احاطہ حرمین نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مساجد۔۔۔منصور ندیم

مٹی کے ایک چھوٹے سے کمرے جس کا رقبہ 98 بائی 115 فٹ پر آج سے تقریبا ً چودہ سو سال پہلے بننے والی مدینہ کی دوسری مسجد، مسجد نبوی تھی ، جو آج عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور کے قدیم مدینہ کے شہر تک پھیل چکی ہے، مسجد کی وسعت کا پلان تا حال جاری ہے ، سابقہ سعودی حکمران شاہ عبداللہ نے سنہء 2012 میں میں جو منصوبہ مسجد کے پھیلاؤ کے لیے شروع کروایا تھا وہ تاحال جاری ہے، اس کے پایہ تکمیل تک پہنچنے پر مسجد میں 18 لاکھ افراد کے بیک وقت نماز ادا کرنے کی گنجائش موجود رہے گی، اس کے مطابق صرف مسجد کے مرکزی حصے کی عمارت چھ لاکھ 14 ہزار آٹھ سو مربع میٹر پر مشتمل ہوگی، جبکہ مسجد کے صحنوں کا مجموعی رقبہ دس لاکھ بیس ہزار پانچ سو میٹر پر پھیلا ہوگا، جس کے بعد تقریباً دس لاکھ افراد صرف مسجد کی مرکزی عمارت اور 8 لاکھ افراد بیرونی صحن میں بیک وقت نماز ادا کرسکیں گے۔

مسجد کے اندر خصوصی طور پر پر تیار کردہ خود کار دوہری تہہ والی 250 چھتریاں، جو تقریبا ایک لاکھ 74 ہزار میٹر علاقے کو سایہ فراہم کرسکتی ہیں۔ مسجد کا پھیلاؤ  تقریبا ً جنت البقیع کے تاریخی قبرستان کی دیوار تک پہنچ چکا ہے۔

چونکہ میں نے آخری عمرہ 27 جنوری سنہء 2020 کو اہلیہ و بیٹی کے ہمراہ کیا تھا، بعد عمرہ مکہ سے مدینہ روانہ ہوئے تو، ہوٹل کے کمرے کی ریزرویشن و آرام کے بعد اس دفعہ عہد کیا تھا کہ زیادہ سے زیادہ مدینہ کے تاریخی مقامات کو دیکھنے کی کوشش کرنی ہے، کافی نئے مقامات پر گیا، مگر اس مضمون میں صرف احاطہ حرمین مسجد نبوی پر ہی بات کروں گا۔

مسجد نبوی کے اس عظیم الشان پھیلاؤ میں احاطہ مسجد نبوی یا قریب احاطہ مسجد نبوی یہ تاریخی مساجد موجود ہیں۔

مسجد ابوبکر صدیق

یہ مسجد حضرت ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں نہیں بنائی گئی تھی ، بلکہ یہ جگہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں عید کی نماز کے لئے مخصوص تھی، یہاں اسے پہلی بار مسجد خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں بنائی گئی تھی، پھر عثمانی خلیفہ سلطان القانونی نے اس کی تجدید 1254 ہجری میں کی گئی تھی ، اور حال ہی میں اس کی مرمت اور بہتری پر کثیر اخراجات خرچ کیے گئے تھے۔ یہ مسجد کبھی تو روضہ رسول سے کافی فاصلے پر تھی، مگر گزرتے وقت کے ساتھ اب تقریبا ً یہ مسجد احاطہ مسجد نبوی میں آگئی ہے ، یہ مسجد بھی کافی عرصے سے بند ہے، اس پر پائے جانے والے فن تعمیراتی کردار کو بچانے کے لئے اس کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ اور اب وہی فن تعمیر جس پر اب ابو بکر مسجد ہے ، ایک ہزار دو سو چونسٹھ ہجری کا ہے ، جیسا کہ مسجد کے داخلی دروازے کے اوپر اس کے اشارے سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ یہ ترکی کی تعمیرات کی ایک شاندار نشانی ہے۔ تصویر کی موجودہ تعمیر و تزئین خلافت عثمانیہ کے 1264 ہجری کی ہی ہے۔

مسجد الغمامہ

مدینہ کی مسجد غمامہ، مسجد نبوی کے احاطے کے قریب ، باب السلام کے نزدیک یہ مسجد الغمامہ ہے ، اس کے بارے میں روایت ہے کہ یہاں اللہ کے رسول نے ایک بار قحط سالی میں نماز استسقاء کا اہتمام کیا تھا، ابھی نماز استسقاء سے پہلے خطبہ شروع ہی کیا تھا، کہ چند ابر کے ٹکڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر آ گئے ، اسی نسبت سے اسے مسجد الغمامہ، یعنی بادلوں والی مسجد کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد نماز استسقاء پڑھائی اور رحمت بھی برسی ۔

مسجد الغمامہ اس نام کے بارے میں ایک اور روایت یہ ہے کہ آپ نے یہاں پر عید کی ایک نماز کی امامت فرمائی۔ اس روز آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ اس لیے اسے الغمامہ کا نام دیا گیا۔ اس کے علاوہ اسی جگہ رسول اللہ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا فرمائی تھی۔

مسجد الغمامہ مسجد نبوی سے جنوب مغرب میں 500 میٹر کی مسافت پر تھی ، مگر اب یی قریب قریب احاطہ مسجد نبوی میں داخل ہورہی ہے۔ اس مسجد کا شمار حجاز کی قدیم ترین مساجد میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مسجد سعودی عرب کے ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ پہلی بار باضابطہ طور پر اس مسجد کی تعمیر عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ کے دور میں ہوئی تاہم اس کے بعد آج تک وقفے وقفے سے مسجد کی تعمیر ومرمت کا سلسلہ جاری ہے۔

مسجد الغمامہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک اس کا داخلی حصہ اور دوسرا مرکزی نماز ہال۔ مدخل مستطیل شکل میں قریبا 26 میٹر لمبا اور 4 میٹر چوڑا ہے۔ اس کی چھت پر پانچ گنبد قائم ہیں۔ وسطی گنبد مسجد کے داخلی حصے کے برابر اوپر ہے۔ مسجد کا داخلی حصہ شمالی سمت میں ہے۔

مسجد کا رقبہ تیس میٹراور چوڑائی پندرہ میٹر ہے۔ مسجد کی دو گلیریاں ہیں۔ مشرقی دیوار کے ساتھ مستطیل شکل کی دو کھڑکیاں ہیں جن کے اوپر دو چھوٹے روشن دان ہیں جب کہ ایک گول کھڑکی بھی بنائی گئی ہے۔ مسجد کی مغربی دیوار کا نقشہ بھی ایسا ہی ہے۔

جنوبی دیوار کے وسط میں محراب اور محراب کے دائیں جانے سنگ مرمر کا بنا ایک نو سیڑھیوں پر مشتمل مخروطی شکل کا منبر ہے۔ مسجد کا مرکزی درواہ لکڑی سے تیار کیا گیا ہے جس پر دور عثمانی میں مقدس عبارات تحریر ہیں۔ مسجد کا مینار اس کے شمال مغربی سمت میں ہے۔ مسجد کے بیرونی حصے کو سیاہ رنگ کے پتھروں سے ڈھانپا گیا ہے۔
اس کے باہر کبوتروں کی کثرت ہے ، یہاں اکثر زائرین ان کبوتروں کو دانہ ڈالتے ہیں۔ یہ تصاویر بعد بہت کی ہیں۔ اس وقت یہاں کافی کم رش ہے۔

مسجد عمر

مسجد نبوی کے حرم کے انتہائی قریب یہ قدیم مسجد عمر بن خطاب کے نام سے ہے، حرم نبوی کے گیٹ نمبر 8 سے سے قریب دو سو میٹر کے فاصلے پر پر واقع  یہ مسجد بلند و بالا ہوٹلوں کے درمیان میں گھری ہوئی ہے ، حرم نبوی کی توسیع و قرب و جوار میں زائرین کے لئے بلند و بالا ہوٹل کی وجہ سے عرصہ 30 سال پہلے یہ مسجد بند کردی گئی تھی، اب اس کی دوبارہ سے تزئین نو کی جارہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ : یہ تمام تصاویر  میں نے 27 جنوری 2020 کو خود اپنے موبائل فون سے بنائی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply