کیا فلسفہ بھی ضروری ہے؟(دوسرا ،آخری حصّہ)۔۔۔مہک جہانزیب

میں نے یہ سوال کئی لوگوں سے کیا ہے جن میں کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبہ، اعلیٰ تعلیم کے ڈگری ہولڈرز، گھریلو اور پروفیشنل خواتین،عام مزدور وغیرہ ہر قسم کے لوگ شامل تھے۔کسی نے بھی ان سوالات کو بیکار یا فضول نہیں کہا بلکہ ان سوالات کو سُن کر ان کا پہلا تاثر کچھ یوں تھا جیسے وہ ان کی گہرائی اور سنجیدگی پر غور کرکے ان کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہوں۔ البتہ پھر کئی نے اس قسم کے مسائل کے حل کے حوالے سے وقت کی قلت جیسا جواز پیش کیا اور کئی لوگ گفتگو کا رُخ کسی اور جانب موڑ دیتے۔مجھے ایک گھریلو خاتون سے کی گئی اپنی گفتگو اچھے سے یاد ہے کیونکہ جوبھی ان کو جانتاتھا وہ ان کے حوالے سے یہ رائے رکھتا کہ وہ بہت گھریلو لیکن ساتھ ساتھ فیشن ایبل، بہت رکھ رکھاؤ رکھنے والی دنیاوی خاتون ہے۔ ایک دن میں نے ان سے یونہی گپ شپ میں ایسے سوالات کو مرکز بنا کر گفتگو شروع کی تو میں بےحد حیران ہوئی کہ وہ ایک بہت دانشوارانہ طور پر زندگی کے مسئلوں پر بات کر سکتی ہیں(چونکہ یہ گفتگو دو یا تین گھنٹوں پر مشتمل ایک طویل گفتگو تھی لہذا اسے قلم بند نہیں کر سکتی)۔مجھے اپنی ذات کے حوالے سے حیران کرنے کے بعد آخر میں ایک آہ بھر کر بولی:”بچپن میں میرے بہت عجیب اور غریب سوالات ہوا کرتے تھے جو میں اپنے والد(مرحوم) اور استادوں سے پوچھا کرتی تھی لیکن کبھی وہ مجھے زیادہ سوال کرنے پر ڈانٹ دیتے یا پھر بات ٹال دیتے تھے۔ اس رویے نے میرے سوالوں کا قتل کر دیا ہے۔ “یہ رویہ ہمارے ہاں عام پایا جاتا ہے۔ دراصل ہمارے بڑوں کو خود اپنی اقدار اور روایات اپنے بڑوں سے ملی ہوتی ہیں ۔ اُن کی ڈانٹ ڈپٹ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انہوں نے اندھے بھروسے تلے اپنی زندگی بسر کی ہے ۔ کبھی اپنے عقیدوں پر سوال اُٹھانے کی زحمت نہیں کی کہ آیا یہ صحیح بھی ہے یا نہیں۔ یا کسی نظریہ کو ماننے کے لئے یہ کوئی جواز ہو سکتا ہے بھلا کہ یہ میرے بڑوں کا ماننا تھا؟ کیا یہ اتنی بڑی دلیل ہے کہ جو کسی فرد کو اپنی پوری زندگی ان روایات تلے مطمئن ہوکر گزارنے پر آمادہ کر سکے؟ میرے خیال میں معاملہ اس کے برعکس ہوتاہے۔
فلسفہ وہ علم ہے جس کا مُدعا انسانی زندگی سے جُڑے انتہائی باریک اور اہم مسئلے ہیں جن میں سے چند  کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ یوں فلسفہ سماج میں موجود اندھے اعتماد کے بتوں کے لئے ایک کلہاڑے کی سی حیثیت رکھتا ہے جو کہ اس کا قتل کرکے انسان میں استدلال کرنے کی  عادت کوپروان چڑھاتا ہے۔ فلسفہ کوئی آفاقی علم نہیں بلکہ یہ اپنے مُدعوں کا انتخاب اسی دنیا میں رائج ضابطوں کے مشاہدے سے ہی کرتاہے۔Ayn Rand اپنی کتاب ”فلاسفی: ہُو نیڈز اٹ (Philosophy: Who Need’s it) میں ایک کہانی کے ذریعے فلسفے کے اہم مُدعوں پربحث کرتی ہے۔ لکھتی ہیں کہ “فرض کریں کہ آپ ایک خلانورد(astronaut)ہیں۔ آپ کی گاڑی خلاءمیں بے قابو ہوکر آپ کے کنٹرول سے باہر ہوجاتی ہے۔ ہوش سنبھالنے پر آپ خود کو ایک انجان جگہ پر پاتے ہیں۔ آپ کے ذہن میں سب سے پہلے یہ تین سوال آئیں گے کہ میں کہاں ہوں؟ میں یہاں کیسے پُہنچا؟ اور مجھے اب کیا کرنا چاہیے؟ “ان کا ماننا ہے کہ تمام تر بنی نوح انسان کی زندگی ان تین سوالوں کی کھوج کے گرد گھومتی ہے پھر چاہے انسان یہ عمل شعوری طور پر کرے یا لاشعوری طور پر۔اور فلسفہ وہ علم ہے جس کا مرکز یہی تین سوال ہیں۔
یہ سوال اتنے سادہ نہیں کہ کوئی شخص ان کے جواب میں یہ کہہ دے کہ میں فلاں ملک کے فلاں شہر میں ہوں۔ میں یہاں کا ویزا لگوا کر یہاں پہنچا اور مجھے اب نوکری کرنی ہے وغیرہ۔ یہ سوال انسانی وجود ، اس کے علم اور عمل سے تعلق رکھتے ہیں۔ Ayn Rand کی طرح کئی فلسفی فلسفہ کے مضمون کوتین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔پہلا حصہ انسان کے وجود کے مُدعے کے حوالے سے ہے یعنی انسانی وجود کے لئے بنیادی دلائل اس حصے میں دیئے جاتے ہیں۔ دوسرا حصے میں نظریہ علم کو زیر بحث لایا جاتا ہے کہ اپنی ذات اور اپنے آس پاس پھیلی دُنیا کا ادراک کیسے ممکن ہے؟اور آخری حصہ کا گھیرا ا خلاقیات اور اخلاقی اقدار تک پھیلا ہے۔جبکہ کچھ مصنفین اس کو چار حصوں میں تقسیم کرتے ہیں اور چوتھا حصہ سیاست کی نذر کرتے ہیں۔اس طرح فلسفہ کی وسعت انسان کے کُل حیات تک پھیلی ہوئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسے تمام علوم کی ماں بھی کہا جاتا ہے۔
اگر فلسفہ اتنا اہم ہے تو اسے ہمارے ہاں اتنی اہمیت کیوں نہیں دی جاتی؟
مشہور جرمن فلسفی کارل مارکس کہتا ہے کہ “سماج میں ہمیشہ حکمران طبقے کے نظریات غالب ہوتے ہیں”۔ہم جس سماج میں رہتے ہیں اس میں نظریات مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مرہون منت پنپتے ہیں اور مارکیٹ میں وہی نظریہ یا مضمون اپنی جگہ بناتا ہے جس کی اسے ضرورت ہو۔مارکیٹ کو کس وقت کس مضمون اور نظریے کی ضرورت ہے ، یہ طے کرنےوالے آپ یا ہم نہیں بلکہ حکمران طبقہ ہوتا ہے۔فلسفہ کو ہمارے سماج میں نظرانداز کرنے کے پیچھے اس سوچ کا بہت عمل دخل ہے۔ حکمران طبقہ جوکہ عوام پر مسلط ہی اس شرط پر ہے کہ فرد باقی لوگوں کی طرح اس تصور کو چھیڑےبنا کہ اس سماج کو تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے،معاشرے کے ضابطوں کو قبول کرلے۔ ایسے میں بالادست طبقات لوگوں میں تنقیدی جائزہ ،اختلاف کو حسن سمجھنے کے رویے کو پروان چڑھانے والے فلسفہ جیسے مضمون کی کیونکرتائید کریں گے؟ یہ تو اپنے پیر پر خود کلہاڑی مارنے جیسا ہے۔ مارکیٹ پر غالب سوچ لین دین کی ہوتی ہے۔آپ اپنے آس پاس سماج کا مشاہدہ کریں گے تو ہر چیز کو اہم یابیکار گرداننے کے پیچھے یہی سوچ ہوتی ہے کہ اس عمل سے کیا ملتا یا کیا کھوتا ہے۔ جہاں سماج کی ہرشے کو دیکھنے کا چشمہ یہی ہے وہی علم اور تعلیم کو بھی اسی انداز سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے سماج میں اسی مضمون کی پڑھائی پر پیسہ خرچ کیا جاتا ہے جس کا  سکوپ ہو یعنی جو مضمون اُتنا پیسہ وصولنے کی ضمانت دے جتنا کہ اس پر خرچ کیا جارہا ہے۔ آج کی جدید انڈسٹری کو چونکہ فلسفہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے فلسفہ کا مضمون یہ ضمانت دینے میں کافی پیچھے ہے۔
ایک اور عامل جو کہ فلسفے کو پیچھے دھکیلنے میں پیش پیش ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ سماج میں انسا ن کی زندگی بہت مختصر اور بے انتہامادی بنا دی گئی ہے۔صبح ایک مقررہ وقت پر اُٹھنا، کام پر جانا ، وہاں مشینوں میں مشین جیسابن کر کام کرنا، شام کو گھرآکر چائے، تھوڑی دیر ٹی وی اور پھر تھوڑا آرام۔اگلے دن پھر ویسے ہی دن کا آغاز اور اختتام ہوتا ہے۔ہماری زندگی کے مختصر ہونے کو سمجھنے کے لئے آج کل کسی سے فیس بُک یا واٹس ایپ پر بات کرکے دیکھ لیں۔ اب پیغامات میں اپنے جذبات کا اظہار لفظوں سے زیادہ چھوٹے چھوٹے کارٹونوں (ایموجیز) سے کیا جاتا ہے۔اب اگر آپ کا پیغام کچھ مقررہ لفظوں سے بڑا ہوگیا تو سامنے والا بور ہوکر آپ سےبات کرنا چھوڑ دیتا ہے چاہے اُن الفاظوں میں آپ نے کتنی ہی شدت سے اپنے جذبات کا اظہا ر ہی کیوں نہ کیا ہو۔جیسے موجودہ سماج انسان کو بنا کسی محنت کے سارےاصول اور ضابطے تھالی میں سجا کر پیش کرتا ہے ویسے ہی اب جذبات کے ساتھ بھی ہونے لگا ہے۔ اب کوئی اپنی ذہنی حالت کو بیان کرنے کے لئے بھی کچھ وقت صرف نہیں کر سکتا۔یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے فلسفہ کے مضمون کی پستی کی۔فلسفہ انسانی وجود ، حقیقت کی تلاش، اخلاقیات کی تخلیق کاری ، محبت ، نفرت جیسے جذبات کےمعنی کی کھوج جیسے تصوراتی ،پیچیدہ اور طویل مدعوں پر مبنی مضمون ہے جو کہ موجودہ سماج کی ثقافت میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ایسے میں مارکس کی ایک بات یادآگئی۔ کیا خوب کہتا ہے کہ” انسان کا شعور اس کی زندگی کا تعین نہیں کرتا بلکہ انسان کی زندگی اس کے شعور کا تعین کرتی ہے۔”
کسی بھی ریاست میں انسان کو بنیادی ضروریات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے جیسے تعلیم ، صحت وغیرہ۔لیکن گذشتہ چند دہائیوں سے ہم دیکھ رہے ہیں کہ پرائیویٹائزیشن کی پالیسی کے تحت ریاست اپنی اس ذمہ داری سے دست بردار ہونے کی کاوشوں میں مصروف ہے۔ اس طرح ہر سال بجٹ میں تعلیم اور صحت پر جو پہلے آٹے میں نمک برابر خرچ کیا جا رہا تھا اب وہ بھی نہیں کیا جارہا۔ موجودہ صورت حال میں یہ بات کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ جب دُنیا بھر میں لوگ کرونا کے شکار ہو کر مر رہے ہیں ایسی صورت حال میں بھی حکمران اپنی تجوریوں پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں یہاں تک کہ جو ڈاکٹرز فرنٹ لائن میں اس وبا سے لڑ رہے ہیں اُن کے لئے بھی سیفٹی کاکوئی خاص انتظام نہیں کیا گیا ہےجس کی وجہ سے شعبہ صحت سے جُڑے بہت سے لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی بھی تھما نہیں ہے۔ اس صورت حال میں تعلیم سے وابستہ لوگ فاقے کاٹ رہے ہیں ۔ سرکاری استادوں کی تنخواہوں میں کٹوتی کی جارہی ہے۔ نجی اسکولوں کے اساتذہ کے پاس کھانے پینے کے اخراجات پورے کرنے کے لئےبھی پیسے نہیں ہیں۔ جہاں تعلیم کبھی بھی حکمرانوں کی ترجیحات میں نہیں رہا ہے وہاں فلسفہ جیسے اہم مضمون کا تو کوئی والی وارث ہی نہیں بچتا۔ آپ کسی بھی یونیورسٹی جس میں بھولے بھٹکے فلسفہ کا ڈیپارٹمنٹ موجود ہے، وہاں جا کر دیکھیں گے تو صاف نظرآ ئے گا کہ انتظامیہ اس ڈیپارٹمنٹ کو بس برداشت ہی کر رہی ہوتی ہے۔پاکستان کی بہت سے جامعات میں تو اس مضمون کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔ کسی بھی سماج میں حکمران طبقے کا کسی مضمون کو ترجیح دینا یا سرے سے نظرانداز کرنا بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ وہی تو کسی مضمون کو مارکیٹ میں چلاتے یااس سے نکالتے ہیں۔ اگر کوئی طلبہ رائج دستور کے خلاف جا کر اس مضمون میں اپنی دلچسپی کے باعث داخلہ لے بھی لیتا ہے تو پھر اُسے نوکری ملنے میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی اس مضمون کے بارے میں ایک خیال یہ پایا جاتا ہے کہ یہ ایک انتہائی مشکل مضمون ہےجو کہ ایک صحیح خیال ہے۔ دراصل فلسفہ سائنس کی طرح نظریات بنانے کا عمل نہیں بلکہ نظریات کو پرکھنے کا ایک طریقہ کار ہے۔اس کو اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر کوئی حیاتیات دان جب کسی مسئلے کو دیکھے گا تو وہ کچھ خیالات کو اپنی تحقیق کی بنیاد بنائے گا وہ یہ کہ جس چیز پر میں تحقیق کرنے جا رہا ہوں وہ موجود ہے لیکن فلسفی کا مسئلہ اس سے بھی زیادہ بنیادی ہے کیونکہ اُسے تو پہلے وجو د کو ہی ثابت کرنا ہے۔
اخبار “دی گارڈین” میں 25 فروری 2011 میں چھپبنے والے ایک مضمون “Philosophy is supposed to be difficult” میں مصنف فلسفی سائمن بلیک برن کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ان کے مطابق قدیم یونانی فلسفی انسانیت کے خاطر لکھتے تھے یعنی ان کا مقصد اپنی بات سمجھانا ہوا کرتا تھا لیکن اصل مسئلہ تب شروع ہوا جب اس مضمون کو تدریسی مقاصد کے لئے اداروں کے سپرد کیا گیا۔لہذا ان کے مطابق یہ اس کے مشکل ہونے کی ایک وجہ ہے۔ لیکن کسی مضمو ن کے مشکل ہونے سے اس کی اہمیت زائل نہیں ہو جاتی بلکہ اس مضمون کے حوالے سے قارئین کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی کوشش کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میدان میں جتنےبھی نئے لکھاری لکھ رہے ہیں ، وہ اس مسئلے کو زیر غور رکھتے ہوئے ہی کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج ہمارے پاس فلسفے کی ایسی لاتعدادکتابوں کا مجموعہ موجود ہے جن میں آسان الفاظ اور زبان سے شروعات کرکے مصنف قارئین کو فلسفے کی پیچیدگی کو قبول کرنے کے لئے تیار کرتے ہیں۔ بیشمار انسائیکلوپیڈیاز رہنمائی کے لئے بنائی جا چکی ہیں۔مسلسل مطالعہ اور فلسفیانہ بحث اور مباحثے کا حصہ بن کر اس مسئلے کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس مضمون کی بہت سی آن لائن سوسائٹیاں موجود ہیں جن میں ماہرین قارئین کو اس کے مطالعے میں درپیش مسائل کو حل کر رہے ہیں۔
ہمارے ہاں تنقید برداشت کرنے کا کلچر تقریبا ختم ہو چکا ہے۔اگر آپ کسی کو ناراض کرنا چاہتے ہیں تو ان پر تنقید کر کے یہ مقصد پورا کیا جاسکتا ہے۔ فلسفہ تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے اور ساتھ ہی تنقید کرنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ انسان اور جانور میں ایک بنیاد ی فرق تحقیق کا ہے ۔ انسان اپنے آس پاس کی دُنیا کی حقیقت کو جاننے کا ہمیشہ سے طلبگار رہا ہے ۔ اس لئے عظیم فلسفی ارسطو سمجھنے کوانسانی فطرت کا اپم پہلو کہتا ہے۔فلسفہ انسانی زندگی کےبے حد اہم مُدعوں کو زیر غور لاتا ہے۔ کل کائنات اور اس کے جُزیات کو علیحدہ کرکے پرکھنے کا فہم فلسفہ ہے۔ہمیں فلسفہ پڑھنے کے کلچر کو فروغ دینا ہوگا تاکہ سماج میں اپنے نظریات کی تخلیق کاری کا عمل خود سرانجام دے کر اپنے مستقبل کا تعین خود کر سکیں۔اُدھار کی زندگی انسان سے زندگی جینے کی مسرت چھین لیتی ہے۔ اطمینا ن صرف اسی صورت ممکن ہے جب جس حد تک ممکن ہو اپنی زندگی کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لیا جائے۔اظہار کو یقینی بنایا جائے۔ فلسفہ انسان کو مطالعہ کا عادی بنا دیتا ہے اور مطالعہ انسان کو اظہار کرنے کے لئے معقول طریقہ کار سے روشناس کراتا ہے۔فلسفہ انسان کی زندگی کو فطری تناظر میں دیکھنے کا ایک طریقہ کار ہے۔لہذااگرآپ جینے کے لئے اپنے بنائے اصولوں کا چُناؤ کرنا چاہتے ہیں تو فلسفہ کے مطالعے کو یقینی بنائیں۔عظیم یونانی فلسفی سقراط کیا خوب کہتا ہے کہ “اُس زندگی کا کوئی مول نہیں جسے بناکسی تحقیق کے اپنایا گیا ہے۔”

Facebook Comments

Mehak Jehanzeb
جامعہ کراچی کے شعبہ فلسفہ کی طالب علم ہیں ۔ سیاسی ،سماجی اور انسانی حقوق کے لئیے سرگرم ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply