنی لکھنا لکھانا پھر سے شروع ہوگیا اور بیماری کے باعث اپنے نحیف لاغر جسم کو اپنی اسمارٹنیس سمجھتے ہوئے، گوروں کے بڑھتے ہوئے موٹاپے پر ایک مضمون لکھ مارا، جو آج مجھے کچھ قبل از وقت محسوس ہوتا ہے کہ گورے اتنے برے بھی نہیں ہوتے اور یہ کہ سارے گورے اور گوریاں اتنے موٹے بھی نہیں ہوتے۔ شفایابی کی دوسری نشانی یہ تھی کہ برادر عزیز عابد علی بیگ کی معرکتہ الآراء تصنیف “ قومی ترانہ ، فارسی یا اردو” کی تعارفی تقریب میں شرکت کے لئے ناروچ سے لندن کا سفر اختیار کیا۔ یہاں عزیزہ رفعت مینا، بہت ہی پیارے اور پارے کی طرح متحرک سہیل ضرار خلش کے علاوہ لندن کی ممتاز ادبی شخصیات یعنی پروفیسر عقیل دانش صاحب اور بی بی سی کی محترمہ دردانہ انصاری سے بھی ملاقات رہی۔
لیکن میری آمد کے ساتھ ہی انگلستان کی سیاسی ہانڈی میں کھد بد ہورہی تھی۔ آنے سے کچھ دن پہلے وزیراعظم بورس جانسن ایک تحریک عدم اعتماد سے بچ نکلے تھے، (جبکہ ہمارے ہاں کی تحریک اعتماد کامیاب ہوگئی تھی)۔ لیکن بورس جانسن کے بارے میں یہاں بہت کچھ چل رہا تھا۔ یوکرائن کی جنگ ، پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، مہنگائی وغیرہ تو شاید پورے یورپ، بلکہ ساری دنیا کے مسائل تھے لیکن جانسن صاحب اور بھی کئی باتوں کی وجہ سے شدید تیراندازی کی زد میں تھے جس میں سرفہرست “ کرس پنچر” نامی صاحب کی تقرری تھی جن کے چال چلن پر بہت سے سوالات تھے۔ اس کے علاوہ بورس جانسن، کرونا کے دنوں میں پابندیوں کی خلاف ورزی کرنے اور ایک سالگرہ کی تقریب میں شرکت کرنے پر شدید تنقید کی زد میں تھے ( تحریک عدم اعتماد بھی شاید اسی سلسلے میں تھی ) ۔
یہاں کے اخبارات، ٹیلیویژن اور نجی محفلوں میں یہی تذکرہ سنائی دیتا۔ اسی ہنگام بورس جانسن کی قدامت پسند پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں جن میں موجودہ وزیر اعظم رشی سوناک، وزیر صحت ساجد جاوید اور دیگر نے استعفے دینا شروع کردئیے جس کے نتیجے میں جانسن صاحب نے اپنے منصب سے دستبرداری کا اعلان کردیا ( ویسے یہ بھی ایک موضوع بن سکتا ہے۔ ہمارے ہاں ہیں ایسی “ چھوٹی” اور ہلکی باتوں پر کوئی حکومت نہیں چھوڑتا)۔ میری بیٹی اور داماد کے دوستوں کے ہاں دعوتوں وغیرہ میں جب یہ تبادلہ خیالات ہوتے ( وہاں تبادلہ خیالات ہوتا ہے، ہمارے ہاں بحث اور تکرار ہوتی ہے) تو اکثر لوگ ترچھی نظروں سے ہمیں دیکھتے جیسے ہم ہی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں حالانکہ باؤلا سا بورس جانسن اپنے کرتوتوں کی وجہ سے اس انجام سے دوچار ہوا تھا۔ ہم غریب الوطنوں کا اس میں کیا قصور؟
اب ایک نئی بحث شروع ہوگئی کہ ٹوری پارٹی اگلا وزیراعظم کسے نامزد کرتی ہے۔ لز ٹرس، رشی سوناک، ساجد جاوید، ندیم ضحاوی اور تین خواتین کے نام ممکنہ امیدواروں کے طور پر سنائی دیتے۔ لیکن یہ پاکستانی بھی انگلستان جا کر گوروں کے رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ بحث کے دوران نہ کوئی گالی گلوچ ہوتی، نہ کوئی کسی کو طعنہ دیتا، نہ کسی کا مذاق اڑاتا۔ تھوڑی دیر بات کرتے پھر چائے یا کھانے پر سب کچھ بھول جاتے۔ ایسی پھیکی اور خالی پھوس بحث میں ذرا مزہ نہیں آتا۔ اپنے ہاں کی منہ سے جھاگ اڑاتی، سرخ چہرے اور گرم تر زبانوں والی بحثیں یاد آتیں جہاں قریبی دوست اور رشتہ دار بحث کے بعد کئی دن ایک دوسرے کا منہ نہیں دیکھتے۔
وہ جو کسی نے کہا ہے کہ روم میں ہو تو رومنوں جیسی حرکتیں کرو۔ برطانیہ والوں کی سیاسی بحث تو کچھ پلے نہ پڑتی کہ ہم کسی سے واقف ہی نہ تھے چنانچہ لوگوں کی شکلیں دیکھتے رہتے۔ البتہ یہاں سیاست کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی کہ۔۔اور بھی دکھ ہیں زمانے میں سیاست کے سوا، اور لوگ باگ دنیا کی دوسری چیزوں میں بھی دلچسپی لیتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔
انہی دنوں ومبلڈن شروع ہوگیا۔ اب کسی کے منہ سے سیاست نہیں سنتے صرف یہ سنتے کہ کون سے راؤنڈ میں کون جیتا۔ نواک جوکووچ، ر فائیل نڈال وغیرہ کو تو خیر ہم بھی جانتے تھے۔ اینڈی مرے یہاں کا مقامی ہیرو ہے اور یاروں نے اس سے امیدیں لگا رکھی تھیں اور ہم نے بھی حق مہمانی ادا کرتے ہوئے، اپنے میزبانوں سے خیرسگالی کے طور پر اینڈی مرے کے لئے دعائیں کی جو اسی طرح پوری ہوئیں جیسی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لئے ہوتی ہیں، یعنی پوری نہیں ہوتیں۔ بہرحال اینڈی مرے، یا جئیے، ٹورنامنٹ آگے بڑھتا رہا ، سیمی فائنل سے پہلے نڈال زخمی ہوکر مقابلے سے باہر ہوگیا جس نے اس کے شیدائیوں کو نڈھال کردیا۔ فائنل مقابلہ جوکووچ اور نک کریوس کے درمیان تھا۔ اس کریوس کا نام انگریزی میں کرگس لکھا جاتا ہے چنانچہ یہ اجنبی نام ہماری ہمدردی سے محروم رہا کہ “ شاہیں کا جہاں اور کرگس کا جہاں اور”۔
انگریز ہر طرح کے کھیل کھیلتے ہیں بلکہ ہمارے کئی کھیل ان گوروں کی ہی دین ہیں۔ کرکٹ، ہاکی، فٹبال، والی بال، ٹینس، بیڈمنٹن اور یہ سارے الا بلا کھیل یہی فرنگی ہمارے ملک میں لائے تھے ورنہ ہم اپنے شطرنج، گنجفہ، چوسر، بٹیر بازی، مرغ بازی میں خوش تھے۔ شاید ہمیں راضی کرنے کے لئے انہوں نے برمنگھم میں کامن ویلتھ گیم منعقد کر ڈالے۔ کچھ دن اسی میں جی لگا رہا۔ ادھر ایشیا کپ کرکٹ کا ہنگامہ شروع ہوا اور ہم نے دیار فرنگ میں اس کا بھی جی بھر کے لطف اٹھایا۔
بورس جانسن والے معاملے میں لوگ ہمیں شک کی نظر سے دیکھ ہی رہے تھے ، ساتھ ہی ریل مزدوروں کی ہڑتال شروع ہوگئی، لوگوں کی نظریں کہتی تھیں کہ اب اور کیا کیا دکھاؤ گے کہ انگلستان میں شدید گرمی شروع ہوگئی۔ ایسی بری گرمی کہ کئی سالوں ( یعنی برسوں) کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ یہاں نہ مکان اس طرز کے بنے ہوتے ہیں کہ گرمی جھیل سکیں، نہ گھروں میں پنکھے وغیرہ ہوتے ہیں ۔رہے ائیر کنڈیشنر، وہ صرف بڑے دفتروں اور شاپنگ مال وغیرہ میں ہوتے ہیں۔ انگلستان کے گھروں کی برائی مقصود نہیں، سارے گھر ایک ہی طرز کے بنے ہوتے ہیں جس سے ہمارے ہاں کی طرح کا امیر وغریب کا فرق یہاں نظر نہیں آتا۔ یہ دنیا کے خوبصورت ترین مکانات بن سکتے ہیں بشرطیکہ “ مسلم شاور” ہر گھر میں لگالیں۔
انگلستان جس کی ،کنٹری سائیڈ، کی ہریالی بے مثال ہے، یہاں کا سبزہ پہلے زردی میں تبدیل ہوا، پھر بھورے رنگ کی سوکھی گھاس میں بدل گیا اور آہستہ آہستہ غائب ہونا شروع گیا۔ گھروں کے لان میں بھوری مٹیالی زمین ابھر کر سامنے آگئی۔ پانی کی قلت ہوگئی اور لان وغیرہ میں پائپ سے پانی نہ دینے کی ہدایات دی جانے لگیں۔ ایک نیشنل ایمرجنسی کا اعلان کردیا گیا۔ جو بھی جاننے والے ملنے آتے یہی کہتے کہ دوبئی کی گرمی ساتھ لائے ہو ورنہ پہلے تو ایسی گرمی کبھی نہیں پڑی۔
یہاں اہل انگلستان گرمی اور بارش کی کمی سے پریشان تھے ادھر وطن عزیز میں بارش اور سیلاب نے زندگی اجیرن کردی تھی۔ ٹیلیویژن پر سیلاب زدگان کی کس مپرسی دیکھ کر دل دہل جاتا۔ یہاں کے تقریباً ہر اردو چینل پر عطیات کی درخواست کے پروگرام مستقل چلتے رہے۔ وطن سے دور رہنے کا دکھ تھا لیکن شائد اس میں رب کی بہتری تھی کہ پاکستان میں رہ کر وہ کچھ نہ کرسکتے جو تھوڑا بہت یہاں رہ کر کیا۔ اپنے بچوں، رشتہ داروں ، دوستوں میں حتی الوسع کوشش کی کہ جس قدر ہوسکے مصیبت زدگان کی مدد کریں۔ میری بیٹی یہاں کی ایک مسلم تنظیم One Ummah کی رکن ہے انہوں نے ناروچ شہر کے بیچ ایک بہت بڑا کیمپ “ فنڈ ریزنگ” کے لئے لگایا جس میں پاکستانیوں اور مسلمانوں ہی نہیں گوروں نے بھی دل کھول کر عطیات دئیے۔
شاید اسی گرمی کا اثر تھا کہ یہاں کے رہنے والے پاکستانی اور بھارتیوں کے دماغ گھوم گئے۔ ایشیا کپ میں پاکستان اور بھارت کی ہار اور جیت کے نتیجے میں لیسٹر شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے جو ہندو مسلم فساد کی شکل اختیار کرگئے۔بورس جانسن، گرمی وغیرہ کے بعد اس نئے واقعے میں پھر لوگوں کی چہ میگوئیاں سنائی دیتیں کہ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا ( یعنی اس کا کھرا بھی ہماری جانب نکلتا تھا)۔
ادھر جانسن صاحب کی حکومت ختم ہوئی اور ٹوری پارٹی نے “لزٹرس” کو وزیراعظم نامزد کردیا جنہوں نے ۶ ستمبر کو ملکہ سے ملاقات کے بعد اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ خاکسار نے ملکہ اور محترمہ ٹرس کی تصویر اپنے فیس بک پیج پر لگائی تھی کہ اگلے دن ملکہ برطانیہ کی سناؤنی آگئی۔
ملکہ الزبتھ دنیا کی تاریخ کی دوسری طویل ترین عرصہ رہنے والی حکمراں تھیں۔ وہ ستر سال سے تخت پر متمکن تھیں۔ ہمارے آنے سے یہ سب سے بڑی تبدیلی تھی جو برطانیہ میں پیش آئی۔ اب تو لوگوں کو یقین ہوگیا کہ یہ سب کچھ ہماری برطانیہ آمد کے سبب ہے ورنہ نوے سال میں اتنی گرمی کب پڑی تھی اور ستر سال میں کسی برطانوی بادشاہ یا ملکہ کا انتقال کیوں نہیں ہوا۔ اب ہم کیا کہتے، ہم ہنس دئیے، ہم چپ رہے، بات تو سچ تھی، لیکن بات تھی رسوائی کی۔
اس میں بہرحال نئے بادشاہ چارلس کے لئے ایک مثبت پہلو تھا۔ تہتر سال سے وہ فارغ بیٹھے تھے، اب برسر روزگار ہوگئے۔ ان کو تو ہمارا ممنون ہونا چاہئے تھا لیکن ان کی تصویروں میں ان کا شاکی چہرہ کہتا تھا کہ “ اب مرے پاس تم آئے ہو تو کیا آئے ہو” اس سے پہلے آنے کو موت پڑتی تھی۔ یہ شرمندگی لئے ہم نے بھی واپسی کا فیصلہ کرلیا اور اپنا بوریا بستر باندھ لیا اور عروس البلاد کراچی کی راہ لی۔
کراچی پہنچے ہفتہ بھر بھی نہ ہوا تھا کہ خبر ملی کہ محترمہ لز ٹرس نے استعفا دے دیا۔ وہ صرف چوالیس دن وزیراعظم رہیں۔ ہم نے مطمئن ہوکر اپنے داماد کو لکھا کہ کم از کم اس میں ہمارا قصور نہیں ۔ یہ سب ہمارے آنے کے بعد ہوا۔
“ لیکن انکل، انہیں لائے تو آپ ہی تھے؟” یہ ہمارے داماد کا جوابی پیغام تھا۔
پس نوشت: کراچی آنے کے دوسرے ہفتے ایک نوجوان صحافی کا کینیا میں افسوسناک قتل ہوگیا، فوج کے شعبہ اطلاعات اور سراغ رسانی کے سربراہوں نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس کی، ہمارے محبوب ، خان صاحب نے اپنا محبوب مشغلہ یعنی لانگ مارچ شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ کراچی والے بھی اب ہمیں کچھ عجیب و غریب اور مشتبہ نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ جائیں تو جائیں کہاں ؟

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply