خرابی کہاں ہے؟۔۔محمد منیب خان

سیاست کی طرح حکومت بھی کسی سیاہ یا سفید کا نام نہیں ہوتی۔ حکومت بہترین یا بدترین جیسی انتہاؤں کے بیچ کہیں کھڑی ہوتی ہے۔ حکومت آلوؤں کی کوئی بوری نہیں جس کو میزان میں باٹ برابر رکھ کر دھڑی کا وزن پورا کر لیا جائے۔ حکومت کو کسی ذاتی نفع نقصان کے تناظر میں بھی نہیں دیکھا جاتا۔  حکومت کھیل بھی نہیں جو معاشرے یا حکمرانوں کی ذاتی صحت کو بہتر بنانے کےاصول پہ کاربند ہو۔ کاروبار حکومت کھلونا تو بالکل بھی نہیں جو کسی بھی طفل مکتب کو پکڑا دیا جائے۔ حکومت ایک سنجیدہ معاملہ ہے اور حکومتوں کے اقدامات کے نتائج سے معاشرے پہ ہونے والے اثرات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

دنیا کی کوئی بھی حکومت سو فیصد شہریوں کو خوش نہیں رکھ سکتی، جن ملکوں میں کرپشن انڈیکس انتہائی کم ہے اور جن ملکوں کے لوگ خوشی کے انڈیکس میں پہلے پانچ ملکوں میں ہیں، اگر آپ ان ملکوں کی عوام اور میڈیا کو بھی دیکھیں تو ان میں سے بھی کئی آپ کو حکومتوں پہ تنقید کرتے ہوئے مل جائیں گے۔ لہذا حکومتوں پہ تنقید کا ہونا بھی کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ سو نمبر میں سے ساٹھ نمبر لینے والی حکومت اجمالی طور پہ معاشرے میں اپنی پذیرائی رکھتی ہے اور ساتھ ساتھ بہتری کے لیے صحتمندانہ تنقید کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔

ملک و معاشرے میں حکومتوں کو اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے جو سب سے بنیادی کام کرنا ہوتا ہے وہ اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا اور ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔ جو حکومت ان دو بنیادی باتوں میں ناکام ہو جائے وہ حکومت چاہے باقی سب محاذوں پہ بھی کامیاب ہو لیکن وہ عوام میں پذیرائی حاصل نہیں کر پاتی۔ پاکستان اور پاکستان کے عوام آج جس مقام پہ کھڑے ہیں بدقسمتی سے پاکستانی کی موجودہ حکومت شہریوں کو احساس تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت ہر شہری کے بنیادی حقوق کی بھی حفاظت کرنے میں بری طرح ناکام نظر آ رہی ہے۔ پاکستان کی کسی بھی حکومت کے لیے یہ ناکامی نئی نہیں ہے البتہ ناکامیوں کا دراز ہوتا سلسلہ بہت سی نئی مایوسیوں کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔ حالیہ واقعات نے اس بات پہ مہر ثبت کی ہے کہ پاکستان اب کسی حکومت سے زیادہ جتھوں اور گرہوں کے ہاتھوں میں چل رہا ہے۔

چند ہفتے قبل ایک گروہ نے ملک میں طوفان برپا کیا ہوا تھا۔ شہریوں کے لیے سڑکیں بند تھیں اور وبا کے دن ہونے کے باجود دھرنوں میں  لوگ جونکوں کی طرح چپکے بیٹھے تھے۔ اب چند روز قبل ایک دوسرے مسلکی گروہ نے پورے زور کے ساتھ روایتی مذہبی جلوس نکالا۔ اور حکومت اس گروہ کو یہ بات بار آور کروانے میں ناکام رہی کہ اس سال وبا کے تناظر میں محض جان کے خطرے کے پیش نظرکوئی علامتی جلوس ہی نکالنے پہ اکتفا کیا جائے۔ لیکن ہوا یہ کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جلوسوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا اوراب وہی قانون نافذ کرنے والے ادارے عوام کو سڑکوں پہ ڈنڈے مار رہے ہیں، ماسک پہنا رہے ہیں اور دکانیں بند کروا رہے ہیں۔ مزید برآں عید کی چھٹیوں میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان ہو چکا ہے۔ لہذا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت خود بھی کنفیوز ہے اور عوام کو بھی کنفیوز کررہی ہے۔ اب یہ عین ممکن ہے آل پاکستان انجمن تاجران بھی ایک جتھا بنا کر سڑک پہ آ جائیں اور حکومت ان کو عید پہ دکانیں کھولنے کی اجازت دے دیں۔ اور پھر وہی ادارے جو اب کاروبار بند کروا رہے ہیں باہر کھڑے ہو کر ایس او پیز کی نگرانی کریں۔

حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ   ذریعہ کا اہتمام کریں، ملک میں صفائی ہوگی اور ہوٹلوں پہ معیاری کھانے بکیں گے توبیماریاں کم ہوں گی اور ہسپتالوں پہ بوجھ کم پڑے گا۔ اسی طرح حکومت کو چاہیے  تھا وبا کے لیے بھی انتظامات کرتے۔ لوگوں کو اس   سال میں سماجی فاصلے اور ماسک کے استعمال کا پابند بنا  دیا جاتا۔ تاکہ کسی بھی نئی وبائی لہر کے نتیجے میں لوگ محتاط ہوتے۔جبکہ ہمارے ہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ ہم وبا کے دنوں میں گرہوں کو جلوس نکالنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وبا کی تیسری لہر کے آتے ہی حکومت دانشمندی کے ساتھ حکمت  عملی    بناتی جس پہ سب سے عمل کروایا جاتا۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ مزید بدقسمتی یہ کہ حکومت جس طرح پارلیمان سے باہر ناکام نظر آ رہی ہے، وہ پارلیمان کے اندر بھی بری طرح ناکام رہی ہے۔

کسی بھی پارلیمان کو چلانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ لیکن روز اوّل سے ہی چور چور کا ایسا شور ایوان میں ڈالا گیا کہ حکومت آج تک ان چیخوں کی بازگشت سے چھٹکارا حاصل کرنے کو تیار نہیں۔حکومت محض آرڈیننس کے بل بوتے پہ چل رہی ہے۔ شایدپاکستان دنیا کا واحد ملک ہو گا جس کے پارلیمان میں  وبا پہ کوئی واضح حکمت عملی نہیں بنائی گئی ۔ اور اگر کوئی حکمتِ  عملی بنی بھی تو اس پہ من و عن عمل نہیں ہوسکا۔ پارلیمان وبا کے متعلق کسی قسم کی سنجیدہ بحث کے بعد اپنامربوط  نکتہ نظر عوام کے سامنے لانےمیں ناکام رہا ہے۔

پاکستان ایسے خطے میں واقعہ ہے جہاں نہ حکومت کو عوام کی پرواہ ہے اور نہ ہی عوام کو خود اپنی پرواہ ہے۔عوام کو وبا کے دنوں میں  اکٹھا  نہیں کرنا چاہیے، لیکن عوام کو اپنی مذہبی روایت کے مطابق جلوس نکالنا ہے تو نکال لے، حکومت کو اپنے اختیارات کا استعمال کر کے عوام کو روکنا چاہیے ،نہیں رکتی۔ عوام کو وبا سے زیادہ عید کی خریداری کرنا ہے سو وہ بے چین ہیں اور بازاروں میں یہ کہتےہوئے گھوم رہے کہ کہاں ہے کرونا، حکومت کو چاہیے اس عوام کو روکے، اور اب روکنے کی کوشش بھی کر رہی ہے، لیکن عوام نہیں کررہے۔ لوگ دھرنوں اور جلسوں میں موجود تھے اور اب لوگوں کو کہا جا رہا ہے کہ عید سادگی سے منائیں، تو یہ ساری خرابی کہاں ہے؟یہ ساری خرابی عوام کے دماغ میں اور حکومت کی بنیاد میں ہے۔ غالب نے نجانے کس لمحے کہا تھا

روز اس شہر میں اک نیا حکم ہوتا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا ہوتا ہے!

Facebook Comments

محمد منیب خان
میرا قلم نہیں کاسہء کسی سبک سر کا، جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے۔ (فراز)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply