• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • انقلاب فرانس: سیاسی اور سماجی ارتقاء کا نقیب(دوسرا،آخری حصہ)۔۔ڈاکٹر طاہر منصور قا ضی

انقلاب فرانس: سیاسی اور سماجی ارتقاء کا نقیب(دوسرا،آخری حصہ)۔۔ڈاکٹر طاہر منصور قا ضی

انقلابی بغاوت کا وہ سلسلہ جو بستیل کے قلعے پر حملے سے شروع ہوا نہایت سرعت کے ساتھ ہر کوچہ و بازار میں پھیلتا چلا گیا۔ تاجر پیشہ اور کاریگروں نے شہروں میں اور کسانوں نے دیہاتوں میں ایک ہفتے کے اندر انقلاب کا پرچم بلند کر دیا۔ عوام نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا، زرعی زمینوں سے جاگیرداروں اور مالکان کو بے دخل کر دیا اور چرچ سے بھی زمینیں چھیننا شروع کر دیں۔ مگر وہ بات، بعد میں جس کا ڈنکا چار دانگ عالم میں بجا وہ انسانی حقوق کی پاسداری کا نقطہَ نظر تھا جو فرانسیسی انقلاب کے ابتدائی دنوں کی دین ہے ۔

انقلاب فرانس سے انسانی تاریخ میں عوام اور ریاست کو چرچ کے طے کردہ قانون کی بجائے انسانی فہم کی بنیاد پر وضع کئے گئے قانون کی بنیاد پر چلانے کا لائحہ  عمل طے کیا گیا اور مذہب اور ریاست کو علیحدہ کرنے کا ایک اور تجربہ کامیاب ہوا جیسا کہ اس سے پہلے والی صدی میں Peace of Westphalia کے معاہدے کے تحت بھی ہو چکا تھا۔ چرچ کو ریاست سے علیحدہ کرنے کے اس نظریے کو سیکولرازم کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب کے نتیجے میں چرچ کی جاگیردارانہ حیثیت ختم کر دی گئی اور اسے عوامی ریاست کا تنخواہ دار اور باقاعدہ حلف کے ذریعے عوامی قانون کا مطیع کر دیا گیا۔ سیکولرازم کی وہ خاص شکل جو فرانس میں رائج ہوئی اسے “لائیستے Laicite ” کہا جاتا ہے۔ سیکولرازم دنیا میں ابھی تک مکمل طور پر رائج تو نہیں ہو سکا تا ہم یہ ہر روشن خیال ریاست کا آئیڈیل مانا جا چکا ہے۔

اسی انقلاب کے دوران قومی اسمبلی میں عوام کے ووٹ کے ذریعے حکمران کی طاقت کو محدود کرنے کا جمہوری نظریہ بھی واضح ہو کر سامنے آیا۔ انسانی حقوق سے متعلقہ ان سارے نظریات کو 26 اگست 1789 کو منظور کئے گئے ” آدمیوں اور شہریوں کے حقوق کے ڈیکلریشن” میں اکٹھا کر کے ایک قانونی حیثیت دے دی گئی۔ ڈیکلریشن سے متعلقہ بحث مباحثہ طول پکڑ گیا تو سترہ نکات پر اتفاق کے بعد مزید بحث ختم کر دی گئی۔ یہ تمام نکات بنیادی انسانی حقوق کو سماجی رہن سہن کی خشت اوّل تسلیم کرتے ہیں۔

انقلاب نے سماجی اور ذاتی حقوق کو بنیادی “فطری حقوق” مانا جن کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔ یہ حقوق انسان کے مقدس حقوق ہیں جنہیں انسان سے چھینا نہیں جا سکتا۔ ان حقوق کے تحفظ کے لئے بادشاہ کی اتھارٹی غیر ضروری قرار دے دی گئی۔ چرچ جو اپنے آپ کو مشیت ایزدی کی آواز سمجھتا تھا، اس کی تصدیق کو بھی غیر ضروری قرار دے دیا گیا۔ بنیادی فطری حقوق میں مذہبی آزادی، پریس کی آزادی، ٹیکس کے مطابق سیاست میں نمائندگی، ناجائز حد تک متشدد سزاوَں پر پابندی اور حکومتی کارندوں پہ احتساب جیسے نکات شامل تھے۔ تاہم یہ واضح رہے کہ اس دور میں انسانی حقوق کی جانب پیش رفت ہوئی مگر سیاسی حقوق بےشمار لوگوں تک نہ پہنچ سکے جن میں عورتیں، غریب عوام، ملازمین اور وہ لوگ جو جائیداد کے بغیر تھے۔ اس تناظر میں ایک سبق یہ بھی ملتا ہے کہ انقلاب فرانس کو صرف رومانوی نظروں سے دیکھنا درست نہیں۔ اس انقلاب کے حقوق کے تصور میں بہت جگہوں پر کمی تھی۔

انقلابِ فرانس کا یہ دور جو بستیل قلعہ پر 14 جولائی کے حملے سے شروع ہوا تھا، اگست 1792 تک جاری رہا۔ اس پہلے دور کو بجا طور پر انقلاب کا لبرل اور روشن خیالی کا دور کہا جا سکتا ہے۔ بعد میں رونما ہونے والے حالات و واقعات سے واضح ہوا کہ یہ دور انقلاب کا معتدل دور تھا۔

اس موقع پر یہ بھی یاد رہے کہ انقلاب جس بہبود، اقدار اور معیار کی آس دلاتا ہے انہیں حقیقت کا روپ دینا نہایت مشکل کام ہوتا ہے۔ جس طرح حقیقی معنوں میں امید افزا ہونے میں وقت لگتا ہے اور امیدوں کو بار آور ہونے میں بھی ایک زمانہ لگتا ہے۔ انقلابِ فرانس میں بھی یہی ہوا۔ سماجی تبدیلی کی سست روی، انقلابیوں کی تندخیزی کے صبر کا پیمانہ جلد ہی لبریز کر گئی۔ صرف تین سالوں کے اندر معتدل مزاجی نے مات کھائی اور انتہا پسندی نے انقلاب کے سر کش گھوڑے کی باگ ہاتھ میں لے لی۔ انقلاب کے پیشرؤں میں جیکوبی گروپ جو کہ شروع میں معتدل تھا، اس نے اور “سانس کُولات Sans-Cullote ” گروپ نے ساتھ مل کر انتہا پسندی کے اقدامات کرنے شروع کر دیئے جس میں معمولی سی بات پر حکومتی اہلکاروں اور انقلاب برپا کرنے والے ساتھیوں کا سر قلم کرنا روز کا معمول ٹھہرا۔

وہ لیڈر اور دانشور جو انقلاب کا پہلا روشن خیال استعارہ تھے اُن میں سے کئی ایک پر یہ الزام لگا کہ وہ انقلابی نہیں رہے اور کئی لیڈروں پر یہ الزام تھا کہ ان کے اندر انقلاب کی روح ناکافی ہے ، اُن کے سر نہایت عجلت میں قلم کر دیئے گئے۔ اس طرح یہ سب لوگ اپنے ہی برپا کئے ہو ئے انقلاب کی بھینٹ چڑھے۔اس وجہ سے 1792 – 1794 تک کا زمانہ انقلاب کا تشدد اور دہشت کا دور کہلاتا ہے۔ فرانس کے بادشاہ لوئی سولہ اور ملکہ کو بھی اسی دور میں 21 جنوری 1793 کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

دہشت کے اس دور میں “میکس میلاں روبےسپئر ” وکیل اور انقلابی سیاست دان کا کردار بہت اہم ہے۔ اس کی پر گوئی کا یہ عالم تھا کہ انقلاب کے ابتدائی مہینوں سے ہی عام مانا جانے لگا تھا کہ انقلاب روبے سپیئر کی زبان سے بولتا ہے۔ اس وقت روبےسپئر مستقبل کی گورنمنٹ کی دراز دستی کے امکانات سے خائف تھا، وہ سزائے موت کا مخالف تھا۔ وہ عوام کی معاشی فلاح کا حامی اور اس کے لئے قانونی جواز مہیا کرنے والوں میں صف اوّل کا دانشور تھا۔ اُس نے فرانس اور فرانس کی کالونیوں میں غلامی کے خاتمے کے لئے بھی بہت کام کیا۔

مگر ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اسی روبے سپئر کے زیرِ نگرانی تقریباً  40000 لوگوں کے سر تن سے جدا کیے گئے۔ یہی روبےسپئر انقلاب کے استحکام کو جواز بنا کر ایک جابر اور آمر بن بیٹھا تاوقتکہ وہ خود بھی دوسرے انقلابیوں کی نظروں میں کھٹکنے لگا ۔ آخر کار 28 جولائی 1794 کو اس کا کسی مقدمے کے بغیر ہی سر قلم کر دیا گیا اور ساتھ ہی اس کے کئی ساتھیوں کا بھی۔ یوں یہ تاریخی کہاوت سامنے آئی کہ “انقلاب اپنے ہی بچوں کو نگل جاتا ہے”۔ جیسے ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ دور انقلاب فرانس میں خوف و ہراس کا دور تھا جو روبے سپئر کی موت کے ساتھ ختم ہوا۔

1794 سے 1799 تک کا زمانہ تھرماڈورین دور کہلاتا ہے جس میں سماجی اور سیاسی اصولوں کو ایک بار پھر نئے سرے سے ترتیب دیا گیا۔ روشن خیال لبرل سیاست اور حقوق و قوانین کی عام آدمی تک رسائی جیسی اقدار جو انقلاب کے پہلے دور کی مرہون منت تھیں، سبھی کچھ واپس لے لیا گیا۔ سیاسی عہدے کے لئے دولت اور رسوخ پھر سے بنیاد ٹھہرے۔ ووٹ کا حق تو پہلے بھی سو فیصد عوام تک پہنچ نہیں پایا تھا، اسے صرف مردوں ، دولتمندوں اور پراپرٹی رکھنے والے شہریوں تک محدود کر دیا گیا۔ وہ عورتیں جن کے پاس پراپرٹی تھی، ان کو بھی سیاست سے نکال دیا گیا۔

اس جگہ انقلاب فرانس سے متعلقہ دو نظریہ سازوں کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے ۔۔۔ کارل مارکس اور ایلکس ٹوکوِل۔ یہ دونوں اصحاب دانش ہم عصر تھے۔ مارکس اور اینگل کی کتاب کمیونسٹ مینیفسٹو اور ٹوکوِل کی کتاب “اولڈ رجیم اینڈ فرنچ ریولیوشن” دونوں 1848 میں شائع ہوئیں۔ مارکس کے تجزیے کے مطابق یہ بورژوا انقلاب تھا جس نے فرانس میں فیوڈالزم کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔ اس سے آنے والے سالوں میں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پڑے گی جو مستقبل کے سوشلسٹ انقلاب کی تمہید ہو گا۔ ٹوکوِل نے سسٹم کی سطح پر تو ایسی کوئی پیشگوئی نہیں کی مگر تاریخ کے طالبعلم کی حیثیت سے اس نے یہ ضرور کہا کہ انقلاب سے پہلے ریاستی مراعات کے نتیجے میں اور اس کے بل بوتے پر ریاست کے مقابل دوسری کلاسیں بھی تھیں جن سے سماجی نظام چلتا تھا۔ انقلاب کے بعد ریاست اکیلی کھڑی ہے اور اپنی مضبوطی کے لئے زیادہ سے زیادہ طاقت اکٹھی کرنے کے لالچ میں رہتی ہے۔ شاید ایلکس ٹوکوِل کے ذہن میں نپولین کا فرانس تھا۔ ریاست کا یہ کردار مارکس کی نظروں سے بھی اوجھل نہیں تھا۔ وہ بھی ریاست کو مراعات یافتہ طبقے کا آلہَ کار بتاتا ہے۔ دونوں فلسفی ریاستی طاقت سے نالاں دکھائی دیتے ہیں لیکن ٹوکوِل کی تحریر میں مستقبل کے انقلاب کے لئے کوئی زیادہ اشتیاق نظر نہیں آتا۔ اس کے مقابلے میں کارل مارکس کو انقلاب کے عظیم ترین نظریہ سازوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ مارکس کا مستقبل میں انقلاب کا نظریہ حکومت کا تختہ الٹنے کا عامیا نہ خیال نہیں۔ مارکس کا انقلاب کا نظریہ سماجی انصاف کے نظریے سے جڑا ہوا ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں مگر یہ ایک دوسرا موضوع ہے۔

فرانسیسی انقلاب نے بے شک سماجی تبدیلی، جمہوری طریقہ کار، انسانی حقوق اور سیکولرازم کے کئی سبق دئیے مگر آخر کار اشرافیہ نے اپنے عہدے، زمینیں، دولت اور سیاسی اختیارات واپس لے کر ہی دم لیا۔ چھوٹے کاشت کاروں کو بھی تھوڑا فائدہ ہوا مگر فیوڈل ازم کی واپسی سے ثابت ہوتا ہے کہ سرمایہ داری نظام کی طرف اگر کچھ پیش رفت ہوئی تو نہایت معمولی سی ہوئی ۔ نپولین نے فرانسیسی ریاست کو پھر سے عوام کے استحصال کا آلہ بنا دیا۔ یہ ضرور ہے کہ نپولین کو آخر تک اس بات پر فخر رہا کہ اس نے فرانس کو قانون دیا۔ مذہب کے معاملے میں نپولین سے پہلے روبےسپئر نے بھی چھوٹے پادریوں کو لکھا کہ وہ اپنے کام کرتے رہیں۔ نپولین کو کائنات کے بارے میں سائنس کی ایک کتاب پیش کی گئی تو اس نے پوچھا کہ اس میں اس دفعہ بھی خدا کا نام نہیں۔ مصنف نے بصد احترام جواب دیا کہ مجھے اپنی سائنس کے کتاب میں خدا کو ایک نظریے کی طرح استعمال کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ نپولین نے اپنے مذہبی عقائد کی بنا پر اس جواب کو زیادہ پسند نہ کیا۔

نپولین نے کیتھولک چرچ کے ساتھ معاہدے کر کے ان کے مراعات میں اضافہ کیا جس میں پرائمری سکول کی تعلیم کا اختیار چرچ کو دے دیا۔ مگر چرچ کے عمائدین زیادہ خوش نہیں تھے کیونکہ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کا نظام ان کے ہاتھ سے ان کی بہت سی زمینوں کی طرح نکل چکا تھا۔ ٹیکس بھی ریاست کے ادارے اکٹھا کرتے تھے۔اس اہتمام میں نپولین سے پہلے والے انقلابیوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ انہوں نے آن کی آن میں وہ ان تمام آدمیوں اور وسائل کی حیثیت ختم کر دی جس کی وجہ سے بادشاہت کے زمانے میں وسائل اور ان پر کنٹرول بکھرا بکھرا سا تھا۔ نیا قانون ریاست کے نمائندوں کے ذریعے تمام شہریوں پر یکساں لاگو ہونے لگا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ انقلاب کے بعد فرانس کے عوام رعایا سے فرانس کے شہریوں میں تبدیل ہو گئے اور فرانسیسی قومیت کے خدوخال اپنی علیحدہ شناخت کے ساتھ ابھرنے لگے۔ اس کا لامحالہ نتیجہ یہ ہوا کہ عام آدمیوں کے لئے قومی سطح پر اپنی استطاعت کے مطابق خدمت اور روزگار کے مواقع پیدا ہونے لگے۔ فوج میں بھرتی اور ترقی کے امکانات بھی شہریوں کی برابری اور قومیت میں سے نکلے۔ نپولین نے فوج کو نئے سرے سے منظم کیا۔

نپولین انقلاب کے دوران فرانس کے لئے فتوحات کرتا رہا۔ واپس پیرس پہنچنے کے بعد پہلے اس نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کی اور پھر وہ ایک آمر بن کر بادشاہت کرنے لگا۔ اسی اثناء میں جب فوج مضبوط ہو گئی تو وہ اپنی مہمات کو فرانس کی سرحدوں باہر لے گیا اور یورپ کے اندر جنگوں ایک سلسلہ چل نکلا اور یورپ سے امن کی فاختہ رخصت ہو گئی۔ جس طرح انقلاب کی گونج سے اس زمانے کا پورا یورپ دہل گیا، بالکل اسی طرح نپولین کی آمریت کے سیاسی مفاہیم بھی فرانس اور یورپ کے لئے ناقابل قبول ہو گئے۔ مشہور مورخ کارلائل نے انقلاب کے بارے میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ پیرس کی مشہور شاہراہ “غیو دیو فابوغ سینت آنتونے” پر انقلاب کی یاد میں آزادی کا وہ درخت جو 1790 میں بویا گیا تھا، کیا وہ اب بھی زندہ ہے؟

قصہ کوتاہ ، 1799 میں جب نپولین نے اقتدار پر قبضہ کیا اور نئے سرے سے بادشاہت کو بحال کر دیا تو انقلاب فرانس کی واقعاتی کہانی تو شاید اپنے انجام کو پہنچی مگر یورپ کی سیاسی زندگی میں بہت زیادہ تبدیلی آئی لیکن دھیرے دھیرے۔ یورپ میں بادشاہت کے خاتمے میں مزید نوے سال لگے۔ فرانس کے تجربے کی وجہ سے یورپ میں کانگرس آف ویانا کا انعقاد ہوا جس کا مقصد علاقے میں سیاسی اور فوجی طاقت کا توازن قائم کرنا تھا تا کہ یورپ کو آنے والے وقت میں نئی جنگ سے بچایا جا سکے۔ کانگرس اپنے مقصد میں پہلی جنگ عظیم پھوٹنے تک قریبا” سو سال تک کامیاب رہی۔ انقلاب فرانس کی انسانی حقوق کی توجیحات کے اثرات اور ثمرات جو باقی دنیا میں بھی پھیلے وہ ایک نئی داستان ہے۔

مگر نئی داستان کا آغاز کرنے سے پہلے یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اوپر کہے گئے لفظ “دھیرے دھیرے” پر تھوڑا غور کر لیا جائے۔ انقلاب فرانس جسے ہم ایک واقعہ سمجھتے ہیں کم و بیش دس سال پر محیط تھا۔ تاریخ دان الفریڈ کوبن تو یہاں تک پوچھتا ہے، آیا یہ انقلاب تھا بھی یا نہیں؟ کیونکہ انقلابیوں نے اگر روشن خیالی کو اپنایا تو اپنے عمل سے ان نظریات کی نفی بھی کی۔ جہاں انہوں نے انسانی اقدار کی بات کی، وہیں ان اقدار کو پامال بھی کیا۔ ان کا انقلاب روشن خیالی سے زینہ زینہ پھر استحصال کرنے والے مذہب کی دہلیز پہ جا پہنچا۔ اور کوبن کے الفاظ میں، “پوری کی پوری ایک نسل جس کی تربیت نیکی کی تعلیم سے ہوئی تھی، اُس کے اندر رچی بسی اچھائی اور برائی دونوں کو جس ایک لفظ میں بیان کیا جا سکتا ہے، وہ ‘انقلاب فرانس’ ہے۔”

Bibliography

1. Politics, Culture, And Class in the French Revolution by Lynn Hunt
2. The French Revolution and Human Rights – Edited by Lynn Hunt
3. Revolutions by Stephan K. Sanderson
4. Aspects of The French Revolution by Alfred Cobban
5. The Democracy Reader
6. Revolutions – Edited by Jack A. Goldstone
7. States And Social Revolutions by Theda Skocpol
8. The Rights of Man, The Reign of Terror by Susan Banfield
9. The Days of The French Revolution by Christopher Hibbert
10. Reflections on The Revolution in France by Edmund Burke
11. Translation from English to Urdu –Oxford English Urdu Diction

Advertisements
julia rana solicitors

پس نوشت :فرانس کی شاہراہ جس پر انقلاب کی یاد میں 1790 میں آزادی کا درخت لگایا گیا تھا، اس کا فرانسیسی تلفظ ڈاکٹرمحمد افضل نے مہیا کیا ہے، جس کے لئے مصنف شکرگزار ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply