ہزار چوراسی کی ماں۔۔شمس

ایک مشہور ناول جس کا نام”ہزار چوراسی کی ماں” جو 1974 میں شائع ہوا اور 1975 میں کافی مشہور  ہوا۔اس ناول کے متلعق اس زمانے میں یہ بات مشہور  تھی کہ اس ناول کو پڑھنے والا رو لیتا ہے۔

آج بھی ایسا ہی ہے اگر کوئی پڑھنے والا لکھنے والے  کے احساسات کو گہرائی میں جا کر پڑھے اور اس درد کو محسوس کرے جو لکھنے والے نے بیان کئے ہیں۔

تو واقعی وہ بھی اس ناول کو پڑھ کر روئے گا۔

“ہزار چوراسی کی ماں”ایک درمیانہ طبقے کی عورت کی کہانی ہے۔جس کا بیٹا گم ہوگیا ہے،مگر پھر اچانک آدھی رات کو فون آتا ہے جس میں پولیس کی طرف سے بلاوہ آتا ہے۔کہ آ کر اپنے بیٹے کی لاش کی شناخت کر لو۔اس کا بیٹا نیکسلائٹ تحریک سے وابستہ تھا اور اسے ایک پولیس مقابلے میں مار دیا جاتا ہے۔بیٹے کے قتل کے باوجود اس کا باپ اپنے خاندان کی عزت بچانے کی فکر میں ہوتا ہے اور اس بات کو چھپانا چاہتا ہے کہ کہیں ان کے خاندانی نام کو نیکسلائٹ کے ساتھ نہ جوڑا جاے۔لڑکے کی ماں  کو ایسی کوئی فکر نہیں رہتی۔وہ مردہ خانے جا کر اپنے بیٹے کی لاش دیکھتی ہے تو اس کے پیر میں ایک نمبر 1084چسپاں ہے اس طرح وہ 1084 کی ماں کہلاتی ہے۔اب ہزار چوراسی کی ماں کی ایک نئی جہدوجہد شروع ہوتی ہے کیونکہ سیکورٹی فورسز اسے اپنے بیٹے کی لاش لے جانے کی اجازت نہیں دیتیں اور نہ ہی وہ “کریا کرم”کرسکتی ہے۔ لاش پر تشدد کے نشان ہوتے ہیں۔جس سے واضع ہوتا ہے کہ یہ کوئی پولیس مقابلہ نہیں ہوتا بلکہ ایک بہیمانہ قتل ہوتا ہے۔کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی سیکورٹی فورسز اس کے بعد بار بار “ہزار چوراسی کی ماں “کے گھر آتی رہتی ہے تلاشیاں لے کر اس کے بیٹے کی کتابیں اور ڈائریاں ضبط کر لی جاتی ہے۔یہ کہانی ایک ماں کے درد کو بیان کرتی ہے،ایک باپ کی بے بسی کو بیان کرتی ہے جو چاہ  کر بھی اپنے بیٹے کی لاش کو دیکھ نہیں پاتا ۔

اس کہانی میں قانون کے نام پر بے گناہوں کے بہیمانہ قتل کو بیان کیا گیا ہے۔اس کہانی پر 1998 میں گووند نہالنی نے ایک فلم بھی بنائی تھی۔

فلم ہزار چوارسی کی ماں کو بہترین فلم کا نیشنل ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

یہ شہر آفاق ناول لکھنے والی مصنفہ کا نام

“مہا شویتا دیوی ہے۔جو 14 جنوری 1926 کو ڈھاکہ میں پیدا ہوئی تھی۔ان کے والد منیش گھٹک ایک شاعر اورناول نگار تھے جبکہ ماں دھریتری دیوی ایک ادیبہ اور سماجی خدمت گار تھیں۔مہا شویتا دیوی کی ابتدائی تعلیم ڈھاکہ میں ہوئی لیکن تقسیمِ ہند کے بعد وہ ہندوستان آگئیں اور مغربی بنگال میں اقامت اختیار کی۔انہوں نے شانتی نکیتن میں وشوا بھارتی یونیورسٹی سے انگریزی میںآنرز اور کلکتہ یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم۔ اے کیا۔ انہوں نے بہت کم عمری میں افسانہ نگاری کی شروعات کی اور مختلف رسائل و جرائد میں ان کی تخلیقات شائع ہونے لگیں۔ان کا پہلا ناول ’ نٹی 1957 میں شائع ہوا۔

مہا شویتا دیوی کے نام لگ بھگ 100 ناول 20 کہانیوں کے مجموعے،ڈرامے،اور ترجمے ان کا اثاثہ ہے۔

پدم شری، پدم بھوشن، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، گیان پیٹھ ایوارڈ اور اس کے علاوہ رامون میگی سسے جیسے بڑے ایوارڈ ان کے حصے میں آئے۔

28 جولائی 2016 کو آج ہی کے دن مہا شویتا دیوی جیسی عظیم مصنفہ 90 سال کی عمر میں مغربی بنگال کے شہر کولکتہ میں انتقال کر گئ تھیں،لیکن آج بھی لوگ ان کے ناولز،تحریریں،بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔کیونکہ مہا شویتا دیوی نے جو بھی لکھا جب بھی لکھا، اس نے حق لکھا، سچ لکھا احساس لکھا اور درد لکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب تک لکھنے والے اپنے قلم سے سے سچ لکھتے رہیں گے مرنے کے بعد بھی وہ۔مہا شویتا دیوی کی طرح زندہ رہیں گے،!

Facebook Comments

Shams
بلاگر،شاعر پڑھنا،لکھنا مشاغل فوٹو گرافی کرنا ،فری اوقات میں فلمیں دیکھنا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply