صنفی تقابل۔ایک تجزیہ۔۔۔ربیعہ فاطمہ بخاری

ایک گروپ میں عورت اور مرد پہ گرما گرم بحث جاری تھی ۔ میں نے کسی بھی پوسٹ پہ کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ میں ہر دو اصحاب کے موقف سے اتفاق نہیں کرتی۔ میں بنیادی طور پہ “عورت بمقابلہ مرد” کی قائل ہی نہیں۔ مجھے کسی کا بھی عورتوں کو ان کی خصلتوں،بحیثیت ایک عورت کے، یا مرد کو بطورِ مرد اس کی فطرت کے کسی رنگ کو موضوعِ طعن بنانا ویسے ہی بالکل خلافِ فطرت لگتا ہے کہ مرد ہو یا عورت، وہ بنیادی طور پہ انسان ہے۔ اور انسان فطرتاً نہ تو فرشتہ ہے، نہ ہی شیطان۔ یہی اس کے اشرف المخلوقات ہونے کی وجہ ہے کہ انسان کو ربِّ کائنات نے فرشتوں کی طرح شہوتِ نفس، بھوک، رنج، غم، خوشی سے مبرّا نہیں کیا کہ اس سے کبھی گناہ سرزد ہونے کا امکان ہی نہ ہو اور نہ ہی یہ شیطان کی طرح مطلقاً نافرمان اور راندہء درگاہ ہے۔

اب بطورِ انسان تاریخِ انسانی نے بہت سے نمرود، فرعون، شدّاد، حجّاج بن یوسف سمیت ان گنت ظالم ترین مرد دیکھے تو وہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر، برگزیدہ ترین ہستیاں بھی اسی مرد جاتی کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ جہاں تاریخِ انسانی میں سیّدہ آسیہ، ملکہ بلقیس، امّاں خدیجةالکبٰرؓی، امّاں عائشہ صدّیقہؓ، سیّدہء کائنات جنابِ فاطمةالزہرہؓ جیسے نگینے عورت جاتی کے ماتھے کا جھومر اور سر کا تاج ہیں، وہیں بلم بن باعور کی بیوی اور حضرت لوطؑ کی بیوی جیسی بد بخت عورتیں بھی تاریخ کا حصّہ رہ چکی ہیں۔

کسی ایک صنف پہ، کسی بھی طرح کی انسانی خصلت کو اسی کیلئے مخصوص قرار دے دینا بنی نوعِ انسان کے ساتھ مطلقاً زیادتی ہے۔ کیا دنیا میں سازشی، بد نیّت، بے ایمان، زبان دراز مرد نہیں ہیں، یا کبھی کسی نے کوئی بھی ظالم، سفّاک، پتھر دل، جنسیّت زدہ عورت نہیں دیکھی؟ ۔ہر انسان بحیثیت  انسان دوسرے انسان سے مختلف ہے۔ ایک ہی ماں باپ کے زیرِ سایہ پرورش پانے والے سگے بہن بھائیوں کے مزاج بعض اوقات زمین اور آسمان کا فرق لئے ہوئے ہوتے ہیں تو آپ بحیثیت  مجموعی کسی ایک صنف پہ، کسی بھی ایک خصلت کا tag کیسے لگا سکتے ہیں؟۔

یہ تو تھا ایک عمومی تجزیہ۔ اب آتی ہوں میں آج کے دور میں اس طرح کی ابحاث کے گمبھیر  ترین نتائج کی طرف ، جن کی بناء پہ میں اس طرح کے کسی بھی نقطہء نظر کو سخت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہوں۔ باوا آدمؑ اور امّاں حوّا سے لیکر آج تک نسلِ انسانی عورت اور مرد کے باہمی اختلاط کی بدولت ہی وجود میں آتی رہی۔ کروڑ   ہا سال گزر گئے۔ ارب ہا  انسان اس کرہء ارض پہ پیدا ہوئے اور نابود ہو گئے۔ اتنے لمبے عرصے میں کیا کبھی مرد اور عورت کے درمیان کوئی اختلاف نہیں رہا۔؟ کیا عورتوں کا استحصال نہیں ہوتا رہا۔؟ کیا مردوں نے کبھی عورتوں کے ہاتھوں فریب نہیں کھایا؟ کیا جوڑوں کے درمیان طلاقیں نہیں ہوتی رہیں؟ کیا عورتوں پہ گھریلو تشدد نہیں ہوتا رہا؟ کیا مرد عورتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو کے، بلم بن باعور کی طرح اپنے ایمان تک سے محروم نہیں ہوتے رہے؟

یہ سب اور اس سے بھی کہیں زیادہ معاملات اسی کرّہء ارض پر انہی دو اصناف کے درمیان پیش آتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود کیا کبھی مرد اور عورت نے آپس میں رشتہء ازدواج سے منسلک ہونے سے انکار کیا؟۔کیا کبھی انسانی آبادی، تاریخ کے کسی بھی مقام پہ، کم ہوتی دیکھی گئی؟۔ کیا کبھی عورت اور مرد کو بطورِ صنفِ مخالف ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح بر سرِ پیکار دیکھا گیا کہ عورتیں کسی مرد کیلئے اپنی انا اور ناک نیچی کرنی کے  بجائے، خود کما کے تنہا رہنے کو ترجیح دینے لگی ہوں؟۔تاریخِ انسانی نے ایسا وقت کبھی نہیں دیکھا۔ لیکن بد قسمتی سے ہم اسی دور کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اور بد قسمتی سے اس سوچ کی ایک بہت بڑی وجہ ہمارے “فیس بکی دانشوران” ہیں۔

ابھی کل پرسوں میری ایک بہت پیاری آن لائن سہیلی نے مردوں کے حوالے سے ایک پوسٹ لگائی اور میرے یہ دیکھ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے کہ تقریباً وہاں موجود ساری ہی پڑھی لکھی اور اکثر ملازمت پیشہ خواتین کے الفاظ کیا تھے، کتّے کی دُم ( مرد) سالہا سال بھی زمین میں دبی رہے تو وہ ٹیڑھی ہی رہتی ہے، ایسی کسی کتّے کی دُم کو سیدھا کرنے پہ اپنی توانائیاں صرف کرنے سے بہتر ہے کہ ہم خود کمائیں، خود کھائیں اور زندگی سے لطف اٹھائیں۔۔۔ میں نے اپنی ایک پرانی تحریر میں ایک بار لکھا تھا کہ خدارا ان دو اصناف کو اس نہج پہ نہ لے کے جائیں، جب اگلے پچّیس تیس سال بعد عورتیں مردوں کی نفرت میں اس حد تک آگے چلی جائیں کہ ان کے ساتھ مل کے گھر بسانے سے ہی انکار کر دیں۔ اور مجھے وہ وقت مزید قریب آتا دکھائی دے رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خدارا!ایک دفعہ پھر اپنے قلم کاروں سے خاص طور پہ التجا کروں گی کہ  اس ماحو ل میں ہمیں ہر ممکن دونوں اصناف میں، جب وہ زوجین کے رشتے میں بندھ جائیں، ہم آہنگی، محبّت، مودت، سمجھوتہ، انا کے خاتمے، ایک دوسرے کی خدمات کے اعتراف کا جذبہ اجاگر کرنا چاہیے۔ نہ کہ عورت کو لومڑی صفت اور مرد کو شیطان صفت بنا کے  پیش کریں۔ خود تو اپنے اپنے شوہروں اور بیویوں کے ساتھ مزے سے، خوشگوار زندگی گزار رہے ہوں اور ہماری لگائی ہوئی آگ سے نئی نسل کی دونوں اصناف ایک دوسرے سے نفرت کرنا شروع کر دیں۔ غالباً مولانا وحید الدّین کی ایک کتاب میں ایک فقرہ پڑھا تھا اور میں اپنی کئی تحاریر میں وہ لکھ چکی ہوں۔ آج پھر لکھوں گی  کہ مرد اور عورت ایک دوسرے کے مثنّٰی، duplicates، نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کے تکملہ ، compliments, ہیں۔ خدارا جنہیں ربِّ کائنات نے ہمارا “نصف بہتر” بنایا ہے، اسے “نصف بدتر ” بنا کے پیش نہ کریں۔ وما علینا الّالبلٰغ۔

Facebook Comments

ربیعہ فاطمہ بخاری
لاہور کی رہائشی ربیعہ فاطمہ بخاری پنجاب یونیورسٹی سے کمیونی کیشن سٹڈیز میں ماسٹرز ہیں۔ تدریس کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں لیکن اب ایک خاتونِ خانہ کے طور پر زندگی گزار رہی ہوں۔ لکھنے کی صلاحیت پرانی ہے لیکن قلم آزمانے کا وقت اب آیا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply