سب سے پہلے یاد رکھیں کہ گھبرانا نہیں ہے۔۔محمد طیب

یہ جملہ ہر زبان زدِ عام ہے ایک مشہور شخصیت نے جو کہا ہے۔ اس پر مجھے ایک کہانی یاد آرہی ہے جو میں نے پڑھی اور رہا نہ گیا کہ آج کچھ لکھ ڈالوں۔ تو بات کچھ یوں ہے کہ ایک شخص جو بیرون ملک مقیم تھا۔ خوشحال زندگی گزر رہی تھی کہ وہاں کے حالات بگڑ گئے۔ واپس اپنی عرض پاک پر آگئے۔دو سالوں بعد واپس جانا ہوا، تو نئے سرے سے آغاز کیا۔خدا کی کرنی کچھ یوں ہوئی کہ کسی کام کے باعث پاکستان آئے اور قدرت کی آزمائش نے آلیا اور بیمار ہو گئے۔ بیماری کے باعث واپس جانا ممکن نہ تھا۔ کچھ روز گزرے تو سوچا وہاں سے اپنی جائیداد اور بزنس کو کلیم کیا جائے۔ اپنی حق حلال کی،محنت کی کمائی واپس لے آؤں اور گھر والوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہیں لیکن شاید قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ کیوں کہ ہمارے سرکاری ادارے تو اس کا مال ہڑپ چکے تھے اور ڈکار تک نہ لیا۔ بلآخر آج تک سفارت خانے،عدالت اور دیگر اداروں کے چکر کاٹ  کر اس نہج پر آگیا کہ اس نے اپنی ٹھیکے پر لی ہوئی گاڑی پر لکھ کر لگا دیا کہ زندہ انسان کی آنکھ برائے فروخت۔ لیکن شومئی  قسمت کہ سنوائی نہ ہوئی اور قرض داروں کے ڈر سے در بدر منہ چھپائے پھرتا ہے۔ لیکن جناب ہمیں تو بس یہی کہا جاتا ہے کہ گھبرانا نہیں ہے۔ چاہے تم مرنے والے ہو اور پیچھے چار بچے اور بیوی بھوکے بھیڑیوں کی ترسی نگاہوں کے سامنے ہوں لیکن صاحب گھبرانا نہیں ہے۔ برمش بلوچ جیسی بچیاں درندوں کے ہاتھوں نوچی جائیں۔اس کے ملزموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے بجائے کرنل کی بیوی کی باتوں کو اچھالنے والے کم ظرف لوگ کئی معصوموں کی غربت کا مذاق اُڑانے والے،بے گناہ 14 خون بہانے والوں کو پچاس روپے کے  سٹام پیپر پر باہر بھیجنے والے حکمران بس یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ بھائی گھبرانا نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہ بلوچ خاتون جو اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔ ہر سرکاری ادارے سے یہ صدائے باز گشت اس کے کانوں کی دہلیز کو چھوتی ہے کہ محترمہ گھبرانا نہیں ہے۔سستے تیل کے نام پر لوگوں کو بیوقوف بنانے والے،بجلی، گیس اور ضروریات زندگی کو مفلوج کرنے کی حد تک لانے والے بس یہی صدا لگاتے ہیں گھبرانا نہیں ہے۔ اس پر مجھے اس شخص کی یاد آتی ہے جو رمضان کی راتوں میں آکر کنستر پیٹ کر لوگوں کو کہتا ہے جاگدے رہنا ساڈے تے نہ رہنا۔یا پھر ان سب سے بہتر تو وہ پان والا ہے جو سامنے سے پوچھتا ہے کہ بھائی چونا لگانا ہے یا نہیں۔لگانا ہے تو کتنا لگانا ہے ریاست مدینہ کے خواب دکھانے والے،نئے پاکستان کی امید دلانے والے نام نہاد تبدیلی کے نام لیوا بس یہی کیوں  الاپ رہے ہیں گھبرانا نہیں ہے۔ان تمام حالات میں بھی انسان جیسے تیسے چل رہا تھا کہ جناب ایک عالمی وبا آدھمکی۔جسے آج کل کورونا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس پر بھی انوکھی منطقیں اور دلیلیں دی گئیں۔لیکن مشہور زمانہ وہی قول دہرایا گیا کہ جناب پہلی بات یاد رکھیں کہ گھبرانا نہیں ہے۔اس کے آتے ہی ہمارے اور آپ کے کپتان عوام کے سامنے آئے اور خوشخبری کے نام پر لولی پوپ پکڑا کر چل دئیے۔بجلی کے بل کے نام پر،گیس کے بل کے نام پر دیئے گئے دلاسے ایک سہانے خواب کی مانند آنکھ کھلتے ہی ہوا ہو گئے۔جو بل معافی کی باتیں کی جارہی تھیں وہ ڈبل کر کے بھولی عوام سے نچوڑے جا رہے ہیں۔ایک طرف لوگوں کو نوکریوں کے لالے ہیں تو دوسری جانب بل کی ادائیگی نہ کرنے پر لائٹ،گیس اور دیگر ضروریات زندگی سے محرومی کا ڈر۔۔لیکن صاحب ہم تو پھر بھی یہی کہیں گے گھبرانا نہیں ہے۔اس کے علاوہ غریب عوام کو بارہ ہزار کا جھانسہ دیکر لمبی لمبی قطاریں لگانے کے بعد بھی سوائے حسرت اور نفرت کے علاوہ کیا دیا۔میری صرف اپنے حکامِ بالا،اور معزز عدلیہ سے یہی درخواست ہے کہ خدارا قیامت سے پہلے قیامت نہ ڈھائیں۔انسانوں میں انسانیت کو قائم رکھیں۔یہ نہ ہو کہ علم بغاوت بلند ہو جائے اور تخت و تاج خاک آلود ہوجائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply