ہم کہاں جا رہے ہیں؟۔۔محمد اسد شاہ

29 جولائی 2020کو ایک بار پھر ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جس نے ہر باشعور پاکستانی اور ہر سچے مسلمان کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔پشاور کی ایک عدالت میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ایک شخص نے مقدمے کے ملزم کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ ملزم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قادیانی مذہب کا پرچارک تھا اور اس کے خلاف اللہ کے آخری نبی سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں گستاخی کے الزام میں مقدمہ زیر سماعت تھا۔دستیاب معلومات کے مطابق مقدمے کے مدعی اور ملزم کے مابین چند سال قبل سوشل میڈیا کے ذریعے دوستی ہوئی۔مدعی نوشہرہ کا رہائشی، اور اسلام آباد کے ایک معروف مدرسے میں طالب علم ہے۔مدعی اور ملزم کے مابین فیس بک پر مذہبی مناظرہ یا مباحثہ بھی ہوتا رہا۔پھر دونو ں نے باہمی رضامندی سے پشاور میں رنگ روڈ کے ایک مشہور ہال میں رو بہ رو مناظرے کا وقت طے کیا۔مناظرے میں فریقین نے اپنے اپنے موقف پر دلائل دیئے۔ مدعی کے مطابق ملزم نے مرزا غلام قادیانی کی تائید کرتے ہوئے خود کو پندرہواں مجدد کہا۔مدعی نے 25 اپریل2018کو پشاور میں اس کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ملزم کو گرفتار کر لیا گیااور وہ گزشتہ سوا دو سالوں سے زیرحراست تھا۔ اس دوران اس نے ضمانت پر رہائی کی درخواست بھی کی، جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ گزشتہ دنوں بعض مخصوص غیر سرکاری تنظیموں نے اس کی رہائی کے لیے مظاہرہ بھی کیا۔

میرے خیال کے مطابق یہی مظاہرہ معاملات کی خرابی کا باعث بنا۔قارئین سوچیں گے کہ کیسے! بات یہ ہے کہ جب ایک مقدمہ عدالت میں زیرساعت ہے اور ملزم کو اپنی صفائی پیش کرنے کے تمام مواقع میسر تھے تو بلاوجہ احتجاجی مظاہرہ کر کے ایک حساس مقدمے کو سیاسی بنانا اور عدالت پر دباؤ ڈالنا چہ معنی دارد؟ مقدمے کو چلنے دیا جاتا تو عدالت گواہیوں، ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر قانون کے مطابق فیصلہ کرتی۔ جس فریق کو اس فیصلے پر اعتراض ہوتا اس کے پاس اپیل کا حق بھی ہوتا۔قاتل کو بھی مقدمے پر کسی بیرونی دباؤ کا خطرہ نہ ہوتا۔ورنہ سوچنے کی بات ہے کہ قاتل کو یہ خیال کیوں آیاکہ وہ عدالت کے فیصلے سے پہلے اپناذاتی فیصلہ نافذ کرتا، جب کہ مدعی نے تو ایک عالم دین ہونے کے باوجود خود کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایاتھا۔ اس معاملے کے تمام پہلوؤں پر غور کیا جائے تو ہمارے معاشرے اور نظام کے بہت سے نقائص سامنے آتے ہیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ امت مسلمہ، اللہ کے آخری نبی سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عزت و ناموس کے حوالے سے انتہائی حساس ہے اور اسے ہونا بھی چاہیے۔ہمارے آئین میں بھی اس حوالے سے واضح قوانین موجود ہیں۔ لیکن جب بھی ایسا کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے، عدالتوں کے طویل اور تھکا دینے والے معاملات، بعض قانونی موشگافیوں اور ان دیکھے دباؤ کا فائدہ ملزموں یا مجرموں کو ہی حاصل ہوتا آیا ہے۔پھر بعض نام نہاد غیر سرکاری تنطیموں کی دخل اندازی بھی معاملات کا رخ بدلنے کا باعث بنتی رہی ہے۔ہماری حکومتوں کے روئیے بھی شکوک وشبہات میں اضافہ کرتے ہیں۔گزشتہ سال آسیہ مسیح کی رہائی اور نہایت خفیہ انداز میں پاکستان سے باہر منتقلی کے حوالے سے عمران خان حکومت کے کردار پر بھی بہت سوالات اٹھے تھے، جن کا جواب آج تک سامنے نہیں آ سکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ لازمی نہیں کہ ہر ملزم مجرم ہی ہو۔اگر صاف اور شفاف انداز میں مقدمات کوچلنے دیاجائے،ججزکسی بھی دباؤ کو خاطر میں لائے بناء اپنے فرائض پوری ایمان داری سے ادا کریں، اور مقدمات کی تیز سماعت کا اہتمام کریں تو بہت سے ملزمان بے گناہ ثابت ہونے پر باعزت بری بھی ہو جائیں تو کوئی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش نہیں کرے گا۔ہماری پارلیمنٹ کو اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔الحمدللہ، ہمارے معاشرے میں علمائے کرام اور مذہبی راہ نماؤں کو بہت عزت حاصل ہے۔ چنانچہ انھیں بھی چاہیے کہ عوام کے اجتماعی شعورمیں بہتری کے لیے اپنا کردار نبھائیں۔ قرب قیامت اور فتنوں کے اس دور میں، جب کہ دنیا بھر میں مسلمان پہلے ہی بہت مشکلات اور مظالم کا شکار ہیں، ہمارا معاشرہ کہیں کسی لاقانونیت کے راستے پر نہ چل پڑے۔عدالتوں کو بھی اپنے معاملات کی شفافیت، اور انصاف کی تیز فراہمی پر غور کرنا ہو گا۔ دنیابھر میں عام رائے یہی ہے کہ لوگ تب قانون ہاتھ میں لیتے ہیں،جب انھیں عدالتوں پر اعتماد نہ ہو۔

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply