عیدالاضحی (17)۔۔وہاراامباکر

بخت خان کے بعد دہلی میں امیدیں بڑھ گئی تھیں۔ 9 جولائی کا حملہ بے حد کامیاب رہا تھا لیکن انٹیلی جنس نہ ہونے کی وجہ سے دہلی میں خبر نہیں ہوئی تھی کہ نئی حکمتِ عملی کتنی کامیاب جا رہی ہے۔ بخت خان کی خوبیوں میں معاملہ فہمی نہیں تھی۔ اور اس وجہ سے جلد ہی اختلافات شروع ہو گئے۔ جولائی کے آخر میں چہ میگوئیاں زور پکڑنے لگیں۔ اور جب 29 جولائی کا حملہ بارش کی وجہ سے ملتوی ہو گیا تو ظفر نے کہا، “جو آپ لوگ ساتھ لائے تھی، وہ خرچ ہو چکا ہے۔ ہمارا خزانہ خالی ہو چکا ہے۔ فتح کی طرف کچھ بھی پیشرفت نہیں ہوئی۔ کئی سپاہی مایوس ہو کر واپس جانا شروع ہو گئے ہیں”۔

اور اس وقت کسی کو حیرت نہیں ہوئی جب بخت خان کو کمانڈر انچیف کے عہدے سے جولائی کے آخر میں برطرف کر دیا گیا اور کمانڈ دس رکنی کمیٹی کے سپرد کر دی گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جولائی کے آخر میں آنے والے ایک اور مسئلہ عیدالاضحیٰ کا تھا۔ اس میں ٹونک کے کچھ غازیوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ بکرا یا دنبہ ذبح نہیں کریں گے بلکہ صرف گائے ہی کریں گے، سرِعام کریں گے اور یہ جامع مسجد کے آگے ہو گا۔ اور جس ہندو نے اسے روکنے کی کوشش کی، اس کا بھی سر اتار دیا جائے گا۔ ہم دین کی خاطر لڑنے آئے ہیں اور شہادت خواہ ہندو کے ہاتھ سے آئے یا فرنگی کے، سب برابر ہے۔

اس اعلان سے کچھ ہی دیر بعد کچھ ہندو سپاہیوں نے پانچ مسلمان قصابوں میں گلے کاٹ دئے کہ انہوں نے گائے کو مارا ہے۔ شہر میں ہندو مسلم فسادات کا بحران صاف نظر آ رہا تھا کیونکہ نصف آبادی ہندو تھی اور نصف مسلمان۔ ظفر ہمیشہ اس میں توازن رکھتے آئے تھے۔ انہوں نے اس پر فوری ایکشن لیا اور اعلان کیا کہ جس نے گائے کو ذبح کیا یا گائے کا گوشت کھایا۔یا کسی کو ذبح کرنے کو کہا تو اسے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا جائے گا۔ اس کے بعد شہر کی انتظامیہ کو حکم جاری کیا کہ تمام گائے رکھنے والے مسلمانوں کی فہرست بنائی جائے۔ یہ پانچ سو سے ایک ہزار کے درمیان تھیں۔ ان سے عہد لیا گیا کہ وہ انہیں ذبح نہیں کریں گے۔ مفتی اعظم صدرالدین کو مجاہدین سے مذاکرات کے لئے بھیجا گیا۔ صدرالدین نہ صرف عالم تھے بلکہ مجاہدین میں عزت
رکھتے تھے۔ سرسید کے مطابق داناوٗں کے دانا تھے۔ یہ کیسے کیا گیا؟ یہ تو ریکارڈ میں نہیں لیکن مولوی سرفراز اور دوسرے مجاہدین نے گائے کھانے کا ارادہ ترک کر دیا۔

بہادر شاہ ظفر کے بروقت لئے گئے اقدامات سے یکم اگست خیروعافیت سے گزر گیا۔ برٹش، جنہیں اس سب کی خبر جاسوسوں کے ذریعے تھی، بڑے ہنگاموں کی توقع کر رہے تھے لیکن یہ نہ ہو سکا۔ ہاروی گریٹ ہیڈ نے اس پر بڑبڑاتے ہوئے اپنی بیوی کو خط میں لکھا، “کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ مسلمان اپنے دین کے لئے لڑ رہے ہیں اور عید پر ایک مسلمان بادشاہ کے ہوتے ہوئے، ان میں سے کسی کو گائے ذبح کرنے کی اجازت بھی نہ تھی”۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عید پر ہونے والی ٹینشن ظفر کے لئے ایک ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ اڑھائی ماہ سے شہر میں لاقانونیت تھی لیکن اب شہر کا صدیوں پرانا امن بھی خطرے میں نظر آ رہا تھا۔ ظفر ڈیپریشن میں جا چکے تھے اور سوچیں بے ربط ہو رہی تھیں۔ ان کی وفاداری دہلی کے ساتھ اور مغلیہ خاندان کے ساتھ تھیں اور یہ لگ رہا تھا کہ نہ دہلی بچے گا اور نہ ہی ان کا خاندان۔ انہوں نے اپنے سسر کو اودھ کا نواب بنا دیا۔ اودھ سو سال سے مغلوں کے پاس نہیں تھا۔ ناراض سپاہی جنرلوں کو دکن اور گجرات کے صوبے دار کی پوزیشن دے دی۔ یہ علاقے اس سے بھی پہلے مغلوں کے نہیں رہے تھے۔

شاعری میں بھی ان کے موڈ کی طرح کبھی بہت مایوسی اور کبھی غیرحقیقی امید نظر آنے لگی تھی۔ سات اگست کو انہوں نے شعر لکھا کہ لندن جلد ہی ہمارے پاس ہو گا۔

بہادر شاہ ظفر کی ذہنی حالت کا اندازہ ایک خط سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے جھاجر کے نواب کو لکھا،
“موجودہ ناخوشگوار حالات میں ہم خود کو امورِ حکومت اور ملک چلانے کا اہل نہیں سمجھتے۔ ہم بوڑھے ہو چکے ہیں، اس ضعف میں اب وہی کرنا چاہتے ہیں جو خدا کو راضی کر سکے اور خلقِ خدا کو۔ ہم باقی وقت یادِ الہی میں گزارنا چاہتے ہیں”۔
اس خط میں وہ اپنے بہت ہی غیرعملی پلان کا ذکر کرتے ہیں کہ تیمور کے گھرانے کی تمام جائیداد مہروالی کے خواجہ قطب کے مزار کے لئے وقف کر دی جائے اور شاہی گھرانے کے افراد مکہ اور مدینہ کی مقدس زمین کی طرف چلے جائیں۔ نواب آف جھاجر کو حکم دیتے ہیں کہ جب وہ چلے جائیں گے تو دہلی کو نواب سنبھال لیں۔ اس کے لئے چار سے پانچ سو چھکڑے اور پانچ چھ سو اونٹ لے کر آئیں کیونکہ دہلی میں اضافی سواریاں نہیں۔ اس میں شاہی خاندان ہجرت کر جائے گا۔

نواب بہادر شاہ کے دوست تھے لیکن اس جنگ میں غیرجانبدار تھے۔ انہیں نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بادشاہ نے برٹش سے بھی معاملہ کرنے کے لئے مذاکرات کا مراسلہ بھجوایا۔ اگرچہ جنرل ولسن اور لارنس نے برطانوی حکومت کو مشورہ دیا کہ بات چیت کر لینے میں حرج نہیں۔ گورنر جنرل کیننگ نے منع کر دیا کہ کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔ ظفر کے ذہن میں بھی یہ خیال نہیں آنا چاہیے کہ جب بغاوت کچل دی جائے گی تو وہ واپس پرانی پوزیشن پر جا سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس میں شک نہیں کہ 1857 کی جنگ کا بڑا پہلو یہ تھا کہ یہ مذہبی جنگ تھی۔ لیکن یہ ایک عجیب صف بندی تھی۔ برٹش افواج میں زیادہ تر لوگ برٹش نہیں، ہندوستانی تھے۔ دوسری طرف ایک مسلمان بادشاہ کرسچن آرمی سے لڑ رہے تھے، لیکن جس نے یہ شروع کیا تھا، وہ زیادہ تر ہندو تھے جو خود اپنی مرضی سے بادشاہ کے پاس آئے تھے اور کہا تھا کہ انہیں بادشاہ کی سرپرستی اور ان سے برکت چاہیے۔ اور اس سے عجیب یہ کہ مغل فوجوں کی یکجہتی میں رخنہ آنے کی وجہ مسلمان جہادیوں کا گروپ تھا جو اب اس فوج کا نصف حصہ تھے اور دوسری طرف برٹش اس فورس سے مقابلہ کرنے کے قابل اس وقت ہوئے تھے جب نئی آرمی آئی تھی اور اس میں سب سے بڑی تعداد میں پٹھان اور پنجابی مسلمان تھے۔

برٹش افواج نے جب دہلی پر حملہ کیا تھا تو اس میں اسی فیصد مقامی لوگ تھے۔ ہندو سپاہیوں کی اودھ میں برٹش کے خلاف بغاوت سے شروع ہونے والی یہ جنگ جب ختم ہوئی تو باغیوں میں نصف سویلین جہادی تھے جو خیبر پختون خواہ اور پنجاب سے آنے والی مسلمان اور سکھ افواج کا مقابلہ کر رہے تھے۔

اور برٹش آرمی کے برٹش بھی زیادہ تر ملی جلی نسل سے تھے۔ جان رابرٹس صوم و صلوة کے پابند مسلمان تھے اور ان کی شادی شہزادی بیگم سے ہوئی تھی۔ جان فریڈ اردو زبان کے شاعر تھے جو “جان” کا تخلص استعمال کرتے تھے اور انگریزی پڑھنے سے قاصر تھے۔ اور ان کے بھائی انقلابی فوج کی طرف سے لڑ رہے تھے۔

اس مذہبی جنگ کی مذہبی صف بندی پہچاننا آسان نہیں تھا۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

ساتھ لگی تصویر اس آٹوگراف کی جو تھیو میٹکاف کو بہادر شاہ ظفر نے اپنے ہاتھوں سے نظم کی صورت میں لکھ کر دیا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply