پرویز ایم نذیر کا فن و شخصیت/ڈاکٹر شاہد ایم شاہد

میرے لئے بڑے استحقاق کی بات ہے کہ آج مجھے جس شخصیت پر بات کرنا مقصود ہے وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔ یہ کہنے کی بات نہیں ہے بلکہ حقیقی معنوں میں ان کی علم و ادب سے گہری وابستگی ہے۔اپنے اندر سوچ و خیال کا جوہر رکھتے ہیں۔ اخبارات اور جرائد و رسائل کا بڑی باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں شوق اور جذبہ کامیابی کا ضامن بنا دیتا ہے۔میرا پہلا پڑاؤ سن 2008 میں ہوا اور آج تک محبت کی دھوم مچائے بیٹھا ہے۔وہ مذہبی ، اخلاقی ، سماجی ، معاشی اور معاشرتی اقدار میں سرگرم ہیں۔ کئی عشروں سے قلمی چراغ جلا کر اپنی قوم کی آواز ایوانوں تک پہنچاتے ہیں۔اپنی گوناگوں خوبیوں کی بنا پر عوام الناس میں شہرت کی سیڑھی پر قدم رکھ چکے ہیں۔فطرت میں لکھنے پڑھنے کا شوق پال رکھا ہے۔لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔اپنے کالموں میں سچ کا بیج بوتے ہیں۔عوامی ، قومی اور مذہبی مسائل کی نشاندہی کر کے ثابت کر دیتے ہیں کہ وہ واقعی حالات پر عقابی نظر رکھتے ہیں۔ زندہ دل اور روح پرور انسان ہیں۔
وہ انسان کبھی نہیں مرتا جو لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے۔ شعر و سخن میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ طنز و مزاح کی محفل لوٹ لیتے ہیں۔ ان کی شاعری اردو اور پنجابی میں دستیاب ہے۔خاص طور پر اپنی مادری زبان پنجابی سے بے حد لگاؤ رکھتے ہیں۔
ان کا پہلا شعر ی مجموعہ* مٹی چمے مٹی نوں* شائع ہو چکا ہے۔روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد میں سینکڑوں کالم لکھ چکے ہیں۔ جن کی نوعیت مذہبی ، سیاسی ، معاشرتی اور سماجی ہے۔
جنہیں بے حد پسند اور سراہا جاتا ہے۔
ان کے شعری مجموعہ* مٹی چمے مٹی نوں* پر بات کریں تو دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔کتاب موضوعاتی اعتبار سے قابل رشک ہے۔فاضل دوست کا یہ شعری مجموعہ نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں اقدار و روایات، خوشی و غمی ،
آہ و نالہ ، محبت و نفرت ، عظمت ماں ، توبہ و خلاصی جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔
انہوں نے اپنی شاعری میں خیالات اور جذبات کو آزاد ہو کر بیان کیا ہے۔راقم ان کے اس اچھوتے پن کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ کتاب میں بات انہوں نے چونکہ مٹی سے شروع کی ہے اور مٹی ہم سب کو اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ انسان زمین کی مٹی سے بنایا گیا ہے۔خدا نے پہلا انسان اور پہلا نبی حضرت آدم کو پیدا کیا۔ خدا نے سب سے پہلے اس کے نتھنوں میں زندگی کا دم پھونکا تو وہ جیتی جان ہوا۔
بلاشبہ زندگی خدا کی امانت ہے جو اسے مختصر وقت کے لئے دی گئی ہے۔ایوب نبی کے مطابق انسان جو عورت سے پیدا ہوتا ہے تھوڑے دنوں کا ہے اور وہ دکھ سے بھرا ہے۔وہ پھول کی طرح نکلتا اور کملا جاتا ہے۔اس کی ساری شان و شوکت گھاس کے پھول کی مانند ہے۔انسان کے مرنے کے بعد اس کی ساری شان و شوکت مٹی میں دفن ہو جاتی ہے۔اور زمین کی مٹی کے اندر یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنے اندر ہر چیز جذب کر لیتی ہے۔اگر اس بات کا فکری ، الہاتی ، معاشرتی ،سماجی اور تہذیبی تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان خاک ہے اور وہ پھر خاک میں لوٹ جائے گا۔کیونکہ یہ دنیا اس کا اصلی وطن نہیں ہے۔اسے ایک نا ایک دن اپنے خالق حقیقی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔دنیا میں جتنی بھی رونق اور چہل قدمی ہے وہ سب خدا کی برکت کے تصور سے معمور ہے۔اگر انسان کی زندگی سے خوشی ،غم، محبت ،عداوت ، ہمدردی اور خلوص جیسے جذبے ناپید ہو جائیں تو دنیا میں سناٹا چھا جائے گا۔خاندانی اثاثے بکھر جائیں گے۔تعلقات و روابط کی فضا سوگوار ہو جائے گی اور ساتھ ہی ہماری دلچسپیاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ مگر یہ بات ہم سب کو مجبور کرتی ہے کہ جذبات توانائی سے معمور ہوتے ہیں جو ہم سب کو آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں اتحاد و یگانگت کی روح میں باندھ دیتے ہیں۔تجربات و مشاہدات کا نچوڑ مہیا کرتے ہیں۔
دیگر شعرا کی طرح موصوف نے اپنی شاعری میں فلسفیانہ خیالات ، شہدا کو خراج تحسین ، خدا کی بادشاہی ، امید نو ، امن کی فاختہ ، سچا ضمانتی ، آدھی رات ، فضیلت ماں ، اپنی شناخت ، توبہ توبہ ، اور الیکشن جیسے موضوعات کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔فاضل دوست نے شاعری کو سچائی اور عرق ریزی کے ساتھ صفحہ قرطاس پر بکھیر کر قاری کی دلچسپی کو بڑھا دیا ہے۔ فاضل دوست نے ہم سب کو متنبہ کیا ہے کہ دنیا انسان کا مستقل ٹھکانا نہیں ہے اور ہر انسان کو اس بات کے لئے تیار رہنا چاہیے کہ اس نے ایک نہ ایک دن مٹی میں دفن ہونا ہے۔انہوں نے مغز پاشی کر کے زبان زد ہونے کی کوشش کی ہے۔ظاہر ہے انسان ماحول اور فطرت سے سبق سیکھتا ہے۔انہوں نے اپنے شعری مجموعہ میں دلچسپ انداز سے انسانی نفسیات کا جائزہ لیا ہے۔کیونکہ انسانی فطرت کسی ایک چیز پر قناعت نہیں کرتی بلکہ وہ تحقیق و جستجو کے نت نئے چراغ جلاتی ہے۔اس کی سچی اور خوبصورت مثال یہ ہے کہ اگر انسان کو زندگی میں ایک چیز مل جائے تو خوب تر کی تلاش کرتا ہے۔انہوں نے اپنی ہر نظم میں دلی جذبات سے کام لیا ہے تاکہ قاری کا دل بے اختیار ہوکر اس خوبی کو اپنانے پر مجبور ہو جائے جن کی فطرت عکاسی کرتی ہے۔یہی ایک لکھنے والے کی خوبصورتی ہوتی ہے جواسے تبدیلی کی مہم میں کھڑا کرتی ہے۔میں فاضل دوست کی اس کاوش پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور دعا گو ہوں خداوندکریم انہوں صحت و سلامتی کے ساتھ مزید قلمی و قلبی وسعت عطا کرے۔
نیک تمناؤں کے ساتھ:

Facebook Comments

ڈاکٹر شاہد ایم شاہد
مصنف/ کتب : ١۔ بکھرے خواب اجلے موتی 2019 ( ادبی مضامین ) ٢۔ آؤ زندگی بچائیں 2020 ( پچیس عالمی طبی ایام کی مناسبت سے ) اخبار و رسائل سے وابستگی : روزنامہ آفتاب کوئٹہ / اسلام آباد ، ماہنامہ معالج کراچی ، ماہنامہ نیا تادیب لاہور ، ہم سب ویب سائٹ ، روزنامہ جنگ( سنڈے میگزین ) ادبی دلچسپی : کالم نویسی ، مضمون نگاری (طبی اور ادبی) اختصار یہ نویسی ، تبصرہ نگاری ،فن شخصیت نگاری ، تجربہ : 2008 تا حال زیر طبع کتب : ابر گوہر ، گوہر افشاں ، بوند سے بحر ، کینسر سے بچیں ، پھلوں کی افادیت

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply