کیا سردار عباس نظریاتی ہوگئے؟۔۔محمد علی عباس

سردار عباس ضلع چکوال کی سیاست کی سب سے بڑی حقیقت ہیں۔حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں۔چکوال کی سیاست ان کے گرد گھومتی ہےضلع بھر میں واحد سیاست دان ہیں جو ہر گاٶں اور ڈھوک تک ذاتی ووٹ بینک رکھتے ہیں۔اکثر تقریروں میں کہتے ہیں کہ ”زندگی میں کئ نشیب وفراز آئے“۔85ء میں غیر جماعتی انتخابات جیت کر صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے۔93ءمیں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر بن گئے ۔پھر مشرف دور آیاجو بلاشبہ سردار عباس کی سیاسی زندگی کے عروج کے دن تھے بطور ضلع ناظم جس قدر اختیارات اور فنڈز کی ریل پیل دیکھی وہ چکوال کے کسی اور سیاستدان کو نصیب نہ ہوئی ۔اس دور میں سردار عباس کی پرویز الٰہی سے قربت بھی کافی تھی۔2011ء میں عمران خان کا مینار پاکستان لاہور والا ”پاشا ڈاکٹرائن“ جلسہ کامیاب ہواتو ملک بھر سے سیاست دان پی ٹی آئی میں شامل ہونا شروع ہوئے یا کرائے گئے۔ سردار عباس بھی انہی سیاست دانوں میں سے تھے جو اس وقت عمران خان کے قافلے میں شامل ہوۓ۔ دونوں خان زیادہ عرصہ ایک دوسرے کے ہم سفر نہ رہ سکے۔2013ء کے انتخابات میں پھر سے سردار عباس آزاد تھے۔یہ الیکشن آزاد حیثیت سے ہی لڑامگر جیت نہ سکے۔2017ء میں سردار عباس نےجب ن لیگ میں شمولیت اختیار کی تو ضلع بھر کے سیاسی مبصرین ششدررہ گئے کہ زندگی بھر جس جماعت کی مخالفت کی اس میں شامل ہونا سمجھ سے بالاتر تھا۔2018ء کے ضمنی انتخابات میں حیدر سلطان کی کامیابی میں سردار عباس نے اہم کردار ادا کیا۔جس ن لیگ کو صوبائی اسمبلی کی سیٹ جتوائی تھی اس کو انتخابات سے قبل ہی خیر باد کہا اور ایک بار پھر پی ٹی آئی کے قافلے میں ایسے ہی شامل ہو گئے جیسے ملک بھرکے سیاستدان اسے شہد کی نہر سمجھ کر اس پر جھپٹ رہے تھے۔یا پھر کچھ کے کندھے پہ سٹِک رکھ کر اشارہ کیا جا رہا تھا کہ جاو وگرنہ۔
2018 ء کے انتخابات میں سردار عباس NA 64 سے تحریک انصاف جبکہ PP 23 سے سردار آفتاب اکبر تحریک انصاف اور ق لیگ کے متفقہ امیدوار تھے۔
انتخابی مہم زوروں پہ تھی۔ قوی امکان تھا کہ سردار عباس ایم این اے بن جاتے مگر ہمارے ہاں کچھ خفیہ ہاتھ اکثر اپنا کام دکھا جاتے ہیں۔ اب کی بار بھی یہی ہوا جن باتوں کو بنیاد بنا کر سردار عباس کو نااہل قرار دیا گیا وہ انتہائی مضحکہ خیز تھیں، کوئی بچہ بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ سب کس کا کیا دھر اہے۔ سردار عباس نااہل ہوۓ اور راتوں رات NA64 سے تحریک انصاف کا ٹکٹ ان کے حریف سردار ذوالفقار دلہہ کو دے دیا گیا جو ایک روز پہلے تک PP 23 سے مسلم لیگ ن کے امیدوار تھے۔ سردار عباس نااہل ہو کر گھر بیٹھ گئے اور سردار آفتاب اکبرNA64سے نااہل تو ہوۓ مگر pp23 سے ایم پی اے بن گئے۔ اب دو سال سے سردار عباس خاموشی سے حالات کا جائزہ لے رہے تھے اور سردار آفتاب اقتدار کے مزے۔ کچھ دن پہلے سردار عباس نے تلہ گنگ کی ڈھوک شتال میں اپنے کارکنان سے خطاب کے دوران چپ کا روزہ توڑ ہی دیا۔ ایسی سخت باتیں کیں کہ چکوال کی سیاست میں ایک بار پھر ہل چل مچا کر اپنی بھرپور موجودگی کا احساس دلا دیا ہے۔ تلہ گنگ میں خطاب کے دوران ان کا کہنا تھا کہ NA64 اور NA65میں ہمارے بندے توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمیں دیوار کے ساتھ لگانے کا انجام برا ہو گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ NA65 کے ضمنی انتخا بات میں عمران خان کا مجھے روز فون آتا تھا کہ یہ سیٹ میرے لئے بہت اہم ہے الیکشن جیتنے کے بعد خان صاحب نے رابطہ تک نہیں کیا۔ تلہ گنگ کی سیاست میں متحرک گجرات کے ایک شخص کا نام لئے بغیر کہا کہ یہ ہمارے بندوں کو گلی نالی کی سیاست میں الجھا کر اپنے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں۔ 2018 میں ہمیں ٹریپ کیا گیا جس میں کچھ دوست بھی شامل تھے۔
بندے توڑنے کے ذکر پہ خیال آیا کہ کچھ کو تو توڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر کچھ تو خود ٹوٹ کر ”اُن“ کے پاس جانے کو بے تاب ہیں کہ جن کی اصل میں حکومت ہے۔ ڈھڈیال مرکز کے سردار گروپ کے اکثر چیئرمین توسرچشمہ”فیض”سے فیض یاب ہونا واجب سمجھتے تھے۔ اب اس تعداد میں تھوڑی کمی آ گئی ہے مگر اب بھی لوگ تو باتیں کرتے ہیں کہ جن لوگوں کو سردار عباس نے شناخت دی، آج وہ کسی میٹنگ میں موجود نہیں ہوتے۔ شکوک وشبہات تو جنم لیں گے جب دن کو سردار عباس کے دیرینہ ساتھی چوہدری خورشید بیگ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کی کابینہ میں وزیر راجہ یاسر ہمایوں سرفراز سے ملاقات کر رہے ہوں گے اور شام کو بھرے پِنڈال میں سردار عباس جارحانہ انداز اپناتے ہوۓ یہ کہہ رہے ہوں گے کہ تحریک انصاف چکوال میں ہماری سپورٹ کے بغیر ایک سیٹ بھی نہیں جیت سکتی تھی۔ اتفاق دیکھیں کہ ڈھڈیال مرکز کے کچھ سابق چیرمین تو تلہ گنگ میں موجود تھے مگر چوہدری خورشیدبیگ سمیت کچھ غیر حاضر تھے۔ سردار صاحب گجراتیوں سے ناراضگی کا اظہار کر رہے تھے۔ مجھے وہ وقت یاد آیا جب 2008 کے انتخابات میں ہر طرف ق لیگ کے پوسٹر لگے ہوتے تھے۔ ہر پوسٹر پر سردار عباس اور چوہدری پرویز الٰہی کی تصویر ہوا کرتی تھی۔ گجراتیے کبھی چکوال سے کامیاب نہ ہوتے اگر سردار عباس کی حمایت حاصل نہ ہوتی۔ جہاں تک بات ہے ”ٹریپ“ کیے جانے کی تو یہ بات غیر واضح ہے۔ ٹریپ کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ ٹریپ وہی ہوتا ہے جو نرم گوشہ دکھاۓ۔ سردار عباس نے یہاں ”دوستوں“ کا ذکر تو کیا مگر نام نہ لیا کہ کون سے دوست تھے جنہوں نے ”ٹریپ“ کیا یا کرایا اور یہ بھی بتانا مناسب نہ سمجھا کہ آج وہ ”دوست“ کہاں کھڑے ہیں۔ اگر سردار عباس کے ساتھ ہیں تو کیا سردار عباس کو ایسے دوستوں کا احتساب نہیں کرنا چاہیے؟ضلع بھر میں سردار عباس کے دوست دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو سردار عباس کے بے لوث ساتھی ہیں۔ ایسے لوگوں نے اپنے قریبی رشتہ داروں تک سے صرف سردار عباس کی وجہ سے ناطہ توڑ لیا۔ میں خود ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جن کے خاندانوں میں ناراضگیاں سردار عباس کی حمایت کرنے کی وجہ سے ہوئیں۔ ایسے لوگ ہی سردار عباس کی اصل طاقت ہیں۔ دوسری طرح کے وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے سردار عباس کو نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ وہی “دوست” ہیں جو سردار عباس کو “ٹریپ” کرنے میں آلہ کار بنے۔ ایسے دوست سردار عباس کے گرد ہالہ بنا کر ہر وقت کھڑے رہتے ہیں۔ جب سردار عباس اقتدار میں ہوں تو ایسے “دوستوں” کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اقتدار سے باہر ہوں تو ان چراغوں میں روشنی کم پڑ جاتی ہے۔
کس کو نہیں معلوم کہ اس وقت طاقت کا مرکز ومحور کون ہے؟ جس نے بھی فیض پایا اسی آستانے سے پایا۔ سردار عباس کے کچھ ”دوست“ اب بھی اس آستانے کے چکر کاٹتے دکھائی دیتے ہیں۔
سردار آفتاب اکبر وضع دار آدمی ہیں پرانے رکھ رکھاٶ کو سنبھال کر رکھتے ہیں۔ پورے چکوال میں بالعموم اور “گوشہ فیض “میں بالخصوص کوئی بھی غمی خوشی ہو ضرور حاضر ہوتے ہیں۔
بچہ بچہ جانتا ہے کہ کہاں سے اشارے ہوۓ تو سردار عباس نا اہل ہوۓ۔ کس کو نہیں پتہ کہ سردار عباس کو دیوار سے کون لگا رہا ہے؟ پرایوں سے زیادہ تو اپنے ہی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہیں کشتی کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے وزن کم کرنا چاہیے اور ایسے”دوستوں“ سے جان چھُڑانی چاہیے۔
سردار عباس کی تقریر کا ایک اور حصہ قومی سیاست کے ان حساس پہلوؤں پر گفتگو تھا جن پر سردار عباس نے اس سے پہلے لب کشائی نہ کی۔ قائداعظم کی ایمبولینس ‘ حسین شہید سہروردی کی وفات’ بھٹو کی پھانسی’ جنرل نیازی کا سکوت ڈھاکہ کے بعد بھی شملہ باندھنا پاکستانی سیاست کے وہ پہلو ہیں جن پر بات کرتے ہوے بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ مگر سردار عباس یہ ہمت کر گئے۔ اس سے پہلے اگر انہوں نے ان موضوعات پر آن دی ریکارڈ لب کشائی کی بھی ہو تو میرے ناقص علم میں نہیں۔پنجابی کا ایک محاورہ ہے جسے شائستہ الفاظ میں بھی بیان کیا جاے تو یہی ہوگا کہ ” سنانا کسی اور کو بتاتا کسی اور کو” سردار عباس اب نجی محفلوں میں یہ بھی کہتے ہیں کہ “میں نے جنرل عبدالمجید جیسے زیرک جنرل کا مقابلہ بھی کیا اور انہوں چاروں شانے چت بھی کر دیا“۔ جنرل عبدالمجید اب رزق خاک ہوے۔ اب چکوال تو کیا پورے پاکستان کے سیاستدانوں کے لئیے فیض کا سرچشمہ جند اعوان نہیں بلکہ کہیں اور ہے۔ عقل والے جانتے ہیں کہ کہاں ہے۔ نہ صرف جانتے ہیں بلکہ وہاں جاتے بھی ہیں۔ اگر ”اُن“ کو منزل مقصود اور توسیع مل گئی تو وہ فیض رساں آٹھ سے دس سال تک محتاجوں کے دامن کو بھرتا رہے گا۔ سردار عباس نے جو تقریر کی ایسی تقریر یقیناً اک نظریاتی سیاستدان ہی کر سکتا ہے۔ مقتدر حلقوں کے من پسند سیاستدان ایسی باتیں نہیں کر سکتے۔ سردار عباس کی سیاسی زندگی کا اہم حصہ مقتدر قوتوں کی چھتر چھایا میں گزرا ۔ مشرف دور اس کی واضع مثال ہے جب اہم فیصلے بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ تھوہا بہادر میں ”محکمہ زراعت“ کے اعلی افسران نے کیے تھے۔ پھر سردار عباس کے بقول انہیں “ٹریپ” کیا گیا تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ “ٹریپ” کرنے والوں کے لئیے نرم گوشہ موجود تھا تب ہی وہ ہوا جس کا غم آج کھائے جا رہا ہے۔ ورنہ اچانک ن لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں آنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ سردار عباس کے اس دھواں دھار خطاب کے بعد یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سردار گروپ اب غیر اعلانیہ تحریک انصاف کو خیر باد کہہ چکا ہے۔ ن لیگ کو چھوڑنے سے پہلے بھی اس طرح ایک چارج شیٹ تیار کی گئی تھی۔ اب تحریک انصاف چھوڑی تو ن لیگ میں جانے کا امکان ذیادہ ہے اور ن لیگ کی مقامی قیادت کا ایک دھڑا پھر سے اسی طرح رد عمل دے گا جیسے انہوں پہلے دیا تھا۔ کچھ سمجھ دار لیگی سردار صاحب کی ن لیگ میں شمولیت اس لیے بھی چاہتے ہیں کہ ان کی بقإ اب اسی میں ہے۔ مسلم لیگ ن کے علاوہ دوسرا آپشن پیپلز پارٹی ہے یہاں سردار صاحب کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ایسے تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک تقسیم کر کے کامیابی کے امکانات بھی قوی ہیں مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
اب سردار عباس جو باتیں کر رہے ہیں اگر یہ نظریہ ضرورت کے تحت نہیں تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ ” کیا سردار عباس واقعی نظریاتی ہو گئے؟”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔