ایک اچھوت پاکستانی

کیا آپ کبھی کسی بے ہنگم ہجوم کا حصہ بنے ہیں؟ جہاں رش ایسا ہو کہ کندھے سے کندھا ٹکراتا ہو. کسی کو آپ کی فکر نہ ہو. ہر انسان آپ کو دھکا مار کے بس اپنا رستہ بنانے میں دلچسپی رکھتا ہو. دائیں جانب والا بائیں جانب جا رہا ہو. بائیں جانب والا دائیں جانب آرہا ہو. کوئی غصے سے پھنکار رہا ہو، کوئی آستینیں چڑھائے لڑنے کو تیار ہو اور کوئی اپنا جرم ماننے کی بجائے آپ ہی کو مجرم بنانے کے درپے ہو. ایسی صورتحال کا سامنا کم از کم ایک پاکستانی کسی نہ کسی درجے جلوسوں میں، سڑکوں پر، بازاروں میں ضرور کر چکا ہوتا ہے. آپ کتنے ہی خوش اخلاق اور تحمل مزاج کیوں نہ ہوں؟ زیادہ دیر نہیں لگتی کہ آپ کی شخصیت پر بھی ایک جھنجھلاہٹ، ایک الجھن اور ایک غصہ حاوی ہوجاتا ہے. پھر یوں ہوتا ہے کہ آپ، آپ نہیں رہتے بلکہ اسی بے ہنگم ہجوم کا ایک بے ہنگم حصہ بن کر رہ جاتے ہیں. ایسے میں کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کون غلط ہے اور کون صحیح؟ اپنے سوا سب ہی غلط نظر آنے لگتے ہیں اور حالات اتنے ابتر محسوس ہوتے ہیں کہ ان کے درست ہونے کی کوئی امید رکھنا بھی آپ چھوڑ دیتے ہیں. ایسے میں اگر کسی طرح آپ اس ہجوم سے نکل کر کسی بلند کشادہ مقام پر پہنچنے میں دانستہ یا نا دانستہ کامیاب ہو جائیں جہاں آپ نسبتاً سکون سے سفر بھی کرنے لگیں اور اس مقام سے ہجوم کا بھی جائزہ لے رہے ہوں. اس صورت میں کچھ وقفے کے بعد آپ کے حواس بحال ہوجائیں گے. وہی تحمل مزاجی اور خوش اخلاقی واپس لوٹ آئے گی جو آپ کا اصلاً حصہ تھی. اب آپ کو ان حماقتوں کا بھی ادراک ہوگا جو آپ نے ہجوم کا حصہ ہوتے ہوئے کی تھی اور بلندی سے جائزہ لے کر یہ بھی جان پائیں گے کہ اس ہجوم کو کس طرح واپس منظم کیا جائے؟ ہجوم کا حصہ رہ کر جو الجھنیں آپ کو بہت بڑی لگ رہی تھیں، اب وسیع نظر سے ان کے معمولی ہونے کا احساس ہوگا اور حقیقی مسائل کی جانب نظر مرکوز ہوگی. اب آپ کو اس ہجوم میں شامل افراد پر غصہ نہیں آئے گا بلکہ ان کی تکلیف کا احساس کرتے ہوئے ان سے ہمدردی ہوگی. یہ احساس ہوگا کہ اس ہجوم میں موجود لوگ میری ہی طرح اچھے لوگ ہیں بس بدنظمی کا شکار ہوکر اپنی ہی اذیت کا سبب بن گئے ہیں.
.
ہمیں پسند آئے یا نہ آئے لیکن ہم پاکستانیوں کی کیفیت بحیثت قوم اسی بے ہنگم ہجوم کی سی ہے اور بیرون ملک مقیم محب وطن پاکستانیوں کی مثال شائد ان افراد کی جو دانستہ یا نادانستہ اس ہجوم سے نکل کر قدرے اونچے یا کشادہ مقام پر آگئے ہیں. آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے مسائل کا ادراک پاکستان میں بیٹھے افراد ہی کرسکتے ہیں. ہم کہتے ہیں کہ یہ گمان ایک درجے تک تو درست ہے مگر مسائل کی بھول بھلیوں سے نکلنے کا راستہ وہ شخص زیادہ بہتر بتا سکتا ہے جو خود ان بھول بھلیوں سے باہر ہو مگر اس کا مشاہدہ بلندی سے کرپارہا ہو. مسلمانوں کی قیادت کیلئے کیوں علامہ اقبال کی نظر کروڑوں کی آبادی والے ہندوستان میں موجود سینکڑوں رہنماؤں کو چھوڑ کر صرف جناح پر جا ٹکی؟ وہ جناح جو ملک چھوڑے بیٹھے تھے؟. مجھ سمیت دیگر محب وطن پاکستانیوں کو جو بیرون ملک اپنی مرضی یا کسی مجبوری کی وجہ سے آباد ہیں، مسلسل یہ طعنہ سننا پڑتا ہے کہ تم کون ہوتے ہو پاکستان کے حالات پر بولنے والے؟ اسکی کسی پالیسی یا نظام پر تنقید کرنے والے؟ شائد وہ افراد یہ چاہتے ہیں کہ ہم سب بھی ان چند پاکستانیوں جیسے ہو جائیں جو خود کو پاکستانی کہلانا ایک گالی تصور کرتے ہیں. جنہیں پاکستان کے سود و زیاں سے کوئی غرض نہیں. کیوں نہیں سوچتے یہ لوگ؟ کہ ہمارے دل آج بھی پاکستان ہی کے لئے دھڑکتے ہیں. آج بھی میز پر ٹائمز میگزین لندن اور جنگ اخبار پاکستان رکھا ہو تو لپک کر جنگ اخبار ہی اٹھاتے ہیں. آج بھی ہم پوری دنیا چھوڑ کر پاکستان ہی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، اسی کی زمین پر فلاحی ادارے قائم کرتے ہیں، اسی کی سیاست و صحافت سے دلچسپی رکھتے ہیں، اسی کی فوج کو اپنی فوج مانتے ہیں، اسی کو کھیل سے لے کر سیاست تک میں سپورٹ کرتے ہیں. اگر آپ معاشی اعداد و شمار نکالیں تو بیرون ملک بسے پاکستانی ملکی معیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کررہے ہیں. کیوں آپ مجھے اور میرے جیسے بیرون ملک بسے پاکستانیوں کو اچھوت بنا دینا چاہتے ہیں؟ کیوں آپ میں سے کچھ کی طبیعت ناگفتہ پر یہ گراں گزرتا ہے کہ ایک شخص بیرون ملک میں رہ کر بھی محب وطن ہوسکتا ہے؟ اپنے ملک کیلئے بات کرسکتا ہے؟ کون سا ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ملک ایسا ہے جس کے ان گنت شہری دنیا کے دوسرے ملکوں میں آباد نہیں؟ کیا وہ بھی اپنے ان شہریوں کو یونہی ملکی معاملات سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں؟ اور ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھاتے ہیں؟ ہرگز نہیں بلکہ انہیں مساوی تکریم حاصل ہوا کرتی ہے. ضروری ہے کہ ہم پردیس میں بسے پاکستانیوں سے خار کھانے کی بجائے انہیں اپنا سمجھ کر ان کے تجربات و صلاحیتوں سے استفادہ کریں.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply