رحم کی اپیل۔۔ناصر خان ناصر

میں ملزم اپنے تمام گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں۔۔۔ اور ہاتھ جوڑ کر صدق دل سے معافی کا طالب بھی ہوں۔
میرا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ میں یکدم بوڑھا پھونس اور ناتواں ہو گیا ہوں۔
جرمِ ضعیفی کی سزا تو ناگہانی مرگ ہے می لارڈ!
یہ تو مجھ جیسے کم عقل کو بھی خبر ہے جناب عالی۔۔۔ مگر میں تو کب کا مر چکا ہوں،
مگر ہاں!
مرے پر سو دُرے۔۔۔
اور مرے کو مارے شاہ مدار۔۔۔
شاید یہ اپنے ہاں کے مشہور محاورے ہیں۔ سرکار اعلی حضرت، اعلی مقام، آپ کے بچے سدا جئیں۔
آپ نے تو یہ محاورے سن ہی رکھے ہوں گے، اسی لیے تو مائ باپ میں اپنا ہلتا ہوا سر جھکا کر اور اپنی چندھی ڈبڈبائ آنکھوں میں امید کی جوت جلا کر آپ سے جھولی پھیلائے رحم کا خواستگار ہوں۔۔۔
وہ رحم جو کسی رحیم نے کبھی کیا نہ کسی رحمان نے۔۔۔
نہ ظالم وقت نے، نہ اس زمانے نے جس کو بُرا کہنے کی مناہی رب الظیم نے خود آپ کی ہے۔۔۔
اسی لیے تو مجھے اپنے آپ کو سخت بُرا کہنے میں ہرگز کوئ تامل نہیں ہے۔
مجھے اقرار ہے کہ میں نہایت بُرا شخص ہوں، زندگی بھر مجھے کوئی بھی اچھائ کہیں بھی چُھو کر نہیں گئ۔
مائ لارڈ یہ سچ ہے کہ میں نے انتہائ غربت کے باوجود اپنے تین بچوں کو نہایت جاہ و نعم اور چاہ سے پالا، ان کی نہایت محبت سے پرورش کی۔ میں نے تو اپنے بوڑھے والدین کو بھی ہاتھوں کا چھالا بنا کر رکھا تھا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ جو بویا جائے، وہی کاٹنا پڑتا ہے۔
مجھے یاد ہے اعلی جاہ کہ میری قلیل تنخواہ میں ہم سب گھر والے محض روکھی سوکھی ہی کھا سکتے تھے، پھر بھی جب کبھی دو چار سیب یا ناشپاتیاں گھر لے کر آتا تو انھیں چھیل کر بڑا حصہ بوڑھے والدین کو دیتا تھا اور چھوٹا حصہ اپنے بچوں کو، خود میں چھلکے کھا کر ہی خدا کا شکر ادا کر لیتا تھا جس نے رنگت خوشبو اور مٹھاس چھلکوں میں بھی رکھ دی ہے۔
اب والدین عرصہ دراز ہوا روپوش ہو کر خاک نشین بن گئے ہیں اور میرے دل کے نخلستانوں میں پھول بن کر مسکراتے ہیں۔ میرے بچے بھی خیر سے بڑے ہو چکے ہیں۔۔۔ اپنا اپنا کماتے کھاتے ہیں الحمدوللہ۔۔۔
مگر اب بھی میں سیب کے چھلکے خاموشی سے کھا لیتا ہوں۔
میں نے دوسرا بڑا جرم یہ کیا کہ اپنی ہڈیاں توڑ توڑ کر عمر بھر سخت محنت و مشفقت کی۔ اپنے انہی بچوں کو اپنی حیثیت سے بڑھ کر اعلی تعلیم دلوانے کی جان توڑ سعی کی۔
می لارڈ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ امریکن پرائیویٹ اسکولوں کی فیسیں کتنی زیادہ ہیں۔
یہ فیسیں ادا کرنے کے لیے مجھے ہر بار تین تین نوکریاں کرنی پڑیں تو میں نے ہنسی خوشی کیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے سرکار کہ کئ بار میں دن بھر کام کی تھکن کی بدولت رات کو سو نہیں سکتا تھا۔ رات کو اٹھ اٹھ کر اپنے سوئے ہوئے بچوں کا مکھ چوم لیتا یا صحن میں اگائے ننھے منے شہتوت کے پودے کو پانی دے کر دیکھنے لگتا۔۔۔
مجھے کامل یقین تھا کہ ایک دن یہ ضرور پھل لائے گا اور بڑا سایہ دار درخت بن جائے گا۔
مجھے پاکستانی شہتوت بچپن سے ہی بہت اچھے لگتے تھے۔ پھر میں امریکہ میں آ کر بس گیا تو یہاں کے میٹھے رسیلے چھوٹے سے توت میں کبھی وہ مزہ نہ ملا جس کے سواد کی میری زبان بچپن سے عادی تھی۔
میں نے جب بہت کڑی مشقت اور دقت کے باوجود اپنا گھر بنا لیا تو سب سے پہلے امریکن ایگریکلچر محکمے سے امپورٹ لائسنس لے کر پاکستانی شہتوت کا پودا منگوا کر گھر میں لگایا تھا۔ اسے بچوں کو طرح نگہداشت کر کے بڑا کیا۔۔۔
پھر ایک برسات میں بہت بارش ہوئ۔۔ تمام رات بارش برستی رہی،
میں اٹھ اٹھ کر اپنے پودے کی اور گھر کی سلامتی کی دعائیں مانگتا رہا مگر می لارڈ۔۔۔
صبح ہوتے ہوتے وہ پودا مرجھا چکا تھا۔۔۔
پھر میں سوکھتا ہی چلا گیا می لارڈ۔۔۔۔
اور میرے بچے بڑے ہوتے چلے گئے۔ میرے بچوں کو اب میری بوڑھی بدصورت شکل سے بھی گھن آتی تھی۔ وہ اپنے دوستوں سے اسی بنا پر شرمندہ رہتے تھے کہ ان کا باپ ایک بدیسی ہے۔
میں نے جی توڑ کر محنت کی اور ایک بیٹی کو اعلی تعلیم کے لیے پیرس بھیج دیا۔۔۔
می لارڈ جب وہ بہت اچھے نمبروں سے پاس ہو گئ تو میں نے اسے سر پرائز دینے کی ٹھانی۔ جناب اعلی میں تو فٹافٹ ٹکٹ کٹا کر اس کے شہر پہنچ گیا۔
وہ مجھے دیکھ کر نہال ہو گئ مگر کہنے لگی، ڈیڈی یہاں کسی کو پتہ نہیں چلنا چاہیے کہ آپ دیسی ہیں۔
وہ مجھے ایک نہایت مہنگے ریستوران میں لے گئ۔۔۔
مگر وہاں جاتے ہی میری موت واقع ہو گئ۔۔۔
جی ہاں، وہ موت ہی تھی می لارڈ۔۔۔
وہاں اس کے کسی دوست نے ہمیں دیکھ لیا تو وہ یکدم مجھ کو دور ہٹ کر بیٹھ گئ اور مجھے اپنا باپ تسلیم کرنے سے انکاری ہو گئ۔۔۔
اس رات میری سسکیاں میرا سینہ توڑ کر نکلنے لگیں، صبح ہوتے ہی میں نے واپسی کا نیا ٹکٹ کٹوایا اور امریکہ واپس لوٹ آیا۔
یہاں واپس آتے ہی میں نے شہتوت کا ایک نیا پودا ترنت منگوا لیا اور جان توڑ کر اس کی نگہداشت میں جٹ گیا۔
میری بیٹی نے گھر واپس آ کر مجھ سے معافی مانگ لی اور میں نے اسے سچ مچ معاف بھی کر دیا۔
می لارڈ بچے غلطیاں کرتے ہی ہیں اور بڑوں کو انھیں معاف کرنا ہی پڑتا ہے مگر میری ایک اور بڑی غلطی یہ بھی تھی کہ میں نے بچوں کے لیے ایک بڑی جائیداد بنانے کے لیے اپنی صحت کا کوئ خیال نہ رکھا۔
میں نے اپنے شہوت کی نگہداشت میں کوئ گرمی سردی نہ دیکھی تو تین برس بعد ہی اس نے سال میں دو مرتبہ شاندار میٹھے رسیلے شہتوتوں کی ایسی فصل دینا شروع کر دی جو ہر سال بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔
تنخواہیں تو میرے بچوں کی بھی ہر سال بڑھ جاتی ہیں مگر میرے بچے مجھے صرف فادر ڈے اور میری سالگرہ کے دن ہی یاد رکھتے ہیں۔
بوڑھا ہو کر بھی بھی گھر کی تمام تر زمہ داریاں میری ہی ہیں۔
گھر میں کوئ چیز ٹوٹ جائے تو مجھے ہی اس کی مرمت کروانا پڑتی ہے۔
گھر کی تمام اشیاء ہی میری طرح بوسیدہ، دقیانوسی، پرانی اور ناکارہ سمجھی جاتی ہیں۔ ابھی بھی اپنے سارے کام خود کر لیتا ہوں مگر بچوں کی نظر میں تو میں ایک کاہل نکما اور نکٹھو شخص ہی ہوں جو ہمہ وقت چارپائیاں ہی توڑتا رہتا ہے۔
می لارڈ میں ہاتھ جوڑ کر ملتمس ہوں کہ مجھے میرے بچوں سے بچایا جائے۔
مجھے لگتا ہے کہ میری اولاد مجھے میرے ہی بنائے گئے گھر سے نکالنے پر درپے ہے۔
مگر میں اپنی زندگی کے آخری سانس اسی شہتوت کے ٹھنڈے سائے تلے لینا چاہتا ہوں جس کے پتے اج بھی مجھے دیکھ کر مسرت سے تالیاں بجاتے ہیں اور ہلنے لگتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ یہ درخت میرے بڑھاپے میں مجھے اپنے سایہ عافیت میں سنبھالے رکھے گا۔
میں ملتمس ہوں کہ آپ کوئ نیا قانون بنائیں۔۔۔
ایک ایسا قانون جس کے تحت بچے اپنے بوڑھے والدین کو ان کے اپنے گھروں سے بے دخل نہ کر سکیں۔ بھلے انھیں جنگل میں درختوں تلے چھوڑ آیا کریں۔۔۔
حضور والی۔۔۔۔
پہلے بھی کئ معاشروں میں یہی قانون رائج تھا۔
جب والدین بوڑھے ہو جاتے تو ان کے اعزاز میں اولاد ساری برادری کی دعوت کرتی، پھر بڑے کروفر اور اہتمام سے پورا قبیلہ انھیں جنگل میں تنہا چھوڑ کر واپس لوٹ جاتا۔۔۔
می لارڈ۔۔۔
مجھے بتایا جائے کہ میں اب کیا کروں؟
میرے جنگل میرے اندر اگتے ہیں اور بہت گھنے ہو چکے ہیں۔۔۔
مجھ پر رحم کیا جائے اور مجھ سے میرا شہتوت کا درخت مت چھینا جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply